قرآن کریم میں لکھا ہے: کاہلی کا ارتکاب نہ کرو اور غم نہ پالو‘ تمہی غالب رہو گے‘ اگر تم مومن ہو۔ کیا عمران خان 23مارچ کو مینارِ پاکستان پر‘ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ منعقد کرنے میں کامیاب رہیں گے؟ میرا خیال ہے کہ امکان موجود ہے اور طویل عرصے کے بعد پارٹی پوری یکسوئی کے ساتھ اس کے لیے سرگرم بھی۔ اگر وہ ایسا کر سکی تویہ 30اکتوبر 2011ء سے بڑا واقعہ ہوگا۔ اس کے فوراً بعد کراچی‘ ملتان‘ پشاور اور کوئٹہ میں بھی ایسے اجتماعات کا انعقاد ممکن ہوگا۔ کپتان کبھی کبھار ترنگ میں ہو تو یہ کہتا ہے: میں پاکستان کا سب سے بڑا مہم چلانے والا ہوں‘ یا یہ کہ میں پاکستان میں سب سے زیادہ عطیات جمع کرنے والا شخص ہوں۔ اب کی بار لیکن صرف اس کی ذات نہیں‘ انحصار تحریکِ انصاف کے کارکنوں پر بھی بہت ہے۔ اگر وہ انہیں یکسو کرنے میں کامیاب رہا اور یہ کچھ ایسا دشوار بھی نہیں تو اپریل کے آخر تک وہ ملک کا مقبول ترین لیڈر بن کر ابھر سکتا ہے۔ پختون خوا میں اس کی برتری واضح ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ میدانِ جنگ پنجاب ہے‘ خاص طور پر وسطی پنجاب۔ پنجاب میں برتری قائم ہو جائے تو پیپلزپارٹی سے گریزاں سندھ کے دس بارہ موثر خاندان ضرور آ ملتے ہیں۔ بلوچستان کے علاوہ فاٹا والے بھی مرکز کے ساتھ جاتے ہیں اور ثانی الذکر میں خان کی برتری پختون خوا سے زیادہ ہے؛ اگرچہ تنظیم پر ہرگز کوئی توجہ نہیں دی گئی اور پہل قدمی سے پرہیز رہا۔ پارٹی کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے لیڈر ہیں۔ ان میں سے اکثر جتنا بڑا اثاثہ ہیں‘ اس سے زیادہ بوجھ۔ انہی میں سے بعض بزر جمہر طاہر القادری کے دھرنے میں وفد بھیجنے پر اصرار کرتے رہے۔ انہی میں سے بعض بہرحال جماعتِ اسلامی کے ساتھ نشستوں کی مفاہمت کے خلاف ہیں۔ برملا‘ میں نے انہیں ٹوکا تو کپتان پریشان ہوا اور پیغام بھیجا کہ میں اُن کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا۔ ملاقات ہوئی تو میں نے اسے بتایا کہ انصاف ہی کیا ہے۔ میرے سامنے دو راستے ہیں۔ اسے خوش رکھنے کی کوشش کروں یا اس کا اور ملک کا مفاد ملحوظ رکھوں۔ واقعہ یہ ہے کہ پارٹی کے کارکن ہی اس کا واحد اثاثہ ہیں‘ ایثار کیش اور بے لوث کارکن۔ اسے ان کے کنونشن منعقد کرنا چاہئیں تھے مگر وہ پارٹی الیکشن میں الجھا رہا کہ باہمی تنازعات سے پارٹی لیڈروں نے اس کی زندگی عذاب کر رکھی تھی۔ ’’یہ میری زندگی کا سب سے بڑا امتحان ہے‘‘۔ بار بار اس نے کہا۔ اب یہ امتحان تمام ہونے والا ہے۔ پارٹی الیکشن کے حوالے سے شکایات ہیں۔ خاص طور پر راولپنڈی اور جہلم میں صداقت عباسی کے حوالے سے۔ پارٹی کے بعض رہنما سمجھ نہیں رہے کہ کارکنوں کے باب میں ذرا سی بے احتیاطی بھی خطرناک ہوتی ہے۔ محبت کرنے والے حسّاس بہت ہوتے ہیں۔ ہر چیز میں خطرہ مول لیا جا سکتا ہے مگر عمارت کی بنیاد کے بارے میں کبھی نہیں۔ تحریکِ انصاف کے کارکن ہی اس کی بنیاد‘ اس کا پرچم‘ لنگر اور سائبان ہیں۔ قائداعظمؒ یہ بات جانتے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو بھی۔ کپتان کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہ اگر اسے اقتدار ملا تو ایک عوامی طوفان کے ذریعے ملے گا۔ لیڈروں کا حال تو یہ ہے کہ 30 اکتوبر 2011ء تک‘ بحیثیت مجموعی وہ اس کے خلوص کے پوری طرح قائل ہی نہیں تھے۔ بحیثیت مجموعی وہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے پیشہ وروں سے بہتر ہیں مگر ان میں مفاد پرست بھی بہت ہیں۔ الیکشن میں جہاں بے قاعدگی کی ذرا سی شکایت بھی ہے‘ مثلاً صداقت عباسی کی طرف سے جعلی ووٹ بنانے کی‘ اس کا ازالہ ہونا چاہیے اور یہ جناب حامد علی خان کی ذمہ داری ہے۔ جس قدر تیز رفتاری کے ساتھ ممکن ہو‘ اس کے فوراً بعد ٹکٹوں کا اجرا کہ پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی اور اس کے ساتھ ہی ایک شاندار عوامی مہم کا آغاز۔ توفیق ہو تو سمجھنا چاہیے کہ اس باب میں قائداعظمؒ کا قرینہ کیا تھا۔ طلبہ اور جواں سال کارکنوں پر زیادہ سے زیادہ انحصار۔ جس چیز کی طرف اس کالم میں سال بھر سے توجہ دلائی جا رہی تھی‘ وہ اب پُوری آشکار ہے۔ جعلی سروے اس حقیقت کو اب دھندلا نہیں سکتے کہ برق رفتاری کے ساتھ پیپلزپارٹی میدان سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ سندھ کے سوا‘ اب کہیں اس کے بچ نکلنے کا امکان نہیں۔ جاگیردار‘ صنعتکار‘ حتیٰ کہ بعض میڈیا گروپ نون لیگ کے ساتھ مل کر صف آرائی میں مصروف ہیں۔ صرف ابن الوقت سیاسی لیڈر ہی نہیں ، امریکہ سمیت مغربی ممالک اور بعض عرب حکمران بھی نوازشریف کے سرپرست ہیں۔وہ سب لوگ جو پاکستانی عوام کی بیداری اورآزادی سے خوف زدہ ہیں۔وہ جو پاکستان کی غیر معمولی جغرافیائی اہمیت اور اس کے معاشی امکانات سے آشنا ہیں۔ وہ جن کے لیے پاکستان ایک چراگاہ ہے۔ ان کے کارندہ لیڈروں یا ان کے سرمایے سے بروئے کار آنے والی این جی اوزمزاحیہ اداکاروں سمیت ، میڈیا میں ہر اس شخص کو خرید لیاگیا ہے ، جسے خریدا جاسکتا تھا۔ہر اس شخص کو رام کرلیاگیا ہے ، جسے رام کیاجاسکتا تھا۔فیصلہ کُن جنگ شروع ہونے والی ہے اور جیتا وہ کرتا ہے ، جو فتح کی آرزو اور عزم سے سرشار ہو۔بہترین لیڈر کا طریق رجائیت ہوتا ہے ، رجائیت مگر خوش فہمی ہرگز نہیں ،شکوک و شبہات کا خاتمہ کرکے، یکسوئی کا اہتمام۔لیڈر کا کردار اہم ترین ہوتا ہے کہ وہ اپنی مثال سے رہنمائی کرتا ہے۔ نپولین نے کہا تھا: گیدڑوں کا وہ لشکر کامیاب ہو سکتا ہے‘ جس کا رہنما ایک شیر ہو اور شیروں کی وہ فوج ناکام رہے گی‘ جس کی قیادت ایک گیدڑ کر رہاہو۔ نوازشریف نے اپنی دولت بیرونِ ملک منتقل کرکے ذہنی طور پر شکست مان لی ہے۔ ایک آدھ نہیں ، نون لیگ پر بہت سے سوالات اٹھیں گے ، مثلاً برطانیہ سمیت سمندر پار شریف خاندان کی جائیدادیں ، جو اب چھپائی نہیں جاسکتیں، مثلاً دہشت گرد تنظیموں سے ان کے تعلقات جن کی تفصیلات منظر عام پر آتی رہیں گی( اور اخباری کارندے کنفیوژن پیدا کرتے رہیں گے) ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن کے علاوہ ، یہ سوالات عدالتوں تک بھی پہنچیں جیسا کہ جعلی ڈگریوں والے واقعہ سے واضح ہوا۔ان سے کچھ زیادہ اُمید وابستہ نہیں کی جاسکتی مگرکپتان اور اس کے ساتھیوں کو الیکشن کمیشن پر دبائو رکھنا ہوگا۔ فخرالدین جی ابراہیم ذاتی طور پر ضرور دیانت دار ہوں گے مگر اتنے ہی ایماندار جتنی کہ ضرورت آپڑے۔وہ جلد پریشان اور خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔رہے باقی ارکان تو ان سے کوئی امید ہی نہیں۔ ملک میں اس وقت کوئی بڑا لیڈر نہیں۔قدرت کی منشا یہ محسوس ہوتی ہے کہ معاشرے کی اجتماعی ذہانت بروئے کار آئے۔یاد رکھنا چاہیے کہ سچائی ،شہادت اور ایثار کی محتاج ہوتی ہے۔ظفر مند وہ ہوتے ہیں جو صداقت کے علاوہ صبر کا دامن تھامے رکھیں۔چالاکی اور چال بازی ہرگز کوئی اثاثہ نہیں۔اسی وقت تک یہ کارگر ہوتی ہے جب واشگاف نہ ہو جائے۔ کامیابی کی سب سے بڑی کلید یہ ہے کہ دیرپا منصوبہ بندی کی جائے‘ جذبات سے مغلوب ہونے کی بجائے حکمت سے کام لیا جائے۔خوش خبری یہ ہے کہ کالم نگاروں کے بارے میں سروے کرنے والی ملک کی آٹھ ویب سائٹس کے مطابق نون لیگ کے ڈھنڈورچی پِٹ چکے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اب دس مقبول کالم نگاروں کی فہرست میں شامل نہیں۔ خطرہ ان کے لیے خود اپنی روش میں ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو جارحانہ جذباتی روّیہ اپنانے سے گریز کرنا چاہیے اور ان کے لیڈر کو نام لے کر نوازشریف اور صدر زرداری پر نکتہ چینی سے۔ ریپڈ بس سروس کے سوا‘ اب ان کے کارناموں میں سے کون سا ایسا ہے جو بے نقاب نہیں اور اس ایک کو جوشِ خطابت نہیں‘ اعداد و شمار سے بیان کرنا چاہیے۔ صرف ایک سال قبل تحریکِ انصاف ملک کی مقبول ترین پارٹی تھی۔ نگران حکومتوں کی تشکیل کے بعد‘ دبائو ختم ہونے پر‘ نہایت تیزی سے وہی مقام وہ پھر سے حاصل کر سکتی ہے۔ قائداعظمؒ کی پوری زندگی کا خلاصہ یہ ہے: جدوجہد‘ توکل اوریقین کے ساتھ اور اس، قادرالکلام مولانا ظفر علی خان نے یہ کہا تھا: توکّل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر قرآن کریم میں لکھا ہے: کاہلی کا ارتکاب نہ کرو اور غم نہ پالو‘ تمہی غالب رہو گے‘ اگر تم مومن ہو۔ پس تحریر۔میرے بڑے بھائی محمد افضل پیرکو فیصل آباد میں انتقال کرگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون