جی ہاں‘ ایماندار ہیں مگر خواہی نخواہی فخرالدین جی ابراہیم اسی گٹھ جوڑ کا حصّہ ہیں۔ فی الحال اتنا ہی۔ تفصیل نہ پوچھ ہیں اشارے کافی یونہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں ان کا موقف اب بھی یہی ہے کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ وہ کئی طرح کے لوگ ہیں۔ ایک تو خوف اور خدشات کے مارے‘ حالات کی نزاکتوں سے بے نیاز لوگ! وہ یہ سوچتے ہیں آصف علی زرداری اور نواز شریف سے خدا کی مخلوق نالاں ہے اور اُنہی کے پیچھے فیصلہ کُن قوت رکھنے والے بااثر طبقات صف آراہیں‘ پھر الیکشن کا فائدہ کیا۔ آگے بڑھ کر جنرلوں کو اقتدار پر قبضہ کر لینا چاہیے۔ رہے عوام تو انہیں امن اور رزق کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔ دوسرے وہ جن کا کام ہی یہ ہے کہ فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہیں۔ ان میں سے کچھ رضاکار ہیں۔ یہ وہ ہیں، جن کے دلوں اور دماغوں میں یہ خیال راسخ ہے کہ یہ ملک وجود میں آنا ہی نہ چاہیے تھا۔ ملّا اور ملحد، جن کے آباکو قائداعظم محمدعلی جناح نے تاریخ ساز شکست سے دوچار کیا تھا۔ 76.6 فیصد ووٹوں کے ساتھ۔ جب آپ کسی سے محبت کرتے ہوں تو اُس کے بارے میں ہراچھی بات ماننے پر آمادہ رہتے ہیں۔ جب کسی سے نفرت تو ہر بُری خبر۔ جیسا کہ کتاب کہتی ہے:کم ہی لوگ ہیں جو غور کرتے ہیں اور جیسا کہ مشاہدہ ہے ، کم ہی لوگ ہیں جو انصاف کرتے ہیں۔ آدمی کی اُفتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے۔ اس کی پسند اور ناپسند اور اس کے تعصبات۔ دوسرے، جس کی طے شدہ روش یہ ہے کہ افواجِ پاکستان اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف، ایم آئی سکس، را، سی آئی اے کی تخلیق کردہ افواہیں پھیلاتے رہیں۔ اکسٹھ برس تک خودعسکری قیادت اور ایجنسیوں نے اُن کا کام آسان کیے رکھا۔ پہاڑ ایسی غلطیاں انہوں نے کیں۔ دوسرے حکمران طبقات کی طرح، قومی امنگوں کی انہیں بھی کوئی پروا تھی اور نہ آئین اور قانون کی۔ پُورے مسلم برصغیر کا مزاج یہی ہے، پھر جس ملک میں احتساب کا خوف کبھی کارفرما نہ رہا ہو؟ جہاں ذاتی مفاد ہی سب کچھ ہو، وہاں اس کے سوا اور کیا رویّہ پروان چڑھتا؟ نومبر2007ء کے بعد افواج اور خفیہ ایجنسیوں کی پالیسیوں میں تبدیلی کا آغاز ہوا مگر حکمتِ عملی میں دوخرابیاں تھیں، اور اب تک برقرار ہیں۔ ایک تو جیسا کہ بار بار عرض کرتا ہوں، جنرل اشفاق پرویز کیانی ضرورت سے زیادہ غوروفکر کے عادی ہیں۔ فیصلہ وہ اکثر درست ہی کرتے ہیں مگر بعض اوقات تاخیر کے ساتھ۔ ثانیاً میڈیا اور قوم کے سامنے فوج اپنا مؤقف واضح نہیں کرسکی۔ صرف اس لیے نہیں کہ ایم آئی سکس‘ را اور سی آئی اے کی مہم غیرمعمولی تھی‘ اس کا مقابلہ نہ کیا جاسکا یا فعال طبقات اور میڈیا میں ان کا رسوخ گہرا ہے۔ اس لیے بھی کہ افواج نے اوّل تو ذرائع ابلاغ کی اہمیت کا بروقت ادراک نہ کیا، ثانیاً ضروری تقاضے پورے کرنے میں بھی تاخیر ہوئی۔ صورت حال اب قدرے بہتر ہے ، مگر قدرے ہی۔ طویل عرصے تک آئی ایس آئی کی حکمت عملی یہ تھی کہ لوگوں کو ڈرایا جائے یا ذاتی روابط کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کی جائے۔ آزاد میڈیا اور آزاد عدالتوں کے اس دور میں، جب ریاست کی رٹ برائے نام ہے، اس طرزِ عمل کا نتیجہ وہی نکلا ، جونکلنا چاہیے تھا۔ دو المیے رونما ہوچکے اور ان پر کبھی غور نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں امریکہ بہادر اور اس کے کارندوں کی موجودگی، صرف ان میدانوں میں نہیں، عام طورپر جن کا ذکر ہوتا ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد، انکل سام نے طے کرلیا تھا کہ ملکوں اور قوموں پر قبضہ جمانے کے زمانے گزر چکے۔ اب افواج‘ سیاست‘ مالیاتی اداروں اور صحافت کو بالواسطہ کنٹرول کرنا چاہیے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بجائے ، سی آئی اے کی نگرانی میں یورپی حکومتوں سے سازباز کی گئی۔ وہاں ادارے بنائے گئے۔ یہ جو گزشتہ بیس برس میں، کالی پیلی، سرخ وسفید ہزاروں این جی اوز ہمارے ہاں پھوٹ پڑی ہیں، تو کیا یہ محض اتفاق ہے؟ اربوں روپے امریکہ اور یورپ سے انہیں ملتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ پچاس فیصد سے زیادہ پیسہ‘ دفاتر‘ گاڑیوں‘ تنخواہوں اور سیر سپاٹے پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ جو آئے دن ہمارے دانشور بھارت کا رُخ کرتے ہیں یا بھارت والے پاکستان کا تو کیا وہ سب اپنے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں؟ جی نہیں‘ اکثر سکینڈے نیویا سے آتے ہیں۔ صرف ایک این جی او کے لیے دس کروڑ روپے سالانہ‘ جس کے اجتماعات میں‘ میاں محمد نوازشریف اب کثرت سے جانے لگے ہیں کہ آصف علی زرداری کے بعد امریکی اب انہیں حکومت سونپنے کے آرزو مند ہیں۔ اسی این جی او کے اجلاس میں نوازشریف بھارت کے حق میں اور پاکستانی فوج کے خلاف چہکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دائیں بازو کے ابن الوقت تو اپنی جیب میں پہلے ہی پڑے ہیں‘ بائیں بازو کے ’’نظریاتی‘‘ دانشوروں سے کیوں نہ فائدہ اُٹھایا جائے۔ چڑیا والا اخبار نویس انہی میں سے ایک ہے۔ وکلاء انجمنوں کے کچھ لوگ بھی۔ خود کو وہ اسٹیبلشمنٹ کا حریف بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اصلاً اوّل درجے کے مفاد پرست‘ استعمار اور مقامی کھرب پتیوں کے کارندے۔ میاں محمد نوازشریف کا تختہ اُلٹنے کے چند گھنٹے بعد امریکی سفیر نے جنرل پرویز مشرف سے رابطہ کیا۔ 14 اکتوبر 1999ء کی سویر نئے حکمران سے اس نے تفصیلی ملاقات کی۔ تعاون کے لیے جو چار شرائط انہوں نے تجویز کیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ کوئی بنیاد پرست ان کی حکومت میں شامل نہ ہوگا‘ جنرل حمید گل کا نام لیا گیا کہ پرویز مشرف ان کے سٹاف افسر رہ چکے تھے۔ دوسری شرط حیران کن تھی۔ میڈیا کی آزادی۔ شیخ رشید کو خوش فہمیوں کی جنت میں رہنے دیجیے۔ نجی ٹی وی چینلز کا فیصلہ کہیں اور صادر ہوا تھا۔ پاکستانی حکمران سے امریکیوں نے یہ تقاضا تب کیا‘ جب وہ پاکستانی صحافت میں راستے بنا چکے تھے۔ انکل سام کی مذمت اب بھی ہوتی ہے مگر دو طرح سے۔ ایک تو کچھ پاگل لوگ اور دوسرے وہ جنہیں ایسا کرنے کی اجازت ہے کہ غیر جانبداری کا بھرم اور تاثر قائم رہے۔ میں آپ کو بتاتا رہا کہ ٹیکنو کریٹس حکومت کا تصوّر موجود ہے اور آج بھی بہت سے لوگ اس کے قائل ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تصوّر دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹنے والی سیاست کے ردِّعمل میں اُبھرا۔ ظاہر ہے کہ اس کے وکیلوں میں اقتدار کے آرزو مند بھی ہوں گے مگر ان میں بہت سے نیک نیت اور محبِ وطن بھی تھے۔ شریف‘ زرداری‘ الطاف‘ اسفند یار‘ مولوی‘ سیاست سے نالاں۔ ایک بنیادی حقیقت کو مگر انہوں نے نظر انداز کیا: سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور موجودہ حالات میں یہ کام ممکن نہیں۔ بہتری سے زیادہ خرابی کے باعث۔ جہاں تک جنرل اشفاق پرویز کیانی کا تعلق ہے‘ وہ کبھی مجھے اس کے قائل نظر نہ آئے اور اب تو کوئی ابہام باقی نہیں۔ اوّل جنرل عاصم باجوہ نے بیان دیا اور چند روز قبل منتخب اخبار نویسوں سے خود جنرل کیانی نے ساڑھے چار گھنٹے تک تفصیل سے بات کی۔ جمہوریت اور نئے انتخابات کی بھرپور تائید کے علاوہ‘ انہوں نے اس پروپیگنڈے کی سختی سے تردید کی کہ لشکرِ جھنگوی ایسے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ایجنسیوں کا رابطہ ہے۔ وہ بات جو امریکی کہا کرتے ہیں اور ان کے ڈھنڈورچی! اس کے باوجود فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف مہم جاری رہے گی؛ حتیٰ کہ الیکشن برپا ہو جائیں۔ اس کے بعد بھی باقی رہے گی۔ کسی دوسرے انداز میں‘ کچھ اور دلائل کے ساتھ۔ جیسا کہ اقبالؔ نے کہا تھا: ملوکیت کی طرح جدید سیاست بھی فریب دہی اور ظلم ہی کا ایک دوسرا روپ ہے۔ غالب طبقات کی اجارہ داری جو اب نوازشریف کے گرد جمع ہو رہے ہیں کہ عام آدمی کا خون چوستے رہیں… اور اقبالؔ نے یہ بھی کہا تھا۔ طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی اخبار میں نہیں‘ کسی دن‘ کسی ویب سائٹ پر زیادہ تفصیل سے عرض کروں گا کہ نون لیگ‘ پیپلز پارٹی اور قاف لیگ کی سیاست میں کون سے عوامل اور کون سے لوگ‘ سب سے زیادہ مؤثر ہیں۔ جی ہاں‘ ایماندار ہیں مگر خواہی نخواہی فخرالدین جی ابراہیم اسی گٹھ جوڑ کا حصّہ ہیں۔ فی الحال اتنا ہی۔ تفصیل نہ پوچھ ہیں اشارے کافی یونہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں