27رمضان المبارک کو وجود پانے والے وطن میں ایک صبحِ درخشاں کا نزول ہو کر رہے گا۔ چودہ سو سال پہلے سرکارؐ نے جس کی بشارت دی تھی۔ اس وطن میں‘ جس کے بانی نے عمر بھر کبھی جھوٹ نہ بولا، کبھی پیمان نہ توڑا۔ وہ جسے قائداعظمؒ کہا گیا‘ تمام لیڈروں کا لیڈر! اگر تحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنے لیڈر کی نصیحت پر عمل کیا۔ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک لے گئے تو کل سے انقلاب متشکّل ہونے لگے گا۔ تاریخ کا پہیہ رواں ہو جائے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ کارکن ہی پارٹی کا اثاثہ ہیں۔ ان کا لیڈر سیاسی حرکیات کا آدمی نہیں‘ حسنِ ظن سے کام لینے والا سیدھا سادہ شخص؛ اگرچہ درد اور ایثار کی دولت وہ بہت رکھتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے آدھے ووٹ اس نے جیت لیے ہیں‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی‘ جماعت اسلامی اور کچھ نون لیگ کے بھی۔ سمندر پار پاکستانیوں کے تیس لاکھ ووٹ اسے مل جاتے۔ الیکشن کمیشن دو حکمران پارٹیوں نے بنایا۔ عدالتی حکم کے باوجود اس نے ان پاکستانیوں کو شریک کرنے سے انکار کردیا۔ اگر اتنی ہی عنایت وہ کرتا کہ اپریل کے اوائل تک ڈاک سے ووٹ ڈالنے کے انتظامات کر ڈالتا تو تحریک انصاف کی مکمل فتح یقینی ہو جاتی۔ اکثر حلقوں میں‘ دس سے بیس ہزار زیادہ ووٹ۔ انتخابی مہم کے لیے عمران خان کو صرف دو ہفتے ملے۔ تین چار ماہ اگر ہوتے؟ پہاڑ ایسی مشکلات اس کے راستے میں حائل تھیں۔ ہسپتال کے بستر سے انتخابی مہم کے آخری خطاب میں اس نے اعتراف کیا کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں کچھ غلطیاں ہوئیں۔ وعدہ کیا کہ منتخب لیڈروں میں سے کوئی قومی مفاد سے انحراف کا مرتکب ہوا تو باز پرس کی جائے گی۔ اس کی بات مان لینی چاہیے۔ اعتماد کے قابل آدمی پر اعتماد کرنا چاہیے۔ امریکہ‘ برطانیہ بعض عرب ممالک اور مالدار طبقات نے طے کر لیا تھا کہ اقتدار شریف خاندان کو سونپ دیا جائے۔ آخر میں مغرب کے لے پالک کچھ بھارت نوازوں نے جو میڈیا اور سول سوسائٹی میں موثر ہیں‘ اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈال دیا۔ حصول اقتدار کے لیے سال بھر نون لیگ نے ایک منصوبے پر کام کیا۔ آخر کو‘ اسی لیے کیا پاک فوج کی انہوں نے مذمت کی؟ بھارت کو آسودہ کرنے کی کوشش؟ اسی لیے یہ اعلان انہوں نے کیا کہ کارگل پر کمیشن بنایا تو اس کی رپورٹ دہلی کو دیں گے؟ اسی غرض سے فرمان صادر ہوا کہ پاکستانی سرحدیں بھارت کے خلاف استعمال نہ کرنے دی جائیں گی؟ (خواہ بلوچستان سمیت بھارت ہر کہیں دہشت گردی کرتا رہے) کیا یہی سبب ہے کہ جمّوں میں پاکستانی قیدی کے قتل پر وہ خاموش رہے؟ کیا اسی لیے گوادر کی بندرگاہ چین کے سپرد کرنے کا اقدام انہیں پسند نہ آیا؟ شاید یہ امریکی اور بھارتی منصوبہ ہے اور بعض امریکہ نواز عرب ممالک اس میں شریک! کیا دہشت گردی کے مسئلے کو وہ اپنی ترجیحات کے مطابق طے کرنے کے آرزو مند ہیں اور پاکستان کو بھارت کا ذیلی ملک بنادینے کے؟ قائداعظم سے سیکولرازم کیا اسی لیے منسوب کیا جاتا ہے‘ حالانکہ عمر بھر‘ ایک بار بھی یہ لفظ انہوں نے استعمال کیا اور نہ علامہ اقبالؔ نے۔ کیا اسی لیے عاصمہ جہانگیر‘ نجم سیٹھی اور پرویز رشید ایسے سیکولر نوازشریف کو عزیز ہیں؟ نون لیگ کی پروپیگنڈہ پالیسی بہت سوچ سمجھ کر بنائی گئی۔ اس خوف کے فروغ پر اس کی بنیاد پر رکھی گئی کہ زرداری پھر سے برسرِ اقتدار آ جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ڈرا دینے والا سپنا ہے؛ چنانچہ سب سے بڑھ کر اس ’’دلیل‘‘ کی تکرار کہ تحریک انصاف کو ملنے والا ووٹ صدر صاحب کے امکانات بڑھا دے گا۔ بہت سے لوگوں نے یہ بات مان لی‘ حالانکہ نون لیگ کے 75 فیصد حامی عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ آج نہیں تو کل بالآخر ان کی اکثریت تحریک انصاف سے جا ملے گی۔ معتبر ادارے گیلپ کے نیک نام سربراہ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے بہت ہی افسوس ناک کردار ادا کیا اور ان کے کردار کا یہ تسلسل جاری ہے۔ اقتدار میں شرکت کے لیے؟ 30 اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان پر خیرہ کن جلسہ کے بعد‘ ایک قابل اعتماد امریکی ادارے کے سروے میں تحریک انصاف کو ملک کی سب سے مقبول پارٹی بتایا گیا۔ اسی ہنگام گیلپ کے کسی سروے میں تحریک انصاف کا ذکر تک نہ تھا۔ آخر کیوں؟ اسلام آباد میں اخبار نویسوں کو ڈاکٹر گیلانی نے جمع کیا اور بتایا کہ پارلیمانی نظام میں تیسری پارٹی پیدا ہی نہیں ہوتی۔ پھر مان گئے اور کہا: اب دو پارٹیاں ہوں گی‘ نون لیگ اور تحریک انصاف۔ تین برس تک پیپلز پارٹی کی شراکت سے پنجاب پر حکومت کرنے والی نون لیگ نے جب حکمت عملی بنا لی کہ عمران خان کو زرداری کا حلیف ثابت کیا جائے گا تو گیلپ کے سروے نے انکشاف کیا کہ اس صوبے میں عمران خان کی مقبولیت صرف سات فیصد رہ گئی ہے۔ ایک بار پہلے بھی گیلانی صاحب نے چمتکار دکھایا تھا۔ 1988ء میں ان کا سروے تھا کہ اسلامی جمہوری اتحاد کو 37 اور پیپلز پارٹی کو 31 فیصد ووٹ ملیں گے۔ نتیجہ نکلا تو بے نظیر کو 39 اور اتحاد کو 30 فیصد حاصل ہوئے۔ شب کی تاریکی میں شہباز شریف اور چودھری نثار‘ جنرل کیانی سے ملتے رہے۔ پروپیگنڈہ نون لیگ یہ کرتی رہی کہ تحریک انصاف کو جنرل پاشا کی حمایت حاصل ہے۔ خواجہ آصف نے عمران کو گالی دی‘ آئی ایس آئی کا ’’بچّہ جمورا‘‘ کہا۔ ڈاکٹر گیلانی سمیت شائستگی کے کسی دعوے دار کا دل اس پر نہ دکھا۔ جس طرح کہ جمائما خان پر ٹائلوں کی سمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنانے اور لاہور میں پیہم تحریک انصاف کے بینر اتارنے اور پوسٹر اکھاڑنے پر۔ بھاڑے کے ٹٹوئوں کے ذریعے خان کی مسلسل کردار کشی پر بھی ہرگز نہیں۔ع ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں خان سے بھی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ پارٹی میں بعض پرانے اور کچھ نئے لوگوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی بخش دی۔ انہوں نے دھڑے بنائے۔ بعض نے پارٹی الیکشن میں اس کا نام استعمال کیا ۔ بعض نے کمزور امیدواروں اور اپنے حامیوں کو ٹکٹ دلوائے۔ الیکشن کرایا تو اچھا کیا مگر بے ڈھنگے پن سے۔ مرکز اور صوبوں سیکرٹری جنرل کا بھی کیا انتخاب کرایا جاتا ہے؟ سیکرٹریٹ قرینے سے چلایا نہ گیا۔ ان میں سے بعض سازشیوں نے مخلص لوگوں کے خلاف اسے بھڑکایا جو کسی ادنیٰ ترین غرض کے بغیر مسلسل اس کی مدد کرتے رہے۔ کچھ احمق ، کچھ سازشیوں سے ملتے رہنے والے ہونّق۔ آپس کی بات ہے‘ ارد گرد کے لوگوں کی بات پر خان اکثر یقین کر لیتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کی نیک نیتی نے بچالیا۔ قوم کو مجھ ایسے چند ناچیز یاددلاتے رہے: فوج سے ہمارا مطالبہ صرف ایک ہے: عملی سیاست سے الگ رہے اور جنرل کیانی اسی روّیے پر عمل پیرا ہیں۔ عدلیہ اور میڈیا خوب مگر یہ جنرل کا صبر تھا کہ نوبت آج کی پولنگ تک پہنچی۔ عہدِ رواں کے تعصبات تحلیل ہوں گے اور منظر کھلے گا تو افغانستان میں امریکیوں کو مفاہمت اور بھارت کو بے دخل کرنے پر جنرل کو قوم ایک ہیرو تسلیم کرے گی۔ تاریخ میں کوئی راز بہت دن راز نہیں رہتا۔ اللہ کی رحمت جوش میں آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں دل بدل گئے۔ سرکارؐ نے فرمایا تھا: لوگوں کے دل دشت میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہیں، جو اسے الٹاتی پلٹاتی ہے۔ لوگوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ غلطی تو ایسی ہوئی تھی کہ تباہی آتی لیکن رحمت پروردگار نے اسے بچا لیا۔ تحریک انصاف کے جانبازوں نے مایوس ہونے سے انکار کردیا۔ تحریک کے اولوالعزم سالار نے اپنی مثال سے ان کی رگوں میں بجلیاں بھردیں۔ 3کروڑ افراد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام۔ پنجاب حکومت کی طرف سے پیلی ٹیکسیاں‘ ووٹروں کو 18ارب کی مالی امداد، لیپ ٹاپ، شمسی توانائی، گوجرانوالہ میں خرم دستگیر کے لیے اور لاہور کے حلقوں میں شریف خاندان کے لیے کھربوں کے ترقیاتی کام۔ ایک ماہ پہلے تک میڈیا پر تقریباً مکمل قبضہ۔ پھر ایک بار میں کہتا ہوں کہ ان موانع کے ساتھ تحریک انصاف کی 50سیٹیں 100اور 100یقینا200کے برابر ہیں۔ ایک ہمہ گیر تبدیلی کا آغا ہوچکا۔ ہلال اب بدر بن کر رہے گا۔ تاریخ کس طرح تشکیل پاتی ہے؟ نہیں‘ ارضی حقائق نہیں بلکہ آسمانی قوانین سے۔ مورخ ٹائن بی کو پڑھو، ول ڈیوراں یا \"When nations die\" کے مصنف جم نیلسن بلیک کو۔ کھلتا یہ ہے کہ اصول آسمانوں پہ مرتب ہوئے اور زمین پر کوئی قوم ان سے انحراف نہیں کرسکتی۔ قرآن کریم کا فرمان یہ ہے ’’ولن تجدلسنۃ اللہ تبدیلا‘‘(فاطر (35:43 جیسا کہ ابرہام لنکن نے کہا تھا: تادیر کوئی انسانوں کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ جبر اور دھوکہ دہی کے سلسلے ہمیشہ برقرار نہیں رہ سکتے، خواہ ہزاروں لاکھوں کا مفاد وابستہ کردیا جائے۔ عشروں تک اپنی قوم کو فریب دینے اور بیرون ملک دولت کو ٹھکانے لگانے والوں کا وقتِ آخر قریب آپہنچا ہے۔ مجرموں کے ٹولے متحد ہوسکتے ہیں‘ کچھ اور زخم بھی لگ سکتے ہیں‘ کچھ تاخیر ہو سکتی۔ لیکن تبدیلی کا عمل اب رک نہیں سکتا۔ 27رمضان المبارک کو وجود پانے والے وطن میں ایک صبحِ درخشاں کا نزول ہو کر رہے گا۔ چودہ سو سال پہلے سرکارؐ نے جس کی بشارت دی تھی۔ اس وطن میں‘ جس کے بانی نے عمر بھر کبھی جھوٹ نہ بولا، کبھی پیمان نہ توڑا۔ وہ جسے قائداعظم کہا گیا‘ تمام لیڈروں کا لیڈر!