نوازشریف کو چھوڑیئے، کسی جرائم پیشہ کی مذمت سے بھی حاصل کیا۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: نکلو‘ ہلکے ہو یا بوجھل۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ ظفر مند وہ ہوتے ہیں جو کامیابی حاصل کرنے پر تُلے ہوں۔ گناہ نہیں کفر ہے‘ مایوسی کفر ہے۔ کوئی بڑی امید الیکشن کمیشن سے وابستہ نہیں۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی سازباز سے ارکان کا انتخاب ہوا، ثانیاً اس میں آہنگ اتفاق رائے ہرگز نہیں… جعلی ڈگریاں‘ کراچی میں حلقہ بندیا ں یا ٹیکس نادہندگان کا مسئلہ، فخرالدین جی ابراہیم کچھ بھی کر نہ سکے۔ عباسیوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنے والے ابومسلم خراسانی کے بارے میں امام ابو حنیفہ ؒ نے کہا تھا: وہ شہید ہوگیا مگر اس سے کچھ بھی بن نہ پڑا۔گورنر سندھ اور اٹارنی جنرل کی حیثیت سے فخروبھائی نے اگر کبھی کوئی کارنامہ انجام دیا تو یہ کہ استعفیٰ دے ڈالا‘ کبھی کوئی معرکہ وہ سر نہ کرسکے۔ الیکشن کو شفاف بنانا ہے۔ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی سمیت ان سیاسی پارٹیوں کو بندوبست کرنا ہوگا جو دھاندلی کو روک دینے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہیں۔ کپتان نے اعلان کیا ہے کہ ہر پولنگ بوتھ پر دس تربیت یافتہ رضاکار متعین کیے جائیں گے ۔ جماعتِ اسلامی تہیہ کرے تو منصفانہ الیکشن ممکن ہے۔ وگرنہ جناب آصف علی زرداری کی جگہ میاں محمد نواز شریف۔ چہرہ بدلے گا مگر ترجیحات وہی‘ انداز کار بھی وہی۔ اندرون ملک جس طرح کے لوگ زرداری صاحب کے ہم نفس تھے، وہی میاں صاحب محترم کے۔ غریب کی جوروسب کی بھابھی۔ کل تک پیپلزپارٹی کے جوسرپرست تھے، وہی اب نون لیگ کے ہیں۔ امریکہ ہے، برطانیہ ہے اور وہ ممالک جوپاکستان کو دست نگر بنارکھنے کے آرزومند ہیں‘ جوایران پاکستان پائپ لائن کے خلاف ہیں، جو گوادر کو دبئی ایساعالمی تجارتی مرکز بنانے کے مخالف ہیں۔ ایک سے ایک چھٹا ہوا معزز، میاں صاحبان کا ہم رکاب ہے۔ وہی کھرب پتی جو جنرل پرویز مشرف اور زرداری صاحب کے سائے میں پرورش پاتے رہے۔ ان سے بڑھ کر اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان، جن میں سے اکثر اب رائے ونڈ کے ہوچکے۔ شہبازشریف مصر ہیں کہ پنجاب اسمبلی کو ابھی باقی رہنا ہے، یعنی پنجاب حکومت کو۔ کس لیے؟ پٹواری اور پولیس افسر کو برتنے کے لیے۔ خوف کی فضا قائم رکھنے کے لیے۔ اخبار نویسوں میں سے ہراس شخص کو خریدا جاچکا، جسے خریدا جاسکتا تھا۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ باقی ماندہ دیانت دار مرعوب ہوکر پسپا ہیں، فخرالدین جی ابراہیم کی طرح۔ اس دیانت سے حاصل کیا جو گواہی نہیں دیتی۔ اس شجاعت کا نتیجہ کیا جو میدان جنگ سے بھاگتی ہے: اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی ایک سال، پورے ایک سال تک تحریکِ انصاف اپنے الیکشن میں الجھی رہی۔ اللہ اللہ کرکے رہاہوئی۔ کھیلنے کا وقت اب آیا ہے اور تھوڑے سے اوورز باقی ہیں۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کی پشت پناہ ہے۔ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ؟حسن ظن سے بھی کام لیا جائے تو دم بخود ۔ کیا یہ توقع اس سے کی جاسکتی ہے کہ وہ آزادانہ الیکشن کا اہتمام کرسکے گی۔ گستاخی ہوتی ہے لیکن صرف ایک سوال پر۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور محترم ومکرم چیف جسٹس غور فرمائیں: وہ کہ جنہوں نے بیس برس تک جی بھر کے ملک کو لوٹا اور سب جانتے ہیں کہ اپنی دولت انہوں نے بیرون ملک منتقل کی، کیا ان سے کوئی پوچھنے والا ہے ؟ دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں ان کا جواب شاید یہ ہوکہ چیف الیکشن کمشنر سے بات کیجیے۔ فخرالدین جی ابراہیم سے ؟ کراچی والے کہتے ہیں کہ فیس وصول کرنے کے بعد خود پیش ہونے کی بجائے اکثر وہ اپنے نائبین کو بھیج دیا کرتے تھے۔ ایماندار وہ بہت ہیں‘ ایسی ایمانداری کے مگر قائل نہیں جو مشکل میں ڈال دے: خلافِ شرع کبھی شیخ تھُوکتے بھی نہیں مگر اندھیرے اجالے وہ چُوکتے بھی نہیں پارٹی الیکشن میں جہاں کہیں دھاندلی ہوئی، کپتان نے وہاں ازسر نو الیکشن کا اعلان کردیا ہے۔ اب کیا شکایت۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان کے مستقبل کا تمام تر انحصار ان پر ہے۔ الیکشن ہی کا نہیں، عرض کیا کہ ملک کے آنے والے ہر ایک کل کا۔ اگر وہ ہر دروازے پر دستک دے سکتے ہیں تو انکل سام خواہ الٹا لٹک جائے، ملک کے تمام سرمایہ دار میاں صاحبان کی بیعت کرلیں، کپتان کو ہرایا نہ جاسکے گا۔ ہارنے والے ہارے اور جیتنے والے جیت گئے۔ احسن رشید کی خدمات اعجاز چودھری سے کم نہیں، زیادہ ہیں۔ فیصلہ پارٹی کو کرنا ہے مگر مجھ ناچیز کی رائے میں ٹکٹ انہیں ملنا چاہیے ۔ انعام اللہ خاں بڑے بہادر آدمی ہیں لیکن اگر بینک کے نادہندہ ہیں تو وہ مستحق نہیں رہے۔ ٹکٹ! فیصلہ 23مارچ کے جلسہ عام پر ہوگا اور ٹکٹوں کے اجرا پر ہوگا۔ لاہور کا اجتماع تاریخ ساز اور فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ تین لاکھ سے زیادہ کا مجمع اگر ہوسکا تو رحیم یارخاں سے اٹک تک میدان ہموار ہو جائے گا۔ پختون خوا میں جماعت اسلامی سے مفاہمت اور شیریں مزاری کی واپسی نے حوصلے بلند کردیئے ہیں۔ اگلے دو دن بے حد اہم ہیں۔ لاہور ہی نہیں اگر پتوکی، کامونکی، مریدکے، قصور ، گوجرہ ،شیخوپورہ ، گوجرانوالہ اور ادھر فیصل آباد تک کارکن متحرک ہوجائیں تو تین کیا سات لاکھ آدمی مینار پاکستان کے سائے میں جمع ہوسکتے ہیں۔ 23مارچ 1940ء کے بعد یہ سب سے بڑا تاریخی واقعہ بن سکتا ہے۔ خوف! یہ ہے ان کا ہتھیار اور پروپیگنڈہ، پست کردینے والا پروپیگنڈہ۔ گیلپ سمیت سروے کرنے والے مغرب کے تمام ادارے اور بھاڑے کے اخبار نویس کچھ نہ کرپائیں گے، اگر تحریکِ انصاف کے کارکن یہ ایک بات سمجھ لیں: کسی کی محنت اللہ ضائع نہیں کرتا، کبھی نہیں کرتا۔ مہاتمابدھ نے کہا تھا: ہرچراغ بجھ جائے گا، صرف ایک چراغ جلتا رہے گا جو خلوص سے روشن کیا گیا۔ نہایت ہی سفاک لوگوں سے واسطہ آن پڑا۔ ابھی کہاں، ابھی تو کپتان کے خلاف کردار کشی کی مہم برپا ہوگی۔ برسوں سے نون لیگ جس کی تیاری کررہی ہے۔ ابھی کہاں‘ ابھی تو کپتان کو پتہ چلے گا کہ پارٹی کے جن لیڈروں پر وہ بھروسہ کرتا رہا، ان میں سے بعض بک سکتے ہیں۔ ابھی تو کرائے کے دانشور، ڈس انفرمیشن کا بازار گرم کریں گے۔ ایساایسا آدمی، ایسا انکشاف کرے گا کہ خداکی مخلوق دنگ رہ جائے گی۔ کچھ کھرب پتی ہیں جن کی روحوں پر لرزہ طاری ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کپتان کو اقتدار ملا تو انہیں ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ غنڈہ گردی اور لُوٹ مار وہ جاری نہ رکھ سکیں گے۔ ممکن ہے کہ ماضی کے جرائم کا حساب بھی دینا پڑے۔ اربوں نہیں وہ اس سے کہیں زیادہ خرچ کرسکتے ہیں۔ 65برس سے پاکستان ان کی چراگاہ ہے اور جانور اپنی چراگاہ آسانی سے خالی نہیں کیا کرتے۔ برادرم علیم خان کو میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر وہ کپتان اور پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں تو 23مارچ کو اپنے منصب سے الگ ہونے کا اعلان کردیں۔ اس سے ان کی عزت میں اضافہ ہوگا۔ رہے رشید بھٹی اور صداقت عباسی تو ان سے درخواست کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انجام ان کا برا ہے۔ بُری ہے ڈرائے گیوں کی سحر! انسانوں کے اندازے، انسانوں کے اندازے ہیں۔ درست ہوسکتے ہیں اور نادرست بھی ۔ دعویٰ باطل ہے، جہالت اورتکبر۔ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر میں یہ کہتا ہوں کہ کپتان جیت سکتا ہے، پاکستان جیت سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ خوف زدہ ہونے سے انکار کردیا جائے اور سامانِ حرب میں سے کچھ بچا کر نہ رکھا جائے۔ کنواہ کی جنگ میں ظہیر الدین بابر نے توپوں کے سب گولے ایک شام میں جھونک کر دس گنا دشمن کے پرخچے اُڑا دیئے تھے۔ تحریکِ انصاف کے پاس تو پورے ساٹھ دن ہیں۔ پوری قوت لگادی جائے اور پھر معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔ نوازشریف جیت بھی گئے تو کیا ہوگا۔ پنجاب میں پانچ اور مرکز میں دوبار ہم انہیں دیکھ چکے وہ ایک ناکردہ کار لیڈر ہیں ، یکسر بیکار۔ وزارت عظمیٰ نہیں وہ بادشاہت کے آرزومند ہیں۔ غریبوں کے نہیں صنعت کاروں اور تاجروں کے خدمت گزار۔ انکل سام سے خوف زدہ، عربوں کے نخچیر‘ زیادہ سے زیادہ چند ماہ انہیں ملیں گے۔ اس کے بعد وہ اتنے ہی نامقبول ہوں گے جتنے 12اکتوبر 1999ء کے دن تھے ۔ کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی تباہی کے لیے وہ خود ہی کافی ہیں۔ نوازشریف کو چھوڑیئے ، کسی جرائم پیشہ کی مذمت سے بھی حاصل کیا۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: نکلو‘ ہلکے ہو یا بوجھل۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ ظفر مند وہ ہوتے ہیں جو کامیابی حاصل کرنے پر تُلے ہوں۔ گناہ نہیں کفر ہے‘ مایوسی کفر ہے۔