عرشِ بریں سے ایک صدا دائم زمین پر اترتی رہتی ہے: یا حسرۃً علَی العباد‘ اے میرے بندو‘ تم پر افسوس! اور مشرق کا آبدیدہ شاعر سوال کرتا ہے۔ ع کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟ کیا وہ والٹیر تھا جس نے کہا تھا Every word of a writer is an act of generosity(مصنف کا ایک ایک لفظ سخاوت کا مظہر ہوتا ہے)۔ چین کے دانشور لوہسون کا کہنا یہ ہے: لکھنے والے کی مرضی ہے کہ بادشاہ بنے یا بھکاری۔ آلوچے کے شگوفے اور کہکشائیں کھلانے والے رب نے کہا ’’والقلم وما یسطرون‘‘۔ قسم ہے قلم کی اور ان کے لکھے کی۔ رئوف کلاسرہ کیوں پریشان ہوں؟ وزیراعظم کے ساتھ وہ دورے پر گئے تھے‘ خفیہ فنڈ سے کیا تعلق؟ ہم سب جانتے ہیں کہ کلاسرہ کسی سرکاری عنایت پر تھوکتے بھی نہیں۔ اپنی خون پسینے کی کمائی وہ ضرورت مندوں اور محتاجوں پہ لٹا دیتے ہیں۔ فریحہ ادریس کو‘ بیٹی کی طرح اس کے سینئر عزیز رکھتے ہیں کہ صداقت شعار اور بے ریا ہے۔ اس کا قصور بھی یہ ہے کہ سرکاری سفر پر جانا پڑا۔ وسیم بادامی جیسے لوگوں پر تہمت؟ صاف صاف سپریم کورٹ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے۔ اخبار نویس کا ٹکٹ اس کا ادارہ خریدے یا سرکار۔ شرم ناک ہے کہ بیوائوں کی امداد تک کو طعنہ بنا دیا۔ مودبانہ عرض ہے کہ معزز عدالت کو یہ فہرست جاری ہی نہ کرنی چاہیے تھی۔ مگرمچھوں کے نام بھی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کس قماش کے یہ لوگ ہیں۔ ڈاکٹر شعیب سڈل انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ ہوئے تو میں ان سے ملنے گیا۔ پوچھا: چائے پیو گے؟ میں نے کہا: آئی ایس آئی والوں سے پی کر آ رہا ہوں۔ میری اس طرح کی حرکتوں پر کلاسرہ بہت کڑھتے ہیں۔ کہنے لگے: خود کو تم بدنام کر کے رہو گے۔ حال یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر بھی حماقت کا ارتکاب کرنے لگے۔ جدّہ میں میاں محمد شریف کی تعزیت کے لیے ان کے فرزندوں سے ملاقات کر کے پاکستان پہنچا تو ایک کالم لکھا۔ فطری طور پر اس کا لہجہ مختلف تھا۔ عمران خان فکر مند ہوئے اور کہا: تمہاری پوزیشن خراب ہو جائے گی۔ عرض کیا: بدنامی‘ بدنیتی سے ہوتی ہے‘ بے احتیاطی سے نہیں۔ اللہ سے حسنِ نیت کی دعا مانگنی چاہیے۔ لکھنے والا اپنی قوت دریافت کر لے تو بگڑنے کا احتمال فوراً ہی پیدا ہو جاتا ہے۔ طاقت گمراہ کرتی ہے اور زیادہ قوت مکمل طور پر۔ دیانت تو لازم ہے احتیاط بھی چاہیے۔ یہ احساس بھی کہ آدمی کا کوئی ذاتی کارنامہ اور کوئی وصف نہیں ہوتا۔ سب اللہ کی عطا ہے۔ غیر ملکیوں سے تنہائی میں ملاقات کی ضرورت؟ سرکار دربار ہی کیا‘ کسی بھی ادارے یا فرد سے مفاد کا رشتہ کیوں رکھا جائے؟ رہے سرکاری دورے تو اخبار نویس سے زیادہ یہ حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اصرار کریں تو دوسری بات وگرنہ ضرورت ہی کیا۔ ہم نالائق تھے‘ 44 برس میں صرف‘ ایک سرکاری دورے کی دعوت ملی۔ چار عشروں میں جب میرے ہم عصروں میں سے اکثر نے درجنوں بار سمندر پار سفر کیا‘ وزارتِ اطلاعات کے دفتر کا پتہ ہی معلوم نہ تھا۔ حکمرانوں سے جب کبھی ملاقات ہوئی‘ وحشت ہی ہوئی۔ اگر فضول نہیں تو عام سے لوگ۔ اسی لیے عرض کرتا رہا کہ ہمارا بادشاہ لاہور یا اسلام آباد نہیں گجّر خان میں رہتا ہے۔ حکم کے بغیر ایک پتہ بھی ہلتا نہیں۔ زندگی کے نمایاں عنوان رزق‘ عزت اور موت ہیں۔ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں‘ فرمایا ’’زمین پہ کوئی ذی روح ایسا نہیں‘ جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو‘‘۔ ارشاد یہ ہے ’’عزت‘ سب کی سب اللہ کے لیے‘‘ دوسری جگہ یہ لکھا ہے ’’عزت اللہ اور اس پر ایمان رکھنے والوں کے لیے‘‘۔ سب جانتے ہیں موت کا وقت مقرر ہے اور ٹل نہیں سکتا۔ کیا ہمیں اس پر یقین بھی ہے؟ اپنے مالک کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک اور اگر پہچانے تو اس کے گدا دارا وجم اللہ ان کی مغفرت کرے۔ حمید اختر‘ مرحوم نے ایک بار لکھا: ہارون الرشید کا دعویٰ عجیب ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت کا 40 فیصد پٹرول خود پیدا کرتا ہے۔ عرض کیا سرکاری طور پر جاری کردہ سالانہ اقتصادی جائزے (Economic survey of Pakistan) میں لکھا ہے۔ وزارتِ اطلاعات کے سیکرٹ فنڈ کا ذکر بھی اوّل اسی ناچیز نے کیا تھا۔ کبھی ان میں سے کوئی عنایت کرے تو سرکاری افسروں سے گپ شپ ہوتی ہے۔ ایسی ایک آدھ خبر مل جاتی ہے۔ آپس کی بات ہے رئوف کلاسرہ کی خیرہ کن رپورٹنگ کا راز یہی ہے۔ یوں ہر آدمی کو اللہ ایک صلاحیت عطا کرتا ہے‘ جس کے بل پر وہ رزق اور شرف پاتا ہے۔ میجر عامر کی طرح کلاسرہ ہوا میں خبر سونگھتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فہرست ناتمام اور ناقص ہے؛ اگرچہ بعض مندرجات درست۔ دوسری بات یہ ہے کہ صوبوں کی حکومتیں بالخصوص تخت لاہور کے شہزادے بھاڑے کے جو ٹٹو پالتے ہیں‘ ان پر کہیں زیادہ خرچ اٹھتا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی اخبار نویسوں پہ کرم فرماتی ہیں۔ ایک مشہور چینل پر دس بجے کا بہت مقبول پروگرام پیش کرنے والا میزبان اوّل انٹیلی جنس بیورو کا ایجنٹ تھا‘ پھر آئی ایس آئی سے وابستہ ہوا اور آخر کو پھر آئی بی کا ہو گیا۔ اب وہ رئیس ہے اور اسے کوئی ضرورت ان کی نہیں۔ اب دبئی میں وہ ایک شاندار مکان کا مالک ہے‘ کچھ دوسرے بھی۔ اسلام آباد کے کھرب پتی کا ایک ایجنٹ ہر اخبار کے دفتر میں موجود رہتا ہے۔ اخبار نویس ہی نہیں‘ بعض مالکان بھی اس کی سخاوت سے فیض یاب ہوئے۔ یہ تو ہیں قومی خزانہ ہڑپ کرنے والے‘ وہ بھی ہیں‘ جو ہر ماہ امریکہ اور بھارت براجتے ہیں۔ کیا وہ ملک کے بے وفا نہیں؟ 1990ء کے عشرے میں امریکیوں نے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں نقب لگانے کا منصوبہ بنایا۔ یورپی ممالک اور بظاہر اپنے آزاد اداروں کے توسط سے اخبار نویسوں کی انجمنوں اور بعض مالکان کو اتنی بڑی رقوم دی گئیں کہ کوئی سنے تو یقین ہی نہ آئے۔ ایک حکمران سیاسی پارٹی‘ جو خود کو اپوزیشن بنا کر پیش کرتی ہے‘ اخبار نویسوں کو دس‘ دس لاکھ روپے کی گھڑیاں تحفے میں دیتی ہے۔ سب سے بڑا گھپلا اور ہے: صدور‘ وزرائے اعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزراء سے مراسم کے بل پر‘ سرمایہ داروں کی منجمد فائلیں رواں کی جاتیں اور کروڑوں کمائے جاتے ہیں۔ ایک اخبار نویس کے 70,60 کروڑ روپے لندن کے ایک بینک میں رکھے ہیں۔ ایک بزرگ مدیر‘ حکومت سے کروڑوں روپے سالانہ کی مراعات حاصل کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت کے لیے سرگرم ایک نام نہاد صحافی نے گزشتہ پانچ برس کروڑوں کمائے۔ پلاٹوں کے قصے سوا ہیں۔ کیا سب کے سب بگڑ گئے؟ کیا سب کے سب تباہ ہو گئے؟ جی نہیں قابل رشک لوگ بھی ہیں۔ ایک ٹی وی میزبان کو میں نے ایک اردو اخبار کے لیے کالم لکھنے پر آمادہ کیا تو انہوں نے شرط رکھی: معاوضہ میں نہیں لوں گا‘ اپنے ادارے سے میرا پیمان ہے۔ نصرت جاوید ایک خفیہ ایجنسی کے دفتر سے برہم ہو کر اٹھے کہ کیوں عنایت کی بات کی؟ ٹی وی کی اکثر میزبان خواتین دامن بچاتی ہیں۔ فوجی حکومتوں نے اور فوجی حکومتوں سے زیادہ شریف خاندان نے ذرائع ابلاغ میں کرپشن کو فروغ دیا۔ لفافہ صحافت انہی کی ایجاد ہے۔ چودھری صاحبان خود بھی خرچ کرتے ہیں۔ شریف برادران بہت محتاط ہیں کہ محنت کی کمائی ضائع نہ ہو۔ لاہور کے بہت سے اخبار نویس شریف خاندان کے سائے میں جیتے ہیں اور چودھری صاحبان کے باب میں محتاط۔ کپتان کی مسلسل کردار کشی کے لیے پنجاب کے سرکاری خزانے کو بہت بوجھ اٹھانا پڑا۔ ایک صاحب تیس برس سے میرے ذاتی دوست تھے۔ کبھی معمولی سا اختلاف بھی نہ ہوا۔ اب وہ پابندی سے میرے خلاف لکھتے ہیں۔ خیالات آج پریشان ہیں‘ کم خوابی اور طویل سفر کا بوجھ۔ شاید جلد ہی تفصیل سے اس موضوع پر لکھوں کہ تاریخ کے دوام میں پھیلے سینکڑوں واقعات یاد آ رہے ہیں۔ سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ نے زہیر بن ابی سُلمٰی کو عربوں کا سب سے بڑا شاعر کہا تھا۔ دورِ جاہلیت کا ایک نابغہ‘ جس نے مکّہ میں آخری پیغمبر کے ظہور کی پیش گوئی کی۔ فرمایا: اس کا وصف یہ ہے کہ کسی کی مدح کرے تو سچائی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ حرم بن سنان اس کا ممدوح تھا۔ کسی نے اس کے سامنے زہیر کے قصائد پر تعجب کیا تو قبیلے کے بلند بانگ سردار نے یہ کہا: خدا کی قسم‘ آج کے بعد جب بھی زہیر مجھے سلام کرے گا‘ میں ایک اونٹ‘ ایک گھوڑا‘ ایک غلام یا ایک کنیز اسے عطا کروں گا‘‘۔ اس کے بعد پہلی ملاقات ہوئی تو شاعر نے کہا ’’سب کو میرا سلام پہنچے‘ اس کے سوا جو تم سب سے بہتر ہے‘‘۔ زہیر کی بیٹی سے کسی نے پوچھا: تمہارے باپ کو حرم نے کیا دیا تھا کہ اس نے ہمیشہ باقی رہنے والے اشعار لکھ دیئے۔ جواب ملا: بوڑھے ہو جانے والے اونٹ‘ مر جانے والے گھوڑے ا ور فنا ہو جانے والا مال دیا تھا۔ غور کرو تو لفظ کی کیسی حرمت ہے مگر افسوس کہ اس حرمت کی پروا کسی کو نہیں۔ اور کس چیز کی ہے؟ آسمانوں پر خدا اکیلا ہے۔ شاید ہی اس کا کوئی بندہ ہو‘ سچے دل سے ہمہ وقت جو اسے یاد رکھے۔ ہر ساعت اپنا آقا اسے تسلیم کرے۔ عرشِ بریں سے ایک صدا دائم زمین پر اترتی رہتی ہے: یا حسرۃً علَی العباد‘ اے میرے بندو‘ تم پر افسوس! اور مشرق کا آبدیدہ شاعر سوال کرتا ہے۔ ع کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟