امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کو ہم دو اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں جو 50ء،60ء کی دہائی میں ہی اپنی مٹی اور وطن چھوڑ کر یہاں آ بسے تھے اور پھر دال روٹی کی جستجو میں ایسے پھنسے کہ دوبارہ پاکستان جانا نصیب نہ ہو سکا۔ ان لوگوں نے یہیں پڑھا‘ نوکریاں کیں‘ کاروبار کیا‘ شادیاں کیں اور سماج میں اپنا نام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ آج کتنے ہی ایسے پاکستانی ہیں جو نامور بزنس مین ہیں۔ کامیاب سیاستدان ہیں۔ مشہور وکیل‘ ڈاکٹر اور ڈپلومیٹ ہیں۔ یہ امریکی تھنک ٹینک اداروں اور پالیسی ساز فورمز میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکی انتظامیہ اور دفاعی اداروں میں بھی نمایاں ہیں۔ یہ بظاہر بہت خوش ہیں۔ اس وقت ان کی اگلی نسل بھی جوان ہو چکی ہے اور ان کے بچے سکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کے پورے کے پورے خاندان یہاں آباد ہیں۔ جو پاکستان میں رہ گئے ان کے ساتھ ان کا رابطہ واجبی سا ہے۔ پاکستان بہت ہی کم جاتے ہیں اور وہاں جانا کارِ زیاں خیال کرتے ہیں۔ ان کو پاکستان سے بہت کم دلچسپی ہے۔ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں نہ کسی قسم کے فلاحی پراجیکٹ میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کا کوئی سٹیک اب
پاکستان کے ساتھ وابستہ نہیں ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار صرف اس حد تک کرتے ہیں کہ ڈرائنگ روم اور ریستوران میں بیٹھ کر پاکستان کے حالات پر کُڑھتے ہیں۔ سیاستدانوں اور فوج پر کڑی تنقید کرتے ہیں لیکن کوئی بھی شخص عملی طور پر پاکستان کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ لوگ پاکستانی گلوکاروں‘ فنکاروں‘ شاعروں‘ کھلاڑیوں اور نامور لوگوں کے نام پر چندے دیتے ہیں۔ اخبارات میں تصویریں چھپواتے ہیں لیکن کسی جینوئن شخص اور کاز کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے ملک کے طالب علموں اور نادار لوگوں کے لیے کچھ کردیں یا وہاں کسی سیکٹر میں کچھ سرمایہ کاری کردیں تاکہ وہاں کے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں۔ وہاں تو سکیورٹی کی صورت حال بہت خراب ہے۔ وہاں کیسے سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ جب ان سے مزید پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا بھی تو کچھ فرض بنتا ہے۔ مٹی کا قرض کچھ آپ کو بھی تو چکانا چاہیے تو فوراً کہتے ہیں ''ہم ہی کیوں؟
We don't care‘‘۔ یہ جو "We don't care" والا رویہ ہے اس نے موجودہ اور آئندہ نسل کو پاکستان اور اس کے معاملات سے بالکل الگ تھلگ کردیا ہے۔ ان کی اگلی نسل تو پاکستان اور اردو زبان و کلچر سے بالکل ناواقف ہے۔ وہ پاکستانی ٹی وی چینل دیکھتے ہیں نہ انہیں پاکستانی خبروں اور ڈراموں سے کوئی دلچسپی ہے۔ یہ مکمل امریکی ہیں اور یہاں کے کلچر کے علاوہ کچھ دیکھنا‘ سننا نہیں چاہتے۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو بیسویں صدی کی آخری اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں امریکہ آئے‘ یہ لوگ ابھی جدوجہد کے مرحلے میں ہیں۔ ان کے بچے چھوٹے ہیں یا کچھ کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ چکے ہیں لیکن ابھی عملی زندگی میں داخل نہیں ہوئے۔ یہ نسل ابھی تک پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ان کے رشتہ دار‘ والدین یا خاندان کے دیگر افراد ابھی تک پاکستان میں ہیں۔ یہ اکثر پاکستان میں اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ فون پر گفتگو بھی کرتے ہیں اور سال دو سال میں ایک آدھ دفعہ پاکستان کا چکر لگا لیتے ہیں لیکن پاکستان کا چکر لگانے سے پہلے سو دفعہ سوچتے ہیں کہ جملہ اخراجات کا انتظام کیسے کیا جائے۔ ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو مختلف شعبوں میں نوکریاں کرتے ہیں اور بہت کم کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ہر دو سال بعد یہ سوچتے رہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ یہاں رہ کر پیسے کما کر واپس چلے جانا ہے لیکن ڈالرز کی تلاش‘ بچوں کی تعلیم اور دوسرے چکروں میں ایسے پھنسے کہ واپس نہ جا سکے۔ اب اُن کا دل چاہتا بھی ہے تو ان کے بچے انہیں واپس نہیں جانے دیتے۔ یوں وہ ایک ایسے Vicious Circle میں آ گئے ہیں کہ انہیں کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ یہ لوگ اندر سے خوش نہیں ہیں لیکن بتاتے کچھ نہیں۔ ان کی مجبوریاں ان کو بولنے دیتی ہیں نہ کچھ کرنے دیتی ہیں۔ یہ اپنے وطن کے لیے ترستے ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتے۔ ان کے وسائل انہیں اپنے وطن کے لیے کچھ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کی ساری زندگی اور جدوجہد اب مزید دولت کمانے‘ گاڑیوں‘ گھروں اور کریڈٹ کارڈز کی اقساط پوری کرنے اور بچوں کی تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے میں گزر رہی ہے۔ اس کے لیے انہیں دو دو نوکریاں یا مسلسل وقت کاروبار میں لگانا پڑتا ہے۔ ان کے دکھوں کا کتھارسس پہلی نسل کے دولت مند لوگوں کے منعقد کردہ فیشن شوز‘ موسیقی شوز‘ مشاعروں‘ کھلاڑیوں کے بینیفٹ اور چیریٹی پروگراموں میں شرکت کر کے ہوتا ہے۔ تھوڑے عرصے کے بعد یہ لوگ اور ان کی اگلی نسل بھی پاکستان سے الگ تھلگ ہو جائے گی۔ رفتہ رفتہ یہ لوگ بھی اجنبی بن جائیں گے۔ پھر یہ بھی اپنے وطن سے پوری طرح ناطہ توڑ کر اسی سرزمین کے ہو جائیں گے اور پھر جب ان میں سے کسی ایک سے پوچھا جائے گا کہ آپ پاکستان کیوں نہیں جاتے یا آپ پاکستان میں کیوں سرمایہ کاری نہیں کرتے یا آپ وہاں کے غریبوں اور طالب علموں کے لیے کچھ کیوں نہیں کرتے تو ان کا جواب ہوگا۔ وہاں سکیورٹی کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔ اور جب ان سے کہا جائے گا کہ آپ پر بھی تو وطن کی مٹی کا کچھ قرض ہے تو وہ فوراً کہیں گے کہ ''صرف ہم ہی کیوں؟ We don't care‘‘۔
میں آج کل ایسے ہی لوگوں کے درمیان رہ رہا ہوں۔