برصغیر کا مرض یہ ہے کہ لوگ لیڈر کی طرف دیکھتے ہیں۔ کسی نجات دہندہ ، کسی مرداز غیب کا انتظار۔ اللہ کی بجائے بندوں سے امید ؛چنانچہ خود ترحمّی ہی خود ترحمّی، بے چارگی اور بے بسی۔ ع پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے! تحریکِ انصاف کے کارکن نے چھوٹتے ہی کہاکہ ایک کارندے کا کالم اس نے پڑھا ہے…عرض کیا: کوئی ضروری بات ہو تو ارشاد کیجئے، ہمارے لیے ، ایک زمانہ گزرا ،وہ مرفوع القلم ہو چکے ۔خود فروش کے بارے میں کیا کہیے۔ ملّا نصیر الدین نے شیشے کا گلدان مستعار لیا۔ پڑوسی نے نالش کی کہ خراب کر ڈالا۔ ملّا کا جواب یہ تھا: اوّل تو گلدان میں نے لیا ہی نہیں، ثانیاً صحیح سلامت واپس کر دیا تھا اور تیسرے یہ کہ پہلے سے ٹوٹا ہوا تھا۔ 30اکتوبر 2011ء کے جلسہ ء عام سے قبل نون لیگ، تحریکِ انصاف کا وجودہی مانتی نہ تھی ۔دو برس ہوتے ہیں، لاہور کے ضمنی الیکشن میں ،جو دیہی اور شہری علاقے پر مشتمل تھا، لاہور شہر کے کسی ایک بھی پولنگ سٹیشن سے وہ جیت نہ سکی تھی۔ دیہی علاقوںمیں البتہ اسّی نوّے فیصد ووٹ پڑے اور تقریباً سب کے سب نون لیگ کو ۔پٹواری اور پولیس والے شریف خاندان پر عاشق بہت ہیں۔ 14000جعلی ووٹروں کی فہرست الیکشن کمیشن کی خدمت میں پیش کردی گئی ، جس پر آج تک کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔ کوئی دن جاتاہے کہ آئندہ الیکشن کا نتیجہ سامنے ہوگا اور سب کو ماننا ہوگا۔ کپتان جیت بھی جائے تو شریف خاندان اس کی فتح تسلیم نہ کرے گا۔ وہ دن سبھی کو یاد ہیں ، جب لاہور شہر میں تحریکِ انصاف کے پوسٹر پھاڑ دئیے جاتے اور بینر نوچ لیے جاتے ۔ ایک بار تو خود خادمِ پنجاب نے عمران خان کے گھر جاکر وعدہ کیا کہ تحقیقات کرائیں گے… خود اپنے خلاف ہی تحقیقات؟ نوجوانوں کے رجحانات پر نظر رکھنے اور تعلیمی اداروں میں جھانکنے والے اخبار نویس البتہ یہ کہتے تھے کہ نئی پارٹی فروغ پذیر ہے۔ شریف خاندان نے حل یہ ڈھونڈا کہ اخباری کارندے مزید متحرک کر دئیے ۔ میاں محمد نواز شریف کے غیر محتاط اظہارِ خیال سے ایم کیو ایم سے لفظی جنگ چھڑی تو ٹیلی ویژن پرجناب احسن اقبال کو کہتے سنا : عمران خان کی طرح ہم فردِ واحد نہیں (لہٰذا ایم کیو ایم کو نمٹا دیں گے )۔ یہ الگ بات کہ متحدہ والوں نے چاروں شانے چت کر دیا کہ یہ ان کا میدان ہے ۔ شیر خفیف ہو کر لسّی پینے لگا۔ عمران خان اگر فردِ واحد تھے تونون لیگ اس قدر خوف زدہ کیوں تھی؟ 30اکتوبر کے جلسے پر تواسے سانپ سونگھ گیا۔پانچ دن خاموشی رہی ۔ چھٹے دن وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک اور شریف خاندان کے ایک اخبار نویس نے بیک وقت \" انکشاف \"کیا کہ لوگ آئے نہ تھے ،لائے گئے تھے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کرنے والے شہباز شریف اور چوہدری نثار نے واویلا شروع کیا کہ جنرل شجاع پاشا کپتان کے پشت پناہ ہیں ۔ درباریوں نے مصرعہ اٹھایا اور گلی گلی گیت گاتے پھرے ۔ کون سی پشت پناہی ؟ کمان سنبھالنے کے بعد جنرل کیانی نے عزم کیا اور اس پر قائم رہے کہ فوج فریق نہ بنے گی ۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف نے ان سے کیا کہا، کسی کو معلوم نہیں ۔جنرل بتانے والا نہیں اور نون لیگ کے ژولیدہ فکر کیا بتائیں۔ جنرل مائیکل ملن نے البتہ ایک بار آئی ایس آئی کی شکایت کی تو جنرل کیانی نے ان سے دریافت کیا: آئی ایس آئی میں تقرر اور تبادلے کون کرتاہے ؟ جزا اور سزا کون دے سکتا ہے ؟ وہی کرتی ہے ، جس کا حکم اسے دیا جاتاہے ۔سچّے ہوتے تو جنرل کیانی پر تنقید کرتے ۔یہ مگر ان کا شیوہ نہیں ۔وہ ہمیشہ کمزور کو تاکتے ہیںاور اس وقت ، جب ریٹائرمنٹ قریب تھی، جنرل پاشا ایک آسان ہدف۔ عمران خاں جنرل کیانی سے کبھی نہیں ملے اور جہاں تک میں جانتا ہوں ، جنرل پاشا سے صرف ایک بار ۔ وہ بھی سوات میں فوجی آپریشن پر بریفنگ کے لیے ، خود اپنی درخواست پر۔ جذباتی آدمی ذاتی طور پر کپتان کا مدّاح ضرور تھا ، لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح ۔ہمایوں اختر خان مغالطے میں مبتلا ہوئے تو ان کی رائے پوچھی مگر اس کے بعد اتحادی وہ نون لیگ کے بنے۔ سبکدوشی کا اعلان ہونے کے بعد ، جنرل پاشاسے میری (واحد ) ملاقات ہوئی تو انہوںنے بتایا: صدر زرداری نے مجھ سے پوچھا : جنرل صاحب ، اپنا ذاتی ووٹ آپ کسے دیں گے ؟ میں نے جواب دیا : کپتان کو ۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کو یہ بات نہ کہنی چاہیے تھی مگر وہ ایسے ہی تھے ، نرے سپاہی ، صاف گو اور اکل کھرے ۔ یہی سوال کسی نے جنرل کیانی سے کیا تو ان کا جواب یہ تھا : پولنگ کے دن میں مصروف ہوں گا اور ووٹ نہ ڈال سکوں گا۔ سب جانتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ کپتان میچ فکس نہیں کرتا۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے : دوسروں کو آدمی خود پر قیاس کرتا ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ شریف خاندان آئی ایس آئی اور جنرلوںکی گود میں پروان چڑھاوگرنہ وہ کہاں کے سیاستدان تھے۔ائیر مارشل اصغر خان کی تحریکِ استقلال کے گم نام کارکن۔ رہے پَر سے کوّا بنانے والے ڈھنڈورچی تو ظاہر ہے کہ جس کا کھاتے ہیں ، اسی کا گائیں گے ۔ پچھلی بار اعلیٰ سرکاری نوکریاں انہیں ملی تھیں ، اب کی بار کردار کُشی کے میدان میں ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں ؛چنانچہ اب بجا طور پر زیادہ کی امید وہ رکھتے ہیں۔ کبھی کوئی غلطی میاں محمد نواز شریف سے بھی سرزد ہوئی یا وہ فرشتہ ہیں؟ ڈھنڈورچیوں نے کیا کبھی برائے وزنِ بیت بھی ان سے اختلاف کی جسارت کی ؟ خوشامدیوں کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے نجم سیٹھی کو لا بٹھایا ہے۔ کسی قتالہ کے لیے گائوں میں چھوڑ دی گئی پرانی بیوی کی طرح تنہائیوں میں بیچارے بسورتے ہیں ، منہ پر شکوہ بھی نہیں کر سکتے ۔وہی سیٹھی ، جس نے کہا تھا :رانا ثنا ء اللہ دہشت گردوں سے رابطے میں رہتا ہے ۔ ڈنکے کی چوٹ یہ ناچیز کپتان کو دوسروں سے بہتر کہتا اور غیر جانبداری پہ لعنت بھیجتا ہے مگر ایک نہیں، کتنے ہی مواقع پر اختلاف کیا اور کھل کر کیا ۔اسے بتایا کہ شوکت خانم ہسپتال میں کوئی بھارتی فنکار نہ آنا چاہیے۔ سوات آپریشن کی مخالفت کپتان کو ہرگز نہ کرنی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی کو وائس چئیرمین نہ بنانا چاہیے تھا۔ پارٹی میں الیکشن ہوئے تو ڈٹ کر لکھا ۔کئی بار اس نے مجھ سے بات کی ۔ میرا جواب وہی تھا : میرے پاس دو ترازو ہیں، نہ دو طرح کے باٹ۔ لاہور کے ایک بزرگ اخبار نویس نے کہا تھا: ایک سیاستدان اور اخبار نویس کی ذاتی دوستی سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ کپتان سے کسی نہ کسی طرح نبھ گئی ۔چھ ہفتے باقی ہیں ، الیکشن اگر وہ جیت گیا تو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ حکمرانوں کے کارناموں کی داد بھی نہ دینی چاہیے (مفہوم)۔ تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو میرا مشورہ یہ ہے کہ بھاڑے کے ٹٹوئوں سے پریشان ہونے کی بجائے ،اپنے کام پر وہ توجہ دیں ۔ زنجیر کی چار کڑیاں ہیں ۔ ووٹر کی شناخت ، اس سے رابطہ ، پولنگ سٹیشن تک اسے لے جانا اور ووٹوں کی گنتی ۔سب سے اہم یہ ہے کہ ایک ایک دروازے پر انہیں دستک دینی چاہیے، متواتر اور مسلسل ۔اگر ایسا وہ کر سکے تو ملک بدل جائے گا۔ برصغیر کا مرض یہ ہے کہ لوگ لیڈر کی طرف دیکھتے ہیں۔ کسی نجات دہندہ، کسی مرداز غیب کا انتظار۔ اللہ کی بجائے بندوں سے امید؛ چنانچہ خود ترحمّی ہی خود ترحمّی، بے چارگی اور بے بسی۔ع پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے