تبدیل ہوتی پالیسی

اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ امریکہ میں اصل پالیسی ساز افراد اور ادارے وہ نہیں ہوتے جو بظاہر نظر آ رہے ہوتے ہیں اور یہاں صدر محض نمائشی علامت ہوتا ہے جو دنیا کو باور کرا رہا ہوتا ہے کہ سب فیصلے وہی کر رہا ہے اور وہ طاقتور ترین سربراہِ مملکت ہے‘ لیکن صدر اوباما نے اس تصور کو بدلنے کی پوری کوشش کی ہے اور اس روایتی سسٹم پر ایسی ضرب لگانے کی سعی کی ہے جس کے اثرات تادیر محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ کسی بھی کام کو کرنے کے لیے بہرحال کچھ شروعات ضروری ہیں جو امریکی انتظامیہ کی جانب سے کردی گئی ہیں۔ صدر اوباما تبدیلی کا نعرہ لے کر برسرِ اقتدار آئے تھے لیکن اس تبدیلی کے راستے پر انہیں جابجا رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں اپنی صحت کی پالیسی (Obama Care) کو نافذ کرنے میں اپنا پورا دورِ اقتدار دان کرنا پڑا۔ امریکہ میں بھی کوئی ایک مافیا نہیں بلکہ سینکڑوں مافیاز ہیں جن کے مفادات پر ضرب لگتی ہے تو وہ بلبلا اٹھتے ہیں۔ وہ کبھی ہیلتھ مافیا کی شکل میں سامنے آتے ہیں تو کبھی انشورنس مافیا کی صورت میں‘ کبھی ٹرانسپورٹ مافیا بن جاتے ہیں تو کبھی کنسٹرکشن مافیا۔ یہ مافیاز کسی بھی صورت میں اپنی اپنی ریاستوں میں وہ پروگرام اور پالیسیاں منظور نہیں ہونے دیتے جن سے ان کے کاروبار پر ضرب پڑے۔ اس مقصد کے لیے وہ ڈیموکریٹس اور ریپبلی کنز کے نمائندے خرید لیتے ہیں۔ لابی کرتے ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اوباما کیئر کا جو حشر ہوا سب جانتے ہیں اب اگر وہ منظور ہو کر نافذ ہو گیا ہے تو یہاں کے ڈاکٹرز نے اپنا ایک مافیا بنا لیا ہے۔ 
ٹیکساس ریاست میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے‘ وجہ یہ ہے کہ جب بھی پبلک ٹرانسپورٹ شہروں میں چلنے کا کوئی منصوبہ بنتا ہے تو کار ڈیلرز اور انشورنس مالکان ایکا کر لیتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ چلے گی تو ان کا بزنس نہیں چلے گا۔ گاڑیاں نہیں بکیں گی تو انشورنس بھی نہیں ہو سکے گی۔ لیکن ان سب رکاوٹوں کے باوجود صدر اوباما اپنی دُھن کے پکے نکلے اوباما کیئر منظور ہو کر نافذ ہو گیا۔ امیگریشن اصلاحات کے ایشو پر انہیں کامیابی مل رہی ہے اور فی گھنٹہ اُجرت بڑھانے کے لیے بالآخر انہوں نے ایگزیکٹو آرڈر جاری کردیا۔ جس سے عام آدمی کی کم از کم اُجرت فی گھنٹہ بڑھا دی گئی۔ اب آتے ہیں بیرونی محاذ کی جانب۔ اوباما نے عہد کر رکھا تھا کہ عراق‘ لیبیا‘ یمن‘ مصر اور افغانستان کے بعد انہوں نے مزید کوئی محاذِ جنگ نہیں کھولنا بلکہ پہلے سے کھلے محاذوں پر سے اپنے آپ کو واپس لانا ہے‘ بتدریج سمیٹنا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنا سپر پاور کا امیج بھی برقرار رکھنا ہے لیکن کوئی نہ کوئی قربانی ضرور دینا پڑتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شام کے معاملے پر روس کامیاب ہوا ہے درست نہیں۔ اگر جنگ اور تصادم کے بغیر‘ مفادات کی حفاظت ہو سکتی ہو تو جنگ کیوں کی جائے۔ سو شام کے معاملے 
میں سفارت کاری سے کام لینا مناسب سمجھا گیا۔ اگرچہ یوکرائن کے معاملے میں امریکہ کافی شور کر رہا ہے اور روس پر دبائو بڑھا رہا ہے‘ اکائونٹس اور فنڈز منجمد کر رہا ہے۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ امریکہ محض سفارتی دبائو بڑھا رہا ہے ورنہ کچھ بھی ہونے والا نہیں۔ رہ گیا افغانستان تو افغانستان سے رواں سال افواج کی واپسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ امریکہ کو یقین ہو چلا ہے کہ افغان طالبان کو وہ ختم نہیں کر سکتے اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی بھی حکومت افغانستان میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ افغانستان کا استحکام طالبان کے ساتھ مشروط ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے خود افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے کوششیں کیں۔ بیک ڈور چینلز استعمال کیے۔ اب بھی مختلف طریقوں سے بیک ڈور ڈپلومیسی جاری ہے۔ قطر میں طالبان کا دفتر کھولا گیا اور طالبان کے نمائندہ وفود کے ساتھ مذاکرات کیے گئے۔ یہ وہ کوششیں ہیں جو صدر اوباما 
نے کی ہیں اور جس کی مخالفت انہیں ہر سطح پر مل رہی ہے۔ انہی کوششوں اور ان کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اب امریکی میڈیا یہ کہنا شروع ہو گیا ہے کہ ہمارے صدر کی کوئی عزت نہیں کر رہا‘ کوئی انہیں سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ امریکہ پوری طرح افغانستان سے نہ جائے۔ امریکہ کو بھی یہ معلوم ہے کہ اگر وہ افغانستان سے نکل گیا تو وہاں طالبان کی حکومت قائم ہو جائے گی جس کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔ پاکستان کو یہ بھی خطرہ ہے کہ اگر طالبان‘ افغانستان میں آ گئے تو وہ پاکستان میں بھی طالبان کا اخذ کردہ نظام حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں گے جس کے لیے پاکستان میں بھی ان کے ہمدرد پہلے سے موجود ہیں۔ کچھ بھی ہو‘ امریکہ اس قضیے سے اب نکل جانا چاہتا ہے۔ القاعدہ کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور طالبان اس کے لیے اب وہ خطرہ نہیں رہے جو وہ نائن الیون میں محسوس کر رہا تھا۔ امریکہ اپنے آپ کو جنگوں سے دور رکھنا چاہتا ہے‘ بے شک اوباما کے مخالفین انہیں کہتے رہیں کہ اب دنیا میں امریکی صدر کی عزت نہیں رہی۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں