"HRC" (space) message & send to 7575

ہارگئی

ہار گئی ہے ، بخدا نون لیگ ہار گئی ۔ مشکل ہے ، بہت مشکل ۔ فرض کیجئے، عارضی سی فتح پا بھی لے تو اقتدار کے ایّا م محدود۔ فوج‘ آزاد پریس اور آزاد عدالتوں سے لڑتی رہے گی۔ عوامی اور عدالتی احتساب کی سولی پہ لٹکی رہے گی ۔ تیری رسوائی کے خونِ شہدا درپے ہے دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا کیا اس نے یہ کہا کہ نوجوانوں میں بھی نون لیگ کو کپتان پہ برتری حاصل ہے ؟ سوال یہ ہے کہ پٹھان کے سینے پر بیٹھا بنیا روتا کیوں ہے ؟ سروے؟ کل نمازِ جمعہ سے پہلے گجرات یونیورسٹی میں مجیب الرحمٰن شامی نے اسی جامعہ کے پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کا سروے پڑھ کر سنایا۔ 54فیصد کپتان اور 38فیصد نون لیگ کے حامی ۔سٹیج سیکرٹری معترض ہوا تو شامی صاحب نے کہا : یہ غیر جانبدار لوگوں کا سروے ہے ۔ سرحد اور پنجاب میں پیپلز پارٹی برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ اس کے مخلص حامی شریف خاندان کو ووٹ دیں گے ؟ جہاں جماعتِ اسلامی کے امیدوارہیں؟ وہ کس کو ؟ ظاہر ہے کہ کسی ایک تعلیمی ادارے کو فیصلہ نہیں کرنا ۔ کہیں برتری نون لیگ کی ہے اور کہیں کپتان کی۔ صوبہ سرحد میں 32فیصد عمران خان اور 17فیصد نون لیگ۔ میاں محمد نواز شریف اب تنہا اُڑیں گے۔ جعفر لغاری سمیت ، جو ابھی تک اپنی چھپائے اورنواز شریف کے کارناموں کی کئی سیر وزنی فائل اٹھائے در در جاتے تھے‘ اتنے لوگ انہوںنے سمیٹ لیے ہیں کہ دوسرے کیا، خود اپنوں کے لیے جگہ باقی نہیں ۔ دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے کہیں جگہ نہ ملی میرے آشیانے کو اوّل تو اب وہ اکثریت حاصل نہیں کر سکتے ۔اگر ہو بھی تو صرف پنجاب میں ۔ سرحد میں دو چار سیٹیں ہی۔ اکثریت نہ ملی تو سندھ کے حلیف نو دو گیارہ۔ ہمیشہ کی طرح بلوچستان مرکز کے ساتھ جائے گا۔ کہاں کا رشتۂ جاں اور دوستی کیسی مبالغہ بھی کریں تو نباہنے تک ہے فرض کیجئے،اکثریت مل گئی تو منی لانڈرنگ کا مقدمہ؟ عدالت میں دیا گیااسحٰق ڈار کا اعترافی بیان موجود ہے ۔ سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ بالکل اسی طرح وہ کٹہرے میں کھڑے ہوں گے ، جس طرح کل یوسف رضا گیلانی اور آج راجہ پرویز اشرف! سرحدمیں کپتان کی برتری واضح ہے ۔ پنجاب میں ایک برابر۔۔۔۔۔۔ 38فیصد۔ مہم چلے گی تو ظاہر ہے کہ کپتان برتری پائے گا۔ وہ خوف زدہ ، کپتان بے خوف ۔ پھر سوال یہ ہوگا کہ پنجاب میں پانچ بار شریفوں کو حکومت ملی ۔ تب کوئی تبدیلی وہ نہ لا سکے تو اب انقلاب کہاں سے برآمد کریں گے ؟ برطانیہ میں شریف خاندان کی جائیدادیں بکھری پڑی ہیں ، چھپ نہیں سکتیں ۔ اپنے یا صاحبزادے کے نام ۔ سب جانتے ہیں کہ اربوں ڈالر کے اثاثے ہیں ، جو امریکہ اور عربوں کی مدد سے ، پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ مفاہمت کے بعد بیرونِ ملک منتقل کیے گئے ۔قانونی طریق پر یا ہنڈی سے ؟ 8ارب روپے پاکستانی بینکوں کے واجب الادا ہیں ۔ حدیبیہ پیپر مل کا کھلا گھپلا اس کے سوا۔ سعودی عرب والی سٹیل مل کا حساب بھی دینا ہوگا، جس میںپاکستانیوں کی بجائے بھارتی ہندوئوں کو ملازمتیں ملیں۔ دولت اور اولاد باہر بھیج کر پاکستان پر حکومت کے آرزومند ، حبّ ِوطن کے اس ٹھیکیدار نے اپنے ملک کے مستقبل پر اظہارِ عدم اعتماد کیا۔ دلوں سے بددعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ امریکی اور برطانوی ایما پر وجود پانے والے میثاقِ جمہوریت پر جس نے فخر کیا ۔ اس معاہدے کے فوراًبعد کلدیپ نائر کو انٹرویو دیتے ہوئے ، اس نے کہا : ہم تو بھارت سے ’’دوستی‘‘ کے آرزومند ہیں ، فوج نہیں کرنے دیتی۔ یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کے اصل حلیف ہم ہیں ، مشرف دھوکہ دے رہاہے ، دل سے ان کے ساتھ نہیں ۔ امریکہ مخالف افغان حریت پسندوں سے خفیہ تعلقات ہیں۔ نام نہاد میثاقِ جمہوریت کا متن سامنے رکھیے ۔ سترھویں شق یہ ہے : کسی تعصب کے بغیر ، بہرحال (امریکی فوج کے مقبوضہ) افغانستان اور (کشمیریوں کے قتلِ عام پہ مصر ) بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے جائیں گے ۔ ہر قیمت پر؟پاکستان کی قیمت پر؟ نون لیگ کے دانشور بولتے کیوں نہیں ۔ اس لیے کہ حکومت پا کر وہ نوکریوں‘ وزارتوں اور سفارتوں کے آرزومند ہیں ؟ اس ناچیز نے نہیں، میثاقِ جمہوریت کے ہنگام مسلم لیگی اخبار نے بھی احتجاج کیا تھا، جس میں کپتان کے لیے کلمۂ خیر کہنے پر اب پابندی ہے۔ اس ناچیز نے نہیں ، جناب رفیق ڈوگر اور پروفیسر فتح محمد ملک نے بھی فریاد کی تھی۔ بہ زیرِ شاخِ گل افعی گزید بلبل را نواگرانِ نہ خوردہ گزند را چہ خبر شاخِ گل کے نیچے سانپ نے بلبل کوڈس لیا، مگر جنہیں تکلیف نہیں پہنچی ، انہیں کیا رنج ؟ مفادات کے بندے ، پتھر دل لوگ۔ دستر خوانوں پر ہڈیاں چچوڑنے والے بے حس درباری ۔ دانائے راز اقبالؔ نے کہا تھا ۔ بہ ملک جم نہ دہم مصرعۂ نظیری را کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ ما نیست ایک سلطنت کے عوض بھی ، میں شاعر کے اس مصرعے کا سودا نہ کروں ’’جس نے زخم نہیں کھائے ، وہ میرے قبیلے کا نہیں ۔‘‘ اور یہ بھی کہا تھا: معلوم نہیں‘ ہے یہ خوشامد کہ حقیقت اُلّو کو اگر کہہ دے کوئی رات کا شہباز اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا ، جسے شرم نہیں ، وہ اپنی مرضی کرے۔ ’’دل پتھر ہو جاتے ہیں بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت کہ ان میں تو ایسے ہیں ، جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں‘‘۔ ’’آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ، دل اندھے ہو جاتے ہیں‘‘ کیا اس میں کوئی شبہ ہے کہ شریف خاندان ستّربرس سے لکشمی دیوی کا پجاری ہے ۔ساٹھ کے عشرے میں ، لاہور کی مال روـڈ سے گٹر کے آہنی ڈھکن راتوں کو چُرا لیے جاتے تو افواہ پھیلتی : اتفاق گروپ والے اـٹھا لے گئے ۔ جمہوریت ؟ فیلڈ مارشل ایوب خان ، جنرل آغا محمد یحییٰ خان اور جنرل محمد ضیاء الحق ، کس کے مارشل لا کی انہوںنے مخالفت کی؟مشرف کے تو اس لیے مخالف ہیں کہ ان کی حکومت اڑا دی تھی۔ سروے کرنے والے نوازشریف کے پسندیدہ ادارے گیلپ کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے مطابق 70فیصد پاکستانی بدعنوان حکومت کی برطرفی پر خوش و خرّم تھے۔ پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہو کر جنرل محمد ضیاء الحق نے کہا تھا: میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے ۔ لگ گئی۔1992ء تک ہر سال ان کے مزار پہ اعلان کرتے رہے کہ وہ جنرل کا مشن پورا کریں گے۔ اس لیے کہ بہت سے ووٹر مرحوم جنرل کے حامی بھی تھے ۔ احسان فراموش اپنے سرپرست کااب نام تک نہیں لیتے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کو اقتدار نہ ملتا تو شریف خاندان کس حال میں ہوتا؟ اتفاق فائونڈری کیونکر واپس ملتی اور بینکوں سے اربوں کے قرضے کس طرح حاصل کر پاتے ؟ طوطا چشمی اور ایسی طوطا چشمی؟ ابن الوقتی اور ایسی ابن الوقتی؟ اب وہ ’’سیفما‘‘ کے ساتھ ہیں ۔ اب وہ بھارت اور امریکہ نواز دانشوروں کے سرپرست ہیں ۔ اب نجم سیٹھی کو انہوں نے وزیر اعلیٰ بنوایا ہے ۔ دو برس ہوتے ہیں ، لاہور جب پرویز رشید کی پسندیدہ سیفما کے اجلاس میں شرکت کے بعد میاں صاحب آزاد کشمیر تشریف لے گئے تو مظفر آباد میں یہ کہا : بھارت سے زیادہ ، پاکستانی فوج نے کشمیریوں پہ ظلم ڈھایا ہے ۔کیا کبھی پاک فوج نے کشمیریوں کا قتلِ عام کیا ؟ دوسرے تو کیا ، اس پر نون لیگ کے لیڈر سردار سکندر حیات نے احتجاج کیا تھا۔ سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے بھی ۔کل وہی فاروق حیدر انتخابی دفتر کی افتتاحی تقریب میں ،حنیف عباسی کے ساتھ کھڑے تھے ۔ اس حنیف عباسی کے ساتھ ، جس پر ایفی ڈرین کی سمگلنگ کا الزام ہے ، جو ضمانت پر رہا ہے اور دعویٰ یہ کرتاہے کہ کپتان کی ضمانت ضبط کرادے گا۔ شیکسپئر کے ایک ڈرامے کا کردار یہ کہتاہے\"We meet strange bad fellows in life\"۔ شب کی تاریکی میں کیسے کیسے لوگوں کی رفاقت گوارا کرنا پڑتی ہے ۔ ہار گئی ہے ، بخدا نون لیگ ہار گئی ۔ مشکل ہے ، بہت مشکل ۔ فرض کیجئے، عارضی سی فتح پا بھی لے تو اقتدار کے ایّا م محدود۔ فوج‘ آزاد پریس اور آزاد عدالتوں سے لڑتی رہے گی۔ عوامی اور عدالتی احتساب کی سولی پہ لٹکی رہے گی ۔ تیری رسوائی کے خونِ شہدا درپے ہے دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں