آج شب آشکار ہو جائے گا کہ پانی پت کی چوتھی جنگ کپتان جیتے گا یا نہیں۔ فی الحال جناب انور مسعود کا ایک قطعہ! وہ ڈٹ سکتا ہے امریکہ کے آگے ضرورت اب وہ پاکستان کی ہے بہت دیکھے ہیں ابن الوقت لیڈر ضرورت اب ہمیں عمران کی ہے ’’یہ کب کا قصّہ ہے ؟ کتنے برس پہلے کا؟‘‘ کپتان کے سب سے پُرانے اور سب سے اچھے دوست گولڈی سے میں نے پوچھا۔ اسے یاد نہ تھا‘ یا شاید اس بات کی کوئی اہمیت اس کے نزدیک نہیں کہ دن‘ مہینہ اور سال کون ساتھا لیکن پھر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور ہمیشہ کی طرح ایک معصوم شرمیلی مسکراہٹ سے کہا: ہاں‘ مجھے یاد ہے۔ اپنی کتاب ’’میں اور میرا پاکستان‘‘ میں عمران خان نے لکھا ہے: 2002ء کا الیکشن ہارنے کے بعد، وہ میاں بشیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں، جب روشنی کی کوئی کرن نہ تھی۔ گولڈی نے ان سے پوچھا: کیا تحریک انصاف کو کبھی فتح نصیب ہوگی؟ درویش نے آنکھیں موند لیں، کچھ دیر استغراق میں رہے۔ اس کے بعد سراٹھایا اور یہ کہا : ہاں، یقینا، مگر اس وقت جب یہ (کپتان) اس قابل ہوجائے گا۔ یہ 2011ء میں موسم بہار کا اختتام تھا، جب کپتان نے مجھ سے کہا : وہ وقت قریب آپہنچا ہے۔ میں نے سنی ان سنی کردی۔ دور دورتک کہیں آثار نہ تھے۔ ڈھنگ کا کوئی امیدوار نہ ملتا تھا۔ جلسوں اور جلوسوں کی رونق بڑھ گئی تھی اور ہربار توقع سے بڑھ کر آنے والے سامعین کا جوش وخروش بھی… لیکن؟ اس ’’لیکن‘‘ کے بعد بہت سے سوالات تھے اور ان میں سے کسی سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ 2002ء کے فوراً بعد اس سے کہنا شروع کیا کہ صوبہ سرحد میں پارٹی کی تنظیم پر توجہ دی جائے، جہاں ماحول نسبتاً سازگار ہے۔ ہربار ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے وہ نکال دیتا۔ ایک شام پروفیسر احمد رفیق اختر اس قدر مہربان تھے کہ میں ششدررہ گیا۔ ارشاد کیا : اس سے کہو، راولپنڈی میں جلسۂِ عام کا اعلان کرے۔ انشاء اللہ 25000سامعین سے میں لیاقت باغ کو بھردوں گا۔ جوش وجذبے سے لبریز، میں اس کے پاس پہنچا مگر وہی ایک اٹوٹ خاموشی۔ اس کے چہرے پر لکھا تھا: وہ وقت ابھی نہیں آیا۔ عجیب آدمی ہے‘ میں نے سوچا۔ اس قدر محنتی ، اس قدر ریاضت کیش ، سیاست میں اس کا رویّہ مگر عجیب ہے۔ دماغ کی نہیں‘ ہمیشہ دل کی بات مانتا ہے ، ملال تو بہت ہوا مگر یہ سوچا کہ اگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا تو کوئی دوسرا کیا کرے گا؟لیڈر کھلونا نہیں ہوتا کہ ریموٹ کنٹرول سے چلایا جا سکے۔ فیصلہ اسی کو صادر کرنا ہوتا ہے۔ عراق میں وحشیانہ بمباری میں ایک لاکھ مسلمان مارے گئے۔ ہمیشہ مغرب کو ملحوظ رکھنے والی پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے تو امید ہی کیا ہوتی۔ متحدہ مجلس عمل نے بھی چپ سادھ لی۔ مولانا فضل الرحمن اوّل کرنل قذافی کی بارگاہ میں رہے، لوٹ کر آئے تو چندے قیام کے بعد اردن چلے گئے ۔ امیرالعظیم سے بات کی ،جماعت اسلامی احتجاج پر آمادہ تھی مگر جمعیت علمائے اسلام کو نظرانداز کرکے اپنے طورپر فیصلہ کیسے کرتی؟ ایک شام کپتان کے گھر پہنچا: حضور! اگر آج بھی واویلا نہیں کیا جاتا تو کب کیا جائے گا؟ اسلام آباد اور راولپنڈی کے عہدیداروں کا اجلاس بلایا گیا۔ جانے پہچانے لوگوں میں سے ایک بھی وہاں موجود نہ تھا۔ خانہ خالی رادیومی گیرد۔ لیڈر چلے گئے تو ناتجربہ کار نوجوانوں نے ان کی جگہ پُر کی۔ انہیں ادراک ہی نہ تھا، اکثر کو احساس بھی نہیں۔ شکایات کے دفتر کھلے اور کھلے ہی رہے ۔ تنگ آکر میں اٹھا اور دفتر سے باہر نکل گیا۔ کچھ دیر کے بعد لوٹ کر آیا تو بحث جاری تھی۔ میرے کان میں کپتان نے سرگوشی کی: وہ آمادہ نہیں اور اس سے زیادہ یہ کہ پارٹی کے پاس ایک دھیلا بھی نہیں۔ عرض کیا : جلوس نکالنے کا فیصلہ آپ کر لیں۔ روپے کا بندوبست ہوجائے گا۔ میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ دوستوں کے کچھ پیسے میرے پاس پڑے تھے۔ وہ میں نے ریلوے یونین کے اشتیاق آسی کے حوالے کیے کہ بینر لکھوالیں، پوسٹر چھپوالیں۔ خوش دلی سے انہوں نے پیشکش کی کہ اپنے کارکنوں کو وہ شمولیت پر آمادہ کریں گے۔ عراق میں قتل عام کے خلاف یہ پہلا جلوس تھا۔ متحدہ مجلس عمل نے اس کے بعد خیرہ کن مظاہروں کا اہتمام کیا، کئی گنا بڑے نہیں بلکہ کئی سوگنا بڑے ؛ اگرچہ وکی لیکس میں بعدازاں انکشاف یہ ہوا کہ مولانا فضل الرحمن امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن سے وزارت عظمیٰ کی بھیک مانگتے رہے۔ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کبھی اس نچلی سطح پر نہ گرے۔ براہ راست وہ واشنگٹن سے رابطہ کیا کرتے۔ 30اکتوبر 2011ء کے تاریخ ساز جلسہ عام سے تین ماہ قبل \"PAKISTAN A PERSONAL HISTORY\"کے عنوان سے 2011ء کے وسط میں کپتان کی کتاب لندن سے چھپی تو برطانیہ میں دھوم مچ گئی۔ آخری باب میں کمال یقین کے ساتھ اس نے لکھا: تحریک انصاف جنگل میں جاگتی آگ کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ اب اس کا وقت آپہنچا ہے۔ اب کوئی اسے ہرانہیں سکتا۔ 30 اکتوبر2011ء کا تاریخ ساز جلسۂِ عام شروع ہونے سے تین گھنٹے قبل زمان پارک لاہور کے مکان میں تقریر کے نکات پر بحث شروع ہوئی۔ 29اکتوبر کی شام پروفیسر احمد رفیق اختر نے فون پر کہا تھا: انتہا ہوجائے گی، کل انتہا ہوجائے گی، کپتان سے کہنا کہ اپوزیشن لیڈر کی طرح تقریر نہ کرے۔ چیخ کر بات نہ کرے۔ ہیجان کے بغیر وقار اور اعتماد کے ساتھ۔ اس نے وعدہ کیا لیکن پورا کوئٹہ کے جلسہ عام میں کیا۔ مینار پاکستان کی طرف جاتے ہوئے اس نے یہ کہا: آج طوفان آئے گا، سونامی! ’’کون سا سونامی؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ بس ایک کامیاب جلسۂِ عام ۔ دوگھنٹے بعد سٹیج پر موجود مجیب الرحمن شامی نے کہا: محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے جلسے میں نے دیکھے ہیں، مگر اتنی بڑی تعداد اور ایسا جوش کبھی نہ تھا۔ پروفیسر احمد رفیق اختر اگر پیش گوئی کرسکے تو اس میں تعجب کیا ، لیکن کرکٹ کا یہ سابق کھلاڑی ؟ ایسا وجدان اسے کیونکر عطا ہوا؟ اس کا جواب یہ تھا: میرے دل میں گھنٹی بجتی ہے۔ اچانک میرا دل یقین سے بھر جاتا ہے۔ کوئی غیبی آواز مجھ سے کہتی ہے کہ کامیابی کچھ فاصلے پر دھری ہے۔ عالمی کپ میں ایسا ہی ہوا تھا۔ کل شام جناب خورشید عالم کے عشائیے میں اس نے کہا : میرا دل اسی طرح یقین سے لبریز ہے جس طرح ورلڈ کپ کے دنوں میں‘ (چار میچ پاکستان نے ہاردیئے تھے اور دنیا کے پانچ ارب انسانوں میں سے ایک بھی اس کے جیتنے کی امید نہ کرتا تھا) پھر اس نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب! تیاری کرلیجیے، انشاء اللہ تحریک انصاف کی حکومت میں آپ وزیرصحت مقرر کیے جائیں گے۔‘‘ غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ کون جانتا ہے کہ آنے والا کل کس کے لیے کیا لائے گا۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ باقی تمام لوگوں کے برعکس ہربار اس کا یقین درست ثابت ہوتا ہے، اب کی بار کیا ہوگا؟ میرا خیال ہے کہ اپریل کے وسط تک صورت حال واضح ہو گی۔ آج صبح مگر اس نے کہا: جی نہیں، کل رات 23مارچ کو رات دس بجے تک، پھر وہ ہنسا : یہ پانی پت کی چوتھی جنگ ہے۔ آج کی شب آشکار ہو جائے گا کہ پانی پت کی چوتھی جنگ کپتان جیتے گا یا نہیں۔ فی الحال جناب انور مسعود کا ایک قطعہ! وہ ڈٹ سکتا ہے امریکہ کے آگے ضرورت اب وہ پاکستان کی ہے بہت دیکھے ہیں ابن الوقت لیڈر ضرورت اب ہمیں عمران کی ہے