کیا کبھی ان سیاستدانوں اور اسلام آباد کے اس کھرب پتی کا مواخذہ بھی ممکن ہوگا، جو کسی بھی حکمران سے زیادہ طاقتور ہے اور جس کا ہاتھ دونوں بڑی پارٹیوں کی پشت پر ہے ۔ چیخ چیخ کر اس ملک کے عوام پوچھ رہے ہیں ۔ دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتے ہیں کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں مسترد جنرل کی گرفتاری اور تذلیل پر جشن منانے والے سرشار رہیں مگروہ نوشتۂ دیوار بھی پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ صحتِ کاملہ عطا کرے ، بھٹو اقتدار کے آخری دنوں میں سیّد عباس اطہر نے لکھا تھا : اکیلے پھرو اب ‘ ہوا کی طرح ‘جس کے پیچھے چلے تھے تم اتنا اونچا اڑے کہ پہاڑوں کو ٹیلے سمجھنے لگے تھے فخرِ ایشیا ، قائد ِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا : یہ کرسی بہت مضبوط ہے ۔انتخابی دھاندلی پر احتجاج کرنے والے 329 پاکستانی انہوںنے قتل کر ڈالے تھے ۔ پیپلز پارٹی کے وہ لیڈر دلائی کیمپ کے خفیہ جیل خانے میں پڑے تھے ،اپنے لیڈر سے جنہوں نے اختلاف کی جسارت کی تھی ۔فیڈرل سکیورٹی فورس نے پورے ملک کو جیل خانہ بنا ڈالا تھا ۔ اخبارات کاگلا گھونٹ دیا گیا تھا ۔شہدا ، خواجہ رفیق اور ڈاکٹر نذیر کی روحیں فریاد کر تی تھیں۔ پرویز مشرف ضرورلٹکا دئیے جائیں۔ کیا لوٹ مار کا سرمایہ بیرونِ ملک بھیجنے والے میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری بچ رہیں گے ؟ فوج کو حکومت میں نہیں آنا چاہیے ، اب یہ پوری قوم کا فیصلہ ہے مگر اکتوبر 1999ء میں کیے جانے والے گیلپ سروے کا کیا کیجئے؟ 70فیصد پاکستانیوں نے نواز شریف کی برطرفی کا خیر مقدم کیا ، صرف 20فیصد نے مخالفت ۔ بی بی سی کا تازہ سروے بتاتاہے کہ آج صرف 13فیصد پاکستانی نوجوان اس جعلی جمہوریت کے حامی ہیں ، صدر زرداری اور نواز شریف جس کی نمائندگی کرتے ہیں ۔سرکاری خزانے سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، لیپ ٹاپ ، سستی روٹی ، پیلی ٹیکسیاں اور شمسی توانائی کے مفت یونٹ بانٹنے کے باوجود صرف 13فیصد۔آبادی کا ساتواں حصہ بھی نہیں۔ بھاڑے کے ٹٹوئوں کی شبانہ روز تبلیغ اور ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کی عالمانہ کوششوں کے باوجود۔ شریف حکومت میں تمام مخالف سیاسی جماعتیں ہی نہیں ، میڈیا اور عدالتیں بھی انتقام کا نشانہ بنیں۔ معاشی طور پر ملک برباد سے برباد ترہوااور مستقبل کے لیے امید کی کوئی کرن نہ تھی ۔ ایک فرد کا نہیں ، یہ ایک معاشرے کا المیہ ہے ۔جہاں جرائم پیشہ لیڈر بنتے ہیں اور یہ لیڈر خود کو دیوتا سمجھتے ہیں ۔ پچھلے پانچ برس میں سی آئی اے اور پینٹا گان کی اس سازش کو جنرل کیانی نے ناکام بنایا کہ بھارت انکل سام کا جانشین ہو جائے ۔ اس حال میں کہ صدر زرداری اور خارجہ امور میں ان کے حلیف میاں محمد نواز شریف امریکہ ، برطانیہ اور ان کے حلیف عرب ممالک کو وفاداری کا یقین دلا رہے تھے ۔ صدر زرداری نے مشرف دورکی پالیسیوں کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس سے بھی بدتر یہ کہ ہزاروں امریکیوں کو ویزے جاری کیے کہ پاکستان کو برباد کریں ۔اس کی سرزمین پر بیٹھ کر اس کے خلاف سازشوں کے جال بنیں۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں ، جنہوںنے پرویز مشرف کا خیر مقدم کیا تھا۔ یوں نواز شریف کے سوا ، جن کا تختہ الٹا گیا، سبھی نے ۔ بے نظیر مخالف تب ہوئیں ، جب فوجی حکمران نے انہیں شریکِ اقتدار کرنے اور آصف علی زرداری کورہا کرنے سے انکار کر دیا ۔ مولانا فضل الرحمٰن کس کے ساتھ تھے ؟ سترہویں ترمیم متحدہ مجلسِ عمل نے منظور کرائی تھی اور اس سے پہلے معافی نامہ لکھ کر نواز شریف ملک سے فرار ہو گئے تھے ۔پارٹی شریف خاندان نے ایسی عالیشان تعمیر کی تھی کہ سارے لیڈر مشرف کے ساتھ چلے گئے ۔ امریکہ اور سعودی عرب کی مدد سے خود شریف خاندان نے خفیہ سمجھوتہ کیا کہ جان بچائیں اور کھربوں روپے بیرونِ ملک منتقل کریں۔ ایک نواب زادہ نصر اللہ خان او رائیر مارشل اصغر خاں ہی کیا، سینکڑوں ہیں ، ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں برس ہا برس جیلوں میں پڑے رہے بلکہ شاہی قلعے میں ڈالے گئے ۔ نواز شریف چند ماہ میں ٹوٹ گئے ۔ہاں جاوید ہاشمی ! اور جاوید ہاشمی کے ساتھ انہوںنے کیا کیا ؟ خواجہ سعد رفیق ؟ پنجاب کے سیکرٹری جنرل تھے کہ مکھن سے بال کی طرح نکال کر پھینک دیے گئے ۔ روتے ہوئے وہ میرے پاس آئے، دل گرفتہ اور غم زدہ۔ ان کی خواہش پر عمران خان سے ان کی ملاقات کا میں نے بندوبست کیا۔ آج وہ کچھ بھی کہتے رہیں ۔ تحریکِ انصاف کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ انہوںنے قبول کر لیا تھا۔ یہ تو بعد میں ، خود ہم نے سوچاکہ یہ شاید انہیں سازگار نہ ہو ۔ لاہور کی جیل میں جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق پر بے پناہ تشدد ہوا ۔ ابتلا میں جاوید لوہے کا ہو جاتا ہے اور خواجہ سعد رفیق آخر خواجہ رفیق کا فرزند ہے ۔ ان جاں بازوں پر کاسہ لیسوں کو ترجیح دی گئی ۔ جاوید ہاشمی پر فالج کا حملہ ہوا تو اسے فیصلہ کرنا پڑا۔ چار برس کی اذیت ناک اسیری کے بعد ، اڈیالہ جیل سے ملتان تک نون لیگ کے کارکن گل پاشی کے لیے بے تاب تھے ۔نواز شریف نے انہیںگھروں میں بیٹھ رہنے اور سرد مہری اختیار کرنے کا حکم دیا ۔ اوّلاً خواجہ آصف اورپھر شیخو پورہ کے رانا تنویر نے نواز شریف کی موجودگی میں ہاشمی کو پارٹی کاغدار کہا ۔ تب چلّا کر اس نے کہا ’’میاں صاحب! ان … کو روکیے، وگرنہ …‘‘ کیا نواز شریف جانتے نہیں کہ انجم عقیل کون ہے ، جسے دارالحکومت کا نمائندہ وہ بنانا چاہتے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے ، اسلام آباد کے شہریوںکو وہ لوٹ کر کھا گیا۔ سیاست دان نہیں ، وہ پراپرٹی ڈیلر ہے ۔ڈاکٹر طارق فضل بھی ۔پوری کہانی ایک دن بیان کر دی جائے گی۔ سینیٹر ظفرعلی شاہ چیختے رہے لیکن ان دونوں کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ آخر کیوں؟فیصل آباد کی بعض نشستوں کے لیے براہِ راست شریف خاندان کی خدمت کی گئی ۔ وہ انکار کریں تو واقعات میں عرض کر وں ۔ پیپلزپارٹی میں یہ کاروبار ہمیشہ سے جاری ہے ۔ اب کی بار تحریکِ انصاف میں بھی یہی کچھ ہوالیکن سب جانتے ہیں کہ کبھی میچ فکس نہ کرنے والا کپتان اس کا ذمہ دار نہیں ۔وہ تو خود اپنی ساری کمائی لٹا دیتاہے ۔ اس کا جرم البتہ یہ ہے کہ نون لیگ ، ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور خفیہ ایجنسیوں کے بعض اہلکار اس کے گرد گھیرا ڈالنے میں کامیاب رہے اور کئی علاقوں میں نابکار پارٹی لیڈروں نے اسے دھوکا دیا۔اس کا نام بیچ کر کھا گئے۔ کیسی جمہوریت اور کون سی جمہوریت؟ ملک اس طرح نہیں چلائے جاتے ۔ملک کیا، اس طرح تو ایک چھوٹا سا جنرل سٹور بھی چلایا نہیں جا سکتا۔ الیکشن کے بعد ایک معلّق پارلیمنٹ ۔ کسی کو اکثریت حاصل نہ ہوگی اور نسبتاً بڑی پارٹی کا لیڈر کشکول لے کر تعاون کی بھیک مانگتا پھرے گا۔ راجہ پرویز اشرف ،ایفیڈرین سمگلنگ کے ملزمان حنیف عباسی ، علی موسیٰ گیلانی ، مخدوم شہاب الدین اور اسی قماش کے دوسرے لوگوں کی حکومت ؟کب تک اور کتنی قیمت یہ ملک ادا کرے گا؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے سائے میں سیاست کا آغاز کرنے والے، امریکہ اور عربوں کی سرپرستی میں بروئے کار آنے والے یہ لیڈر ، آزاد خارجہ پالیسی کیا خاک بنائیں گے ۔ کیا یہ لوگ دہشت گردی ، امن و امان ، اذیت ناک مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل حل کریں گے ؟ آصف علی زرداری نے نواز شریف کو تحفظ دیا اور نواز شریف ان عالی جناب کو سایہ فراہم کریں گے ۔ ممکن ہے ، مولانا فضل الرحمن اور ان سب سیاسی پارٹیوں کو بھی ، سپریم کورٹ نے جنہیں کراچی میں دہشت گردی کا ذمّہ دار ٹھہرایا۔ جعلی نہیں ، ملک کو اصلی جمہوریت درکار ہے اور سب جانتے ہیں کہ اس سے مراد کیا ہے ۔ غریب عوام کا خون چوسنے کے لیے نام نہاد مفاہمت نہیں ، سچّا قومی اتفاقِ رائے۔ نیلسن منڈیلا کے جنوبی افریقہ کی طرح ،ایک بار سبھی مجرموں کی فردِ جرم مرتّب کرنے کے بعد ، توبہ اور تلافی کا موقع دینے کے بعد ایک نئے دور کا آغاز۔وگرنہ ہم ایک بحران سے دوسرے بحران میں داخل ہوں گے ۔ اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا یہی لوگ مسلّط ہوگئے توامریکہ اسی طرح ہمیں بلیک میل کرتا رہے گا۔ سرمایہ اسی طرح بیرونِ ملک منتقل ہوتا رہے گا اور بیروزگاری بڑھتی چلی جائے گی ۔کراچی اور پختون خوا میں پاکستان کے فرزند اسی طرح قتل ہوتے رہیں گے۔ مشرف کا مواخذہ برحق لیکن قوم جس عذاب سے دوچار ہے ، اس سے نجات کی کوئی تدبیر بھی چاہیے ۔کیا کبھی ان سیاستدانوں اور اسلام آباد کے اس کھرب پتی کا مواخذہ بھی ممکن ہوگا، جو کسی بھی حکمران سے زیادہ طاقتور ہے اور جس کا ہاتھ دونوں بڑی پارٹیوں کی پشت پر ہے ۔ چیخ چیخ کر اس ملک کے عوام پوچھ رہے ہیں ۔ دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتے ہیں کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں