ایک چھوٹی سی بات لوگ بھول جاتے ہیں ‘ بڑے بڑے دانش ور بھی۔ سچی اور پائدار کامیابی ان کے لیے ہوتی ہے ‘ اصولوں کو جو عزیز رکھتے ہیں‘ سیانا کوّا آخر گندگی پر جا گرتا ہے۔ کیسے کیسے قہر مان ہیں‘ تاریخ کا کوڑے دان‘ جن کے انتظار میں ہے۔ تین دن سے کراچی کی گلیوںمیںگھوم رہا ہوں۔ چند ہی اہم لوگوں سے ملاقات ہوسکی۔ وہ لوگ ہیں جو ایسی معلومات آپ کو دے سکتے ہیں جو اخباروں میںشائع نہیں ہوتیں‘ جو ٹیلی ویژن سے نشر نہیں کی جاسکتیں ؎ افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے اخبار نویس کا منصب یہ ہے کہ ناگفتنی اگر بیان نہ کرسکتا ہو تو کم از کم اشارہ ہی کردے ۔ کھڑکی کھول دینے کی کوشش کرے کہ قوتِ خیال جو رکھتے ہیں ، وہ سچّائی کو پالینے کی کوشش کریں۔ جناب جمیل یوسف کا ایک طویل انٹرویو کرنے کے ارادے سے یہاں آیا تھا‘ ایک شعر پڑھتے ہوئے ؎ اس شہرِ’’کراچی‘‘ میں غمِ عشق کے مارے زندہ ہیں یہی بات ‘ بڑی بات ہے پیارے زندہ ہیں‘ بس زندہ ہیں۔ زبانوں پر تالے تو نہیں ہیں‘ چہروں پر مگر سنّاٹے ہیں۔ پوری بات کوئی نہیں کہتا ۔ روزنامہ ’دنیا‘ کراچی کے دفترسمیت اخبار نویسوں سے جو گفتگو رہی ‘ اس میں انقباض غالب تھا۔ تمہید میں بات تمام تو نہیں ہوتی مگر تمہید دراز۔ کوئی نہیں ملتا راستہ جسے سجھائی دیتا ہو‘ جو رہنمائی کرسکے ۔ دواور دو چار نہ سہی مگر انشراحِ صدر کے ساتھ امکانات پر کھل کر بات تو کرے۔ خوف اور اندیشوں میں جکڑ ے ہوئے دو کروڑ آدمی جو کسی نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں ؎ ارادے باندھتا ہوں ‘ سو چتا ہوں توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہوجائے ‘ کہیں ایسا نہ ہوجائے آنا جانا کراچی میں بہت رہتا ہے مگر یہ دیار اپنے باطن کا دروازہ نہیں کھولتا ۔محبت کرنے والوں کی طرح شہر بھی پورا آدمی مانگتے ہیں۔وہ پورا آدمی زمانہ ہوا‘ اس دنیا سے جاچکا… شاعر‘ نثر نگار احمد سلیم ‘ جس نے کہاتھا ؎ دلوں میں درد بھرتا‘ آنکھ میں گوہر بناتا ہوں جسے مائیں پہنتی ہیں‘ میں وہ زیور بناتا ہوں اور جس نے یہ کہاتھا ؎ جو فصل ابھی کٹی نہیں ہے میں اس کا لگان دے رہا ہوں شاید کوئی بندۂ خدا آ جائے صحرا میں اذان دے رہا ہوں صحرامیں اذان نہیں دی جاتی بلکہ بستیوں میں۔ اہل ِ علم یہ کہتے ہیں کہ اذان، اس مہربان رب کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جس کا فرمان یہ ہے: آدمی کو جب میں نے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے آپ رحمت کو لازم لکھّا ۔ لازم کیا نہیں لازم لکھّا‘ کتب علیٰ نفسہ الرحمۃ، کہا جاتا ہے اور سچ کہا جاتا ہے کہ جب تک فضا میں اذان کی آواز گونجتی رہتی ہے‘ انسانی ذہن کو واہمے سے آزاد کردیا جاتا ہے۔ صوفیا میں بعض کا مسلک اس لیے یہ ہے کہ اس صدا کے ساتھ ہی نماز کا وقت شروع ہوجاتا ہے ۔سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ جوں ہی مسجدِ نبوی سے موذن کی آواز بلند ہوتی‘ نماز کے سوا سرکارؐ ہر خیال کو جھٹک دیتے۔ گیارہ برس ہوتے ہیں‘ ایک درویش سے ملاقات کے لیے شاہراہِ ریشم سے ادھر اگّی نام کے قصبے کا قصد کیا ۔ بتایاگیا کہ وہ ایک عجیب آدمی ہے‘ دلوں کے بھید جانتا اور بیان کرسکتا ہے۔ سر تاپا صداقت ہے اور ایک عامی کی زندگی بسر کرتا ہے ۔ دستر خوان کشادہ اور لہجہ تمام اُنس ‘ تمام اُلفت۔ ایسا ہی اسے پایا۔ فرش پہ ان کے سامنے جا بیٹھے تو مجھ سے کہا : آپ کوئی سیٹھ ہیں یا پڑھے لکھّے آدمی؟عرض کیا ‘ سیٹھ تو بالکل نہیں مگر کچھ ایسا پڑھا لکھا بھی نہیں۔ بولے: مخفی علوم میں کیا رکھا ہے (کہ تم ان کی طرف متوجہ ہو) ۔ گزارش کی: اس میں حرج بھی کیا ہے۔کہا: کیا ظاہر سے‘ نماز سے ‘ روزے اور ذکر سے ‘تلاوت اور تعلیم سے سب کچھ نچوڑ لیا کہ چھپی ہوئی دنیا ئوں کی تمنّا ہے؟ پھر ایک عجیب بات اس عجیب آدمی نے کہی: تصوّف کے تمام بڑے سلسلوں میں ربع صدی تک ریاضت میں نے کی۔ رفتہ رفتہ‘ بتدریج‘ اس خاک داں سے اوپر اٹھتا گیا ‘ سکون دل کی گہرائیوں میں اُترتا ہوا گہرا ہونے لگا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جنگل میں چلا جاتا اوراژدہوں کے پاس بیٹھ رہتا ۔ ایک دن عجیب واقعہ ہوا ۔ دیر تک اس خیال نے دل میں گھر کیے رکھّا کہ میں اجلا ہوں اور دوسرے میلے۔ میں کھرا ہوں اور دوسرے کھوٹے۔ تب اپنے آپ سے میں نے کہا: اے شخص! تجھ پر افسوس‘ تمام عمر کی ریاضت کا صلہ مخلوق ِ خدا سے کراہت ہے‘ تب اپنے گریبان میں منہ ڈالا اور ڈالے رکھا ۔ سوچا اور سوچتا رہا اور بالآخر نتیجہ یہ اخذ کیا کہ سب سے اچھا اصحاب ِ ؓرسول کا سادہ اسلام تھا۔ نماز اور نماز میں انہماک‘ روزہ اور اس کے تقاضوں پہ یک سوئی۔ جھوٹ اور خیانت سے گریز، دل جوئی اور خیر خواہی اور ہاں دعا اورپیہم دعا اس سے‘ جو مہربان ہے ‘ سنتا اور قبول کرتا ہے۔ بات واضح تھی‘ اصول مگر ان کی روح کا ادراک۔ بے شمار علم ‘ بہت دانش اور غیر معمولی ذہانت کی نہیں‘ بس سیدھے راستے پر استقامت سے چلتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قاعدہ اور قرینہ ‘ ضابطہ اور قانون ۔ اللہ کے قوانین جو کبھی نہیں بدلتے اور دنیا کے ضابطے جو ہزاروں برس کے تجربے سے آدمی نے وضع کیے ہیں۔ بہت فلسفہ آرائی اور بہت نکتہ سنجی الجھادیتی ہے ۔ کچھ خبر یں ہیں‘ اچھی اوربری ۔ اچھی خبر یہ ہے کہ الیکشن انشاء اللہ ہو کر رہیں گے اور حقیقی قوّت جن کے پاس ہے‘ ان کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر ممکن حد تک آزاد انہ اور منصفانہ۔ اس اندیشے کے ساتھ میںکراچی آیا تھا کہ بارود کے ڈھیر پر رکھّا یہ شہر الیکشن کا متحمل نہیں۔ خون بہے گا اور بہت خون۔ لاشیں گریںگی اور اندیشہ ہے کہ بہت زیادہ۔ بتایاگیا ہے کہ ایسا انشاء اللہ مطلق نہ ہوگا ۔ بندوبست کرلیاگیا ہے اور پورا بندوبست۔ ہنگامہ ہوسکتا ہے‘ المناک واقعات بھی مگر الیکشن کا عزم مصمم ہے۔ تفصیل بعد میں عرض کروں گا۔ دوسری خبر یہ ہے کہ الیکشن ایم کیو ایم ہی جیتے گی‘ چند نشستیں اس کی کم ہوسکتی ہیں مگر کم ہی۔175یونین کونسلوں میں سے 120میں اس کی برتری ہے‘ باقی میں جماعت اسلامی‘ پیپلز پارٹی اور اے این پی وغیرہ وغیرہ کی۔ ایم کیو ایم مگر خود بھی رہگزر سیل بے پناہ میں ہے جس کی تفصیل کسی دن ٹیلی ویژن پر عرض کروں گا۔ حالات بہت برے ہیں مگر امکانات بہت اچھے ۔ کپتان نے اگر اصولوںکی پاس داری کی‘ اگر صداقت عباسیوں‘ علیم خانوں اوررشید بھٹیوں کے بجائے دانا اور مخلص لوگوں سے مشورہ کیا‘ اگر وہ لاہور میں واقعی ایک تاریخ ساز جلسہ کرسکا تو پاکستان کے خارجی اور داخلی دشمنوں کی بساط وہ لپیٹ کر رکھ دے گا ۔ ایک بار پھر عالمی کپ ایسی خیرہ کن فتح۔ ایک چھوٹی سی بات لوگ بھول جاتے ہیں ‘ بڑے بڑے دانش ور بھی۔ سچّی اور پائدار کامیابی ان کے لیے ہوتی ہے ‘ اصولوں کو جو عزیز رکھتے ہیں‘ سیانا کوّا آخر گندگی پر جا گرتا ہے۔ کیسے کیسے قہر مان ہیں‘ تاریخ کا کوڑے دان‘ جن کے انتظار میں ہے۔