خدا لگتی ہے کہ سیاست دانوں میں اکثر فریب کار ہیں، فقط دعوے ہی دعوے۔ اللہ کے آخری رسو لؐ نے ارشاد فرمایاتھا: ’’جسے حیا نہیں ، وہ اپنی مرضی کرے‘‘۔ قوم کوطے یہ کرنا ہے کہ کب تک ان لوگوں سے وہ فریب کھاتی رہے گی۔ کب تک؟ بلوغ الارب، ان سات عرب خطیبوں کی کہانی کہتی ہے جو شہنشاہِ ایران، کسریٰ کے دربار میںلائے گئے تھے ۔ان کے خطبات حُسنِ کلام کے ہمیشہ زندہ رہنے والے شاہکار ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا : بادشاہ! حسنِ ظن ایک بھنور ہے اور بد گمانی بجائے خود ایک تحفظ۔ پروفیسر مجاہد منصوری ممکن ہے اتفاق نہ کریں، سیّدنا علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہُ کے ایک قول کا اگر اضافہ کرلیا جائے تو ابلاغیات کی سائنس مکمل ہوتی ہے۔فرمایا: لوگوں کے اندر ان کے رجحانات کی طرف سے داخل ہونے کی کوشش کیا کرو ۔ حدیث ہے: علیٰ قدرِ عَقُولہم‘ ان کے فہم کی سطح پر۔ صحافت کا وظیفہ یہ ہے کہ باطن کو واشگاف کرے اور بلا کم و کاست بیان کردے ۔ اخبار نویسی حُسنِ بیان ہے اور نہ سنسنی پھیلانے کا نام۔ ادبی جمالیات ایک چیزہے اور صداقت دوسری۔ واقعہ رونما ہو تو سیاق و سباق کے ساتھ اسے کھول دینا چاہیے کہ اَلَم نشرح ہوجائے، عام آدمی بھی جان لے کہ دعوے میںصداقت کتنی ہے۔ نون لیگ کا منشور سامنے آئے ایک ہفتہ ہونے کو آیا مگر ڈھنگ کا کوئی تجزیہ پڑھنے کو مل نہ سکا ۔اخبار میں خبر ضرور پڑھی مگر ایک سو صفحے کی ایسی دستاویز کاادراک، جو مستقبل کی ممکنہ حکمران جماعت کے عزائم بیان کرتی ہو، پانچ سات سو الفاظ کی خبر سے کیوں کر ممکن ہے ۔ ایک نظر ڈالی تو دھچکا لگا۔ ایک مذاق سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ تضاد ہی تضاد اور فریب ہی فریب، نری دھوکا دہی، وہ جو فارسی کے شاعر نے کہاتھا ع چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد کچھ سوالات ہیں، جن میں سے کسی کا جواب نہیں ملتا ۔ مثلاً یہ وعدہ کہ نون لیگ کو اقتدار ملا تو چھ ماہ کے اندر بلدیاتی الیکشن کرادے گی ۔ چھ ماہ کے اندر؟ پورے پانچ سال ملے تھے، اس میں کیوں نہ کرادیئے؟ کیوں نہ کرادیئے؟ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بھی بلدیاتی ادارے صوبوں کے اختیار میں تھے ۔ وزیرِاعلیٰ بنتے ہی شہباز شریف نے بلدیاتی اداروں پر یلغار کردی تھی جو فوجی حکومت کے مثبت اقدامات میں سے ایک تھا۔ معیشت کی بہتری سمیت ڈھنگ کے کچھ کام جنرل پرویز مشرف نے کیے تھے ۔ عہدِ گذشتہ کو ملیا میٹ کرنے کا جنون اس قدر تھا کہ شہری اداروں کی آٹھ سالہ روداد میں کمال انہماک سے خادم ِپنجاب نے کیڑے ڈالے۔ پھربے دریغ قومی سرمایہ ان اشتہارات پر صرف کیا جن میں پیغام صرف یہ تھا : وہ سب کے سب بد عنوان تھے ، گردن زدنی۔ کرپشن ہوئی تھی، مثلاً پنجاب کے موجودہ گورنر مخدوم احمد محمود نے ڈٹ کر لوٹ مار کی تھی ، جب وہ رحیم یار خان کے ناظم تھے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی کرپشن محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار سے کم تھی۔ پھر یہ کہ جن کا دامن بالکل صاف تھا، انہیں رسوا کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی۔ اپنی جیب سے خرچ کرنے والوں پر بھی کیچڑ اُچھالا گیا۔ چہار دانگِ عالم میں کردار کشی میں شریف خاندان کا ثانی کوئی نہیں۔اطلاع یہ ہے کپتان کے خلاف ، ایک شاندار مہم وہ شروع کرنے والے ہیں۔ انشاء اللہ بھگتیں گے خود بھی۔ اس راز سے وہ واقف نہیں اور کبھی نہ ہوں گے کہ دوسروں کے عیوب پرنہیں، زندگی اپنے محاسن پر بسر کی جاتی ہے۔بنیادی سوال وہی ہے، پانچ سال میں اگر بلدیاتی الیکشن نہ ہوسکے تو چھ مہینے میں کیسے کرادیں گے۔ کیسے کرادیں گے؟ سب جانتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ اختیارات منتقل کرنے کے وہ قائل ہی نہیں ۔ اقتدار خاندان کے پاس رہے یا مصرع اٹھانے والے شریک کیے جائیں ، اٹھارہ وزراتیں، خادم اعلیٰ کی جیب میں ، حمزہ شہباز، محترمہ مریم نواز اور وغیرہ وغیرہ۔ تعلیمی ایمر جنسی کے نفاذ کا اعلان بھی ہے ۔ بجا ارشاد مگر اوّل تو یہ کپتان کا وعدہ ہے اور بہت پہلے سے، ثانیاً بلدیات کی طرح تعلیم بھی صوبائی موضوع ہے ۔ اگر پانچ برس میں یہ کام آپ نہ کرسکے تو اب کیوں کر کرنے لگے؟ پنجابی میں کہتے ہیں: ’’اٹھّو اٹھ‘‘ یعنی چوری اور سینہ زو ری۔ دانش سکول ضرور آپ نے بنائے کہ شعبدہ بازی کے شائق ہیں لیکن سرکاری سکولوں کا حال کیا ہوا؟ مشرف دور سے بھی بد تر۔ چودھری اور شریف خاندان میں فرق کوئی نہیں۔ البتہ یہ کہ چودھریوں میں کچھ وضع داری ہے، کچھ لحاظ اور مروّت۔ چودھری پرویزالٰہی کو کچھ ہی کہیے مگر منتظم وہ شہباز شریف سے بہتر تھے۔ ضدی اور خود پسند مگر شہباز شریف سے کم۔ نون والوں کا حال تو یہ ہے کہ کسی کو ایک وقت کا کھانا کھلادیں تو اشارۂ ابرو سے لکھنے والوں کے ذریعے یاد دلاتے ہیں۔ پنجاب کے چالیس فیصد سکول بنیادی سہولیات سے محروم۔ اساتذہ کی تربیت پر ، تعلیمی نظام میں جو سب سے اہم چیز ہوتی ہے ، رتیِ برابر توجہ نہ ہوسکی اور اب تعلیمی ایمر جنسی ؟ مکرّر ارشاد ، مکرّر ارشاد۔ اساتذہ سے سروس اسٹرکچر کا وعدہ بھی ہوا۔ کیا کہنے، ہر تین ماہ بعد ڈاکٹر ہڑتال کرتے رہے۔پانچ برس میں ان کے لیے تو بن نہ سکا ، مسکین ماسٹروں کے لیے کیسے بنے گا ؟ پے در پے ہڑتالوں پر ، بزرگ ڈاکٹروں سے بد تمیزی پر جواں سال ڈاکٹروں سے قوم خوش نہیں مگر سروس اسٹرکچر کا مطالبہ تو ایسا نہ تھا کہ نظر انداز کردیا جاتا او ر وہ بھی اس ڈھٹائی سے! سب سے زیادہ مضحکہ خیز دعویٰ یہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کردیا جائے گا ۔کس طرح، حضور کس طرح؟سامنے کی بات یہ ہے کہ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور خفیہ کاری کو بہتر بنا نا تھا۔پولیس کا حال یہ ہے کہ تقریباً سب کی سب تقرریاں سفارش پر ۔ نون لیگ کے دو ایم پی اے جیتنے کے لیے احسان صادق ایسے اجلے افسر کو اکھاڑ پھینکا ۔ حلقہ این اے 100میں دھاندلی میں شرکت سے انکار پر ذوالفقار چیمہ کا تبادلہ ہوا ۔ خفیہ کاری کا عالم یہ ہے کہ اسپیشل برانچ میں شہباز شریف کے پسندیدہ افسر نے چیف جسٹس خواجہ شریف کے قتل کا افسانہ تراشا۔ خبر چھپوائی کہ گورنر سلمان تاثیر اور وزیر قانون بابر اعوان اشتہاری مجرموں کے ذریعے انہیں گولیوں سے بھوننے کے آرزو مند ہیں۔تفتیش ہوئی تو کھلا یہ کہ محض مخالفین کو بدنام کرنے کی سازش تھی۔ تفصیل رئوف کلاسرا کی کتاب میں پڑھ لیجیے۔ شریف برادران کو کس نے روکا تھا کہ پنجاب میں دہشت گردی ختم کردیں۔ دوسرے صوبوں کو ان کی تقلید کرنا پڑتی۔ 62فیصد میں مسئلہ حل ہوتا تو باقی 38فی صد میں بھی کم تو ہوجاتا۔ عملاً کیا ہوا؟ شہباز شریف کا خطاب فلم کے فیتے پر محفوظ ہے کہ طالبان کو پنجاب میں بم نہ چلانے چاہئیں( بلکہ باقی تین صوبوں میں) سب جانتے ہیں کہ لشکر جھنگوی سے رانا ثناء اللہ کے مراسم ہیں۔ تصاویر موجود ، تفصیلات معلوم، خوش بختی ان کی یہ ہے کہ واویلارحمن ملک کرتے ہیں اور ان کا اعتبار ہی نہیں۔ ایک اعلان میاں نواز شریف نے یہ بھی کیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر ہو گا ۔ خدا وہ دن نہ لائے کہ وہ اپنی مرضی کا سپہ سالار مقرر فرمائیں وگرنہ وہ ایک اور پرویز مشرف ہی لائیں گے۔ ثبوت یہ بھی ہے کہ پنجاب میں جہاں کہیںبیسویں گریڈ کا افسر ہوناچاہیے، اٹھارویں کا لگایا ہے لازمی طور پر وہ جو شریف خاندان کا وفادار ہو۔ جن کا مزاج یہ ہے کہ پارٹی میں ان کا نائب کشمیری ہوگا یا ذاتی خوشامد کرنے والا‘ فوج کی سربراہی میرٹ پر وہ دیں گے ؟ اور بھی کچھ عرض کروں؟ ضرور،ضرور، نون لیگ کے دستر خوان پر ہڈیاں چچوڑنے والے ’ تبرّیٰ فرماچکیں تو کچھ اور بھی۔ خدا لگتی ہے کہ سیاست دانوں میں اکثر فریب کار ہیں، فقط دعوے ہی دعوے۔ اللہ کے آخری رسو لؐ نے ارشاد فرمایاتھا ’’جسے حیا نہیں ، وہ اپنی مرضی کرے‘‘۔ قوم کوطے یہ کرنا ہے کہ کب تک ان لوگوں سے وہ فریب کھاتی رہے گی۔ کب تک؟