اور یہ فرمایا: اے آدم زاد، کس چیز نے تجھے اپنے مہربان رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ خود احتسابی، جنابِ والا، خود احتسابی! صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نہیں شکست تسلیم کرنے اور ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مایوس وہ ہوتے ہیں، اللہ سے نہیں، جن کی امیدیں کسی فانی آدمی سے وابستہ ہوں۔ آسان نہیں تو دشوار، مختصر نہیں تو طویل، کوئی نہ کوئی راستہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ پنجابی کی ضرب المثل یہ ہے: ایک در بند تو سو در کھلے۔ تحریکِ انصاف کی قیادت سننے پر آمادہ ہو تو ایک سے زیادہ لائحہ عمل تجویز کیے جا سکتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہم زیادہ جانتے ہیں بلکہ یہ کہ ہم دانا لوگوں کے دروازوں پر جاتے ہیں اور توجہ سے ان کی بات سنتے ہیں۔ سامنے کی سچائی یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کو قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کپتان کتنی ہی غلطیاں کیوں نہ کر چکے، اس کی خدمات ہیں اور اس کے خلوص پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ میں بلند آواز سے سوچنے کی جسارت کرتا ہوں۔ بے وفائی پر تُلے شاہ محمود اور ذاتی ترجیحات میں مگن جاوید ہاشمی ملتان میں ہیں اور عبد العلیم خان لاہور میں براجمان۔ ان کانسٹیبلوں اور پٹواریوں کو اسلام آباد میں چھوڑ کر خان ایک دن کے لیے کوہِ مری یا ایبٹ آباد ایسے کسی مقام پر چلا جائے۔ ایسے لوگوں کو، جو فریق نہیں اور جو لالچ کے مارے نہ ہوں، مشورے کے لیے طلب کرے۔ فرض کیجئے، لاہور کے دو امیدواروں کے ٹکٹ منسوخ کر کے جماعتِ اسلامی کو دے دیے جائیں۔ اسی طرح کراچی اور صوبہ سرحد میں بھی۔ سیّد منوّر حسن اپنے حصے سے کم پر قناعت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لاہور میں مفاہمت کا مطلب یہ ہو گا کہ منصورہ والے مطمئن ہو جائیں۔ کراچی میں کامیاب مذاکرات کا نتیجہ یہ ہو گا کہ چار نشستیں جیت لی جائیں۔ ہزارہ میں اعظم سواتی کمال کر دکھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ صوبے میں جماعتِ اسلامی کے 12 اور تحریکِ انصاف کے ووٹ 31 فیصد ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ وہ ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں تو کوئی جماعت کیا، ایک مشترکہ محاذ بھی انہیں ہرا نہ سکے گا۔ ستّر فیصد سیٹیں وہ جیت سکیں گے۔ پنجاب میں فوری نتیجہ یہ ہو گا کہ مایوسی تمام ہونے لگے گی۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے جن بیس پچیس امیدواروں کا تاثر زیادہ خراب ہے، ان سے معذرت کر لی جائے۔ مثال کے طور پر گجر خان میں محض ایک بنیادی اقدام سے فضا بدل جائے گی۔ اسی طرح راولپنڈی کی اس سیٹ پر، جہاں خود عمران خان کو میدان میں اترنا ہے۔ برسبیلِ تذکرہ یہ کہ لاہو ر، میانوالی اور پشاور سمیت جن چار سیٹوں پر کپتان کو انتخاب لڑنا ہے، انشاء اللہ ان سب پر وہ کامیاب رہے گا۔ لاہور میں انتخابی مہم کا انچارج اگر کسی اہل اور قابلِ قبول آدمی کو بنایا جائے تو مزید ہزاروں کارکن خوش دلی کے ساتھ میدان میں اتر آئیں گے۔ انشاء اللہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں صورتِ حال بدل جائے گی۔ اسلام آباد کی نشست پر جاوید ہاشمی کو میاں محمد اسلم کے حق میں دستبردار ہو جانا چاہیے۔ وہ اس آدمی سے جیت نہیں سکتے، ہمہ وقت جو ووٹروں کے لیے حاضر رہتا ہے۔ دوسری سیٹ پر چودھری مہربان کے لیے ان کی تائید نتیجہ خیز ہو سکے گی۔ ہر باخبر آدمی جانتا ہے کہ بظاہر کتنے ہی اختلافات ہوں، اندر خانہ بعض امور پر آصف علی زرداری اور نواز شریف نے معاہدہ کر رکھا ہے۔ دونوں کی جائیدادیں اور اولادیں ملک سے باہر ہیں۔ ایک دوسرے کو انہیں تحفظ دینا ہے۔ امریکہ بہادر دونوں کا سرپرست ہے۔ عمران خان سے دونوں بیر رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اسے موقعہ ملا تو آزادانہ تحقیقات ہو کر رہیں گی اور اپنی بے قاعدگیوںپر وہ سزا پائیں گے۔ اسلام آباد کا کھرب پتی اگرچہ خوف زدہ ہے اور اپنا بیشتر سرمایہ اس نے بیرونِ ملک منتقل کر دیا ہے لیکن وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھ رہے گا۔ تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں سے اس کا رابطہ ہے، اکثر کی وہ مالی مدد کرتا ہے لیکن پیپلز پارٹی یا نون لیگ میں سے کسی ایک کی فتح اسے سازگار ہے۔ اس کے کارندہ اخبار نویسوں کے تجزیوں سے آشکار ہے کہ اب اس نے اپنا وزن نون لیگ کے پلڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریکِ انصاف کے لیے اس نے دو ارب رکھ چھوڑے تھے۔ چار ماہ ہوتے ہیں جب یہ بات میرے علم میں آئی۔ میں نے کپتان کو بتایا کہ فلاں یا فلاں، اس پیشکش کے ساتھ تمہارے پاس آئے گا۔ قدرے ناراضی کے ساتھ اس نے کہا: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں اس کا عطیہ قبول کر لوں گا۔ ’’ارے نہیں‘‘ میں نے اس سے کہا: ’’اندیشہ مجھے یہ ہے کہ وہ ایک ڈرامہ تخلیق کرنے اور تمہیں بدنام کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایک ممتاز پبلشر کو اس نے ایسی ہی پیشکش کی تھی۔ اسے خاک چاٹنا پڑی۔ چونکہ اب مستقلاً وہ خطرے سے دوچار ہے؛ لہٰذا کچھ بھی کر سکتا ہے، کچھ بھی! یہ تو آشکار ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی یا ایم کیو ایم سے تحریکِ انصاف اتحا د نہیں کر سکتی۔ پھر کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے؟ خریدے گئے اخبارات اور اخبار نویسوں کے واویلے سے نون لیگ خود فریبی کا شکار ہے۔ صورتِ حال کا گہرائی میں تجزیہ کرنے والوں کو اندازہ ہے کہ تحریکِ انصاف اگر اپنی غلطیوں پر قائم رہے، تب بھی نواز شریف قومی اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ 90، 95 سیٹیں حاصل کر پائیں گے۔ پی ٹی آئی کی حماقتوں کا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچے گا۔ ایک جامع لائحہ عمل سے تحریکِ انصاف اب بھی نون لیگ کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ جزوی اصلاح سے بھی وہ دوسری بڑی پارٹی ضرور بن جائے گی۔ نواز شریف حکومت بنا بھی لیں تو زرداری صاحب کی طرح پانچ سال انہیں ہرگز نہ ملیں گے۔ ہم سب انہیں جانتے ہیں اور اندازہ ہے کہ ان کا اندازِ کار کیا ہو گا؟ زیادہ سے زیادہ چند ماہ کے اندر ہی فوج، عدلیہ اور میڈیا سے تصادم کا آغاز۔ ذہن پر ذرا سا زور دیجئے، حلیف ان کا کون ہو گا؟ پیپلز پارٹی؟ اوّل روز سے بدنامی۔ مولانا فضل الرحمٰن یا اے این پی؟ مضمون واحد ہے۔ اندیشہ اور ہے۔ ایسی فضا میں آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کامیاب رہے گی۔ تب آزاد امیدوار، ایم کیو ایم، مولانا فضل الرحمٰن، فاٹا اور قاف لیگ کے ارکان فیصلہ کن کردار کے قابل ہوں گے۔ دو تہائی اکثریت سے نواز شریف حکومت نہ چلا سکے تو ایسے میں کیا خاک چلا پائیں گے۔ عدم استحکام بڑھے گا، معیشت مزید برباد اور ردّعمل میں عوامی طوفان اُٹھ کھڑا ہو گا۔ پھر وہ حادثہ پیش آ سکتا ہے جو ایسے دانا حکمرانوں کے طفیل بار بار پیش آتا رہا۔ تحریکِ انصاف کو صرف یہ کرنا ہے کہ کھلے دل اور ٹھنڈے ذہن کے ساتھ صورتِ حال کا از سرِ نو جائزہ لے۔ اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے: انسانوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جا تا‘ مگر انسان جلد باز ہے، ظالم اور بے خبر۔ اپنے فرض کی اہمیت کو کمتر اور خود کو وہ زیادہ گردانتا ہے۔ تاریکیوں میں اجالا کرنے والا ارشاد یہ ہے: اے وہ لوگو! جنہوں نے اسراف میں خود کو برباد کر لیا، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا… اور یہ فرمایا: اے آدم زاد، کس چیز نے تجھے اپنے مہربان رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ خود احتسابی، جنابِ والا، خود احتسابی!