اقوام اپنی تاریخ کے سائے ہی میں زندہ رہ سکتی اور رفعت پا سکتی ہیں۔ دھرتی اور تاریخ سے جس رہنما کا رشتہ نہ رہے‘ وہ گملے کے پودے ایسا ہوتا ہے۔ مختصر عمر کا محض نمائشی اور جلد آ لینے والی سیاسی موت جس کی طرف لپکتی ہے۔ مسافر کا دل طوس کے کھنڈرات کا طواف کرتا رہا۔ مٹی کی وہ شہر پناہ جو گیارہ سو برس پہلے تعمیر ہوئی ہوگی اور اب موسموں کے رحم و کرم پر بے یارومددگار ہے۔ ایک ہزار برس ہوتے ہیں امام غزالیؒ یہاں پانچ درہم کا لمبا سفید کرتا پہنے قلم اور زبان سے موتی رولتے تھے۔ اہلِ ایران نے خوب کیا کہ اس صاحب جود و سخا امام رضاؒ کے مرقد پر دنیا کی شاید سب سے زیادہ وسیع و عریض اور دلکشا عمارت تعمیر کی۔ امام غزالیؒ کو بھی مگر یاد رکھا ہوتا۔ ایک صدی تک علم کی سرزمینوں پر ان کا پرچم لہرایا تھا۔ اپنے عہد کے ہر سوال اور ہر فتنے پر انہوں نے قلم اٹھایا اور قولِ فیصل رقم کیا۔ تشنگان اب تک شادکام اور سیراب ہوتے ہیں۔ اقبالؔ انہیں یاد کیا کرتے اور پیہم۔ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں اقبالؔ دنیا سے اٹھے تو سید سلیمان ندوی نے لکھا: فلسفے اب اس سے نکالے جائیں گے اور رہنمائی اب اس سے طلب کی جائے گی۔ انتقال کی خبر سنتے ہی جواں سال ابوالاعلیٰ مودودی نے ان کے لیے وہ خراجِ تحسین رقم کیا‘ جو اب تک روشن ہے: قرآن کریم اقبالؔ کے لیے شاہ کلید (Master Key) تھا۔ ہر سوال کا جواب وہ اس کے اوراق میں ڈھونڈتے اور ہمیشہ پا لیتے۔ کیا فقط کتابِ مقدس اور سرکارؐ کی نور سے بُنی گئی حیات ہی؟ سوچو تو یہ کھلتا ہے کہ مشرق کے اس بے مثال مفکر نے گزرے زمانوں کے ہر صاحبِ علم سے اکتسابِ فیض کیا۔ توفیقِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے شاہاں چہ عجب گر بہ نوازند گدارا نواح طوس میں‘ اپنے تاریخ ساز جلال سے محروم ہو کر جو اب ایک چھوٹا سا قصبہ ہے‘ ہم محمود غزنوی کے ہم عصر شاعر نصیر الدین طوسی کے مزار تک پہنچے جس کا کلام اور کہانی باقی ہے کہ جب تک فارسی زبان باقی ہے‘ دہرائی جاتی رہیں گی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ کب ایک واقعہ‘ حتیٰ کہ ایک جملہ آدمی کی قوت عمل کو مہمیز کردے۔ یہ اس پروردگار کی دنیا ہے‘ جس کا فرمان یہ ہے: اللہ غنی و انتم فقرا۔ وہ جو لشکر در لشکر خیالات کے ذریعے دلوں اور دماغوں پر حکومت کرتا ہے۔ کامیابی پہ ہم اِتراتے ہیں مگر کیا معلوم کہ کب کوئی کامرانی زخم لگا دے اور کیا خبر کہ کب کوئی حسرت اور ناکامی‘ ایک نئے جہان کی آرزو تخلیق کر ڈالے۔ رچائو اور گداز اُگانے والے عہدِ رواں کے اس یکتا شاعر افتخار عارف سے تہران میں ایک تشنہ سی ملاقات ہی ہو سکی۔ شہر طوس میں امیر المومنین ہارون الرشید کی یادگار پہ بھی رک نہ سکے اور اس دیار میں ایک پہر کو بھی پڑائو نہ ڈال سکے‘ جس کے فرزند امام محمد الغزالی کے مطالعے نے دل و جان میں کبھی حشر برپا کردیا تھا۔ یاد آیا کہ بہار کی ایک صبح امام کی احیاء العلوم میں زندگی کی نئی جہات اُجاگر پا کر بہجت کا ایک عجیب عالم پیدا ہوا۔ سر اٹھا کر دیکھا‘ سامنے کھلے میدان سے پرے‘ ناشپاتی کا تنہا شجر سفید پھولوں سے لدا تھا‘ چاندنی جیسے آسمان سے اتر کر گلوں میں ڈھل گئی ہو۔ سرخوشی کا ایک طوفان سا اٹھا اور خود سے طالب علم نے یہ کہا: ’’یا رب‘ اگر تیری اس دنیا میں ایسی شادمانی نصیب ہو سکتی ہے تو تیرا فردوسِ بریں کیسا ہوگا!‘‘۔ اہلِ تقویٰ ہی نہیں‘ جن کا ہر خطاکار سے بھی وعدہ ہے جو توبہ کرے اور سجدہ ریز ہو جائے۔ ’’اے آدم زاد‘ کس چیز نے تجھے اپنے مہربان رب کے بارے میں مبتلائے فریب کر رکھا ہے‘‘۔ اب اس وقت‘ شہر کراچی میں محسوسات یہی ہیں کہ خوش رنگ پتھروں سے بنی ایک بلند و بالا دیوار کے سائے میں لہراتے پودوں‘ پھولوں اور ننھی سی جھیل کے کنارے ابھی ابھی ناشتے کا لطف اٹھایا ہے۔ پرسوں تہران کے نواح میں چنار کے درختوں کی دو رویہ طویل قطاروں سے گزر کر پرشکوہ پہاڑوں کے دامن میں کنارِ آبشار‘ دل تھا کہ حسرت پالتا تھا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر تڑپاتا رہا۔ تو فقط شکر ہی کا رب ہے تو اے رب کریم کیا شکایت کو کوئی اور خدا ڈھونڈ کے لائیں اقبالؔ کا فیض تھا کہ چار عشروں سے آئے دن فارسی کا کوئی مصرعہ جی میں اُجالا کرتا اور دھیان میں ایران جاگتا۔ ایک ادھوری سی ملاقات ہی اس سے ہو سکی مگر اب وہ قلب میں آباد ہے اور آواز دیتا ہے۔ زندگی نے مہلت دی تو انشاء اللہ پلٹ کر جائیں گے۔ اس دیار سے آگے سرزمینِ عراق ہے۔ نوشیرواں اور خالد بن ولید کی سرزمین۔ اسمٰعیل صفوی اور قراۃ العین طاہرہ کا وطن۔ امام خمینی اور حافظ شیراز کا گھر۔ در دلِ خویش طاہرہ گشت و ندید جز ترا صفحہ بہ صفحہ‘ لا بہ لا‘ پردہ بہ پردہ‘ توبہ تو کبھی جامی نے یہاں چراغ جلائے تھے‘ کبھی قصیدہ بردہ کے مصنف نے موتی بکھیرے تھے‘ کبھی سعدی نے اہلِ درد کی جھولیاں بھری تھیں۔ جامی جو ہمیشہ شہرِ نبیؐ کا رُخ کیے رہتے۔ جن کی روح میں مدینہ اس طرح گھلا تھا کہ جیسے دودھ میں شہد۔ نعت لکھتے تو ایسا لگتا کہ خاکی پیکر آنسو بن کر بہہ جائے گا۔ از جامی بیچارہ رسا نید سلامے بر درگہِ دربارِ رسولِ مدنی را بلندیوں سے اتر کر تہران کے کوچہ و بازار میں گداز بانٹنے والی آبشار کے کنارے مسافر سعدی کو یاد کرتا رہا۔ وہ اپنی حکایات سے محترم اور معتبر ہیں‘ حالانکہ غزل بھی انہوں نے ایسی لکھی ہے کہ باید و شاید۔ بعض مصرعے تو آنے والی صدیوں میں ضرب المثل ہو گئے۔ فلک گیر چناروں کے سائے میں‘ خنک ہوا میں‘ جگمگ جگمگ روشنیوں کے جلو میں‘ پاکستانی دوستوں اور ایرانی میزبانوں کو چند اشعار سنانے کی جسارت کی۔ صبا بہ لطف بگو آں غزالِ رعنا را کہ سربکوہ و بیاباں تو دادہ ای مارا چوں با حبیب نشستی و بادہ پیمائی بیاد آر حریفانِ باد پیمارا اے صبا! بہت ادب کے ساتھ‘ اس غزالِ رعنا سے یہ کہنا: ہمیں تو نے کوہ و بیاباں کے حوالے کردیا۔ جب اپنے حبیب کے ساتھ محفلِ لطف برپا کرو تو انہیں بھی یاد کر لینا جو ہوا کے ساتھ چلے گئے۔ \"Gone with the wind\" کا انگریزی محاورہ‘ غالباً اسی مصرعے سے پھوٹا ہے‘ جس طرح جاپانی کا پجیرو‘ ’’پکھیرو‘‘ سے پیدا ہوا۔ لفظوں کے خاندان اور رشتہ و پیوند ہوتے ہیں۔ ان کی نسلیں اور قرابت داریاں۔ وہ سفر اور پرواز کرتے اور اجنبی سرزمینوں تک جا پہنچتے ہیں۔ وہ آدم زاد کے عالمگیر رشتے اور پیمان کا ایک کبھی نہ الگ ہونے والا حصہ ہیں۔ ہندی اگر اردو زبان کا باپ ہے تو فارسی اس کی ماں ہے‘ عربی‘ ازبکی اور ترکی اس کے دست و بازو اور ہاتھ پائوں۔ ہر عہد کی ایک عالمی زبان ہوتی ہے‘ یونانی اور رومن‘ عربی اور فارسی۔ آج انگریزی ہے۔ غلامی کا اثر باقی ہے اور ہم نے اسے اپنے حواس پہ سوار کر رکھا ہے۔ سیکھنی چاہیے اور لازماً مگر اردو کا دامن بے حد کشادہ ہے کہ اس کے سرچشمے مضبوط ہیں اور اب تک رواں بھی۔ عربی‘ فارسی اور ہندی کے علاوہ اب وہ پنجابی سے فیض پاتی ہے۔ مرعوبیت کی بات دوسری ہے‘ وگرنہ انگریزی ادب ایسا بھی زرخیز نہیں۔ پنجابی شاعری کو صوفیا کے ہم نفسوں نے اس قدر مالا مال کر دیا ہے کہ صدیوں تک اردو کی مدد کر سکتی ہے۔ سندھی اور بلوچی بلکہ اس سے زیادہ پشتو کہ جس کی ضرب الامثال اور حکایات زر و جواہر کی کان ہے۔ بلوچ شاعری میں امتحان و آزمائش کی بارہ صدیوں کے تجربات جھلکتے ہیں۔ بلوچوں کی خودداری اور سخت کوشی۔ سندھی زبان کی گرائمر نہایت نفیس ہے۔ درد اور جدائی کی حکایت مہران کے خوش نوا فرزندوں سے بڑھ کر کوئی بیان نہ کر سکا؛ البتہ فارسی کی مانند‘ شہد کی طرح شیریں سرائیکی۔ اقبالؔ جب داغ دہلوی کی طرف دیکھا کرتے‘ حیرت سے انہوں نے یہ کہا تھا: جس قوم میں خواجہ غلام فرید ایسا شاعر موجود ہو‘ وہ مجھے کیوں پڑھے گی؟ میڈا عشق وی توں‘ میڈا یار وی توں میڈا دین وی توں ایمان وی توں میڈا جسم وی توں‘ میڈا روح وی توں میڈا قلب وی توں‘ جند جان وی توں میڈا کعبہ قبلہ‘ مسجد منبر‘ مصحف تے قرآن وی توں میڈا ذکر وی توں‘ میڈا فکر وی توں میڈا ذوق وی توں وجدان وی توں جے یار فرید قبول کرے‘ سرکار وی توں سلطان وی توں ناتاں کہتر کمتر احقر ادنیٰ‘ لاشے لامکان وی توں یار طرح دار‘ رانا محبوب اختر نے اپنی تازہ کتاب ’’لوک بیانیہ اور سیاست‘‘ کے دلکش مضامین کو سرائیکی شاعری کے ہیروں سے خوب سجایا ہے۔ صحافت کے طالب علموں کو اللہ توفیق دے تو ایسی دستاویزات میں بھی جی لگائیں۔ پھولوں کی کچھ اقسام ایسی ہیں کہ ریگ زاروں ہی پہ مہربان ہوتی ہیں۔ حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟ دوحہ کے راستے‘ صجدم تہران سے کراچی پہنچے تو خبر ملی۔ ہمارے نئے بادشاہ جناب میاں نوازشریف نے ایران پاکستان پائپ لائن پر نظرثانی کا اشارہ دیا ہے۔ ان کے گردونواح سے ایسی اطلاعات پہلے ہی آ رہی تھیں۔ عرب‘ مغرب سرپرستی کا شاخسانہ؟ ان کی اطلاع کے لیے عرض یہ ہے کہ ایران اپنی تنہائی سے اُکتا چکا‘ ثانیاً پاکستان کے ساتھ اب وہ سرگرم تعلقات کا آرزو مند ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مذکورہ منصوبے کی نوعیت محض اقتصادی نہیں۔ حرفِ آخر یہ کہ اقوام اپنی تاریخ کے سائے میں جیتی اور نمو پذیر ہوتی ہیں۔ دھرتی اور تاریخ سے جس رہنما کا رشتہ نہ رہے‘ وہ گملے کے پودے ایسا ہوتا ہے۔ مختصر عمر کا محض نمائشی… اور جلد آ لینے والی سیاسی موت جس کی طرف لپکتی ہے۔