یہ بربریّت ہے‘ درندگی ہے‘ بہیمیت ہے۔کیا ایسے لوگوں سے بھی مذاکرات ہو سکتے ہیں؟ریاست کی کون سی کمزوری ہے جو طالبان کے ہاتھ میں ہے؟کیا ہم اس قابل نہیں ہیں کہ اس عفریت کا مقابلہ کر سکیں؟کیا ہماری افواج کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ آپریشن کر سکیں اور دہشت گردوں کا خاتمہ کر سکیں؟انہوں نے کس بہیمیت سے ایف سی کے جوانوں کو قتل کیا ہے اور کس درندگی سے انہوں نے اس بربریت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کی ہے۔ کیا وہ ویڈیو کوئی انسان دیکھ سکتا ہے؟سچ بات تو یہ ہے کہ طالبان کی بنائی ہوئی کمیٹی کے اراکین کو اس اقدام کے بعد ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دینا چاہیے تھا۔مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم کو تو فوراً اس کمیٹی سے علیحدہ ہو جانا چاہیے ورنہ تو یہی بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ ان اراکین نے بھی ان کے اس ظالمانہ اقدام کی حمایت کی ہے اور ان کے اس اقدام کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ان کے ہر خودکش دھماکے اور قتل و غارت کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ لوگ کس دلیل کے ساتھ طالبان کی طرف سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کی یہ نمائندگی کر رہے ہیں اگر ان پر اِن کا کنٹرول نہیں ہے تو پھر کس لیے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ مولانا عبدالعزیز مدظلّہ کی تو خیر بات ہی اور ہے ۔ان کے مقاصد تو اسی طرح ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ اس طرح کا کردار ادا نہ کرتے تو بھلا میڈیا کس طرح انہیں بار بار بلاتا اور ان کی ''عالمانہ‘‘ گفتگو سنواتا۔کاش طالبان کی بنائی ہوئی کمیٹی مستعفی ہو جاتی اور قوم کو بھی احساس ہو جاتا کہ یہ لوگ واقعی ملک میں امن چاہتے ہیںاور اس ملک کو دہشت گردی سے نکالنا چاہتے ہیں۔لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ لوگ ظلم کے اس کاروبار میں برابر کے حصے دار ہیں یا طالبان پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔اگر کنٹرول نہ ہونے کی بات مان لی جائے تو پھر مذاکرات کا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ طالبان ملک میں خوف کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ حکمرانوں‘عوام‘مسلح افواج اور دوسرے ریاستی اداروں کے اندر اپنا ڈر پیدا کر کے ان کے عزم اور صلاحیت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ یوں خوف کی اس فضا میں وہ اپنی شرائط منوانا‘ اپنے قیدیوں کو رہا کرانا اور شریعت کے معاملے میں اپنی مرضی منوانا چاہتے ہیں۔بندوق کے زور پر اس ملک کے عوام کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں۔سب سے پہلی حکمتِ عملی تو ان کی حکومت اور عسکری اداروں کو مذاکرات پر آمادہ کرنا تھا اور اس کے بعد جنگ بندی پر قائل کرنا تھا لیکن خود انہوں نے کوئی پہل نہیں کی۔ورنہ ملک کے آئین کو نہ تسلیم کرنے والوں اور دفاعی اداروں کو نشانہ بنانے والوں کے ساتھ جنگ تو ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں۔
لگتا ہے کہ حکومت اور ادارے ان کی چال میں آ گئے ہیں وہ ان کے خوف میں مبتلا ہو کر اپنی کمزوری کو ظاہر کر چکے ہیں۔کیا
حکومت اور اس کے اداروں کی بے بسی دیکھ کر مایوس ہو جانا چاہیے؟کیا طالبان کے خوف سے حکومت کو امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ترک کر دینا چاہیے؟اگر حکومت کمزوری نہ دکھاتی تو کبھی ایسی صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ان کی شرائط سامنے آتیں نہ وہ ظلم اور بہیمیت کے پہاڑ توڑتے۔ بگڑے بچوں کو سدھارنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں لیکن ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے تو اپنا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ادھر ایک امریکی تھنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کسی صورت میں بھی افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے حق میں نہیں ہے۔ اب افغانستان کی صورتِ حال نائن الیون سے پہلے کی صورتِ حال سے خاصی مختلف ہے۔ اس وقت کی طالبان حکومت اور طالبان پاکستان کے احسان مند اور دوست تھے لیکن اب کے طالبان اور مُلاّ عمر کا ذہن پاکستان کے حوالے سے بدل چکا ہے۔پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو
مُلا عمر کی حمایت حاصل ہے اور ملا عمر کی جانب سے مولوی فضل اللہ کو تحریک طالبان پاکستان کا امیر مقرر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مُلاّ عمر پاکستان میں دہشت گردی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے اندر صرف طالبان کی حکومت کا اس طرح حامی نہیں رہا جیسا کہ پہلے کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر طالبان کی حکومت افغانستان میں قائم ہو گئی تو وہاں لازماً ان کے ماڈل کی شریعت نافذ ہو گی۔ایسی صورت میں پڑوسی پاکستان پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے۔طالبان نے پھر اپنے ملک کی حد تک محدود نہیں رہنا بلکہ وہ پاکستان میں بھی ایسا نظام چاہیں گے جہاں پہلے سے ان کے حامی اور ان کے اسلام کے پیرو کار ہوں گے۔اگر پاکستان میں ایسا نظام لانے کی کوشش کی گئی تو یہاں خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔ یہ خوف پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے سٹریٹجک ڈائیلاگ کی اصل بنیاد ہے۔سو ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ میرا ہی شعر ہے ؎
عجیب خوف دلوں میں بٹھا دیا گیا ہے
یہ شہر کیا تھا‘مگر کیا بنا دیا گیا ہے