اقبال ؔ نے سچ کہا تھا: عشق کی تیغِ جگر دار اڑالی کس نے۔ علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی! اظہار الحق اصلاً تو شاعر ہیں او رشاعر ایسے کہ ظفر اقبال کے بقول ان کے چمن میں شجر تو کیا گھاس پات بھی ان کے اپنے ہیں۔ ارادہ برقرار ہے کہ ان کے کلام سے انتخاب کروں ۔ تیور ہی جدا ہیں، انداز ہی مختلف ہے ۔ ہماری پوری تاریخ کی بازگشت اس میں گونجتی ہے اور حیران کیے رکھتی ہے: غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے جزئیات میں کہیں اختلاف بھی ہے مگر سچ لکھا : وہ کہاں کا صوفی ہے، تشہیر کی تمنا میں جو کشکول اٹھا لے ۔ طلبِ تحسین میں دنیا داروں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ ایک دوست نے اصرار کیا کہ ٹی وی کے لیے پروفیسر احمد رفیق اختر کا انٹرویو چاہیے ۔خیال میرا یہ تھا کہ اگر میں التجا کروں گا تو وہ انکار نہ کریں گے ۔ استدعا کی تو انہوںنے انکار میں سر ہلا دیا۔ عرض کیا : حرج بھی کیا ہے ؟ بولے : پیغام کو اجاگر کیا جاتاہے ، اپنی ذات کو نہیں ۔ میں درخواست کرتارہا ۔ خلاف معمول کہ ہمیشہ ہجوم میں گھرے رہتے ہیں یا کار دگر میں مصروف ، تین منزلوں کی سیڑھیاں اتر کر گلی تک مجھے چھوڑنے آئے ۔ غالباً اس لیے کہ انکار سے جو کوفت ہوئی ، دل جوئی سے تلافی ہو سکے ۔ آخری سیڑھیوں میں ایک بار پھر درخواست دہرائی کہ اب شفقت کا غلبہ ہے ۔ وہ رک گئے اور کہا ’’آپ استخارہ کر لیجیے‘‘ ان صاحب سے معذرت کی اور یہ کہا: صوفی ایک پہاڑی ندی کی طرح ہوتاہے ۔ اپنی لگن میں وہ رواں رہتا ہے ۔ وہ اپنے اللہ سے پوچھتاہے اور اپنے ضمیر سے ۔ بعد ازاں ایک اور بات سمجھ میں آئی کہ الجھن ہو تو درویش یہ سوچتا ہے: سرکار والاتبارؐکو اگر اس طرح کا سوال درپیش ہوتا تو کیسا طرزِ عمل اختیار فرماتے؟ قیاس نہیں، علم ۔ جس نے سیرت رسولؐ کی وسیع و عریض وادیوں میں لہلہاتے باغوں کے پھول پتوں پر مدتوں غور نہ کیا ہو ، وہ ہار جائے گا۔ راہ سلوک کا مسافر ہمیشہ ہر طرح کی ممکن رعایت دوسروں کو دے سکتاہے مگر خود کو کبھی نہیں ۔جہد مسلسل کی کہانی کہنے سے فقیر اکثر گریز کرتاہے ، نصف صدی جس میں بتا دی ۔ ایک شام مگر مجھ سے کہا: ریاضت نہیں کر تے اور مناصب کے لوگ آرزومند ہوتے ہیں ۔ انہیں کیا خبر کہ اپنے خلاف کیسی جنگ میں نے لڑی ہے : اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح برادرم طاہر پرویز اب کہاں ہیں ؟ اللہ انہیں برکت دے ۔ ایک عجیب نکتہ ان کے طفیل آشکار ہوا کہ شاید سالہا سال کے مطالعے سے کھل نہ سکتا ۔ خلیل ملک مرحوم کے ساتھ کہ اہل علم کو تلاش کیا کرتے، کویت میں ایک بزرگ سے وہ ملنے گئے۔دیر تک ان کی بات سنی۔ لوٹ کر آئے تو ملال سے کہا : اپنے شیخ کا ایسا طویل تذکرہ اور سرکارؐ کا ذکر ایک بار بھی نہیں ؟ سرگوشی میں ملک صاحب مرحوم نے مجھے بتایا کہ ایسا گداز اور احساس عطا ہوا تو پھر معاًاس بے ریا آدمی پر دروازہ کھل گیا ۔ راستہ روشن ہو گیا۔ تصوف کی بہترین تعریفوں میں سے شاید ایک وہ ہے ، جو کبھی گرامی قدر استاد نے کی تھی ۔ فرمایا : تصوف شریعت کی نیت ہے ۔ کیاعجب کہ اس خیال کے پس منظر میں صاحب ’’کشف المحجوب‘‘ سیدنا علی بن عثمان ہجویری ؒ کے اس قول کی روشنی بھی کارفرما ہو ’’جو تصوف پابندِ شریعت نہیں ، وہ زندیق تو پیدا کر سکتا ہے، صدیق نہیں‘‘۔ استاد کو ہم نے دیکھا ہے کہ رحمتہ اللعالمین ؐ کی یاد آئے تو لہجہ ہی بدل جاتاہے ۔ آواز ایک ذرا دھیمی سی ہو جاتی ہے اور انداز ِگفتار میں سلیقہ مندی ۔ رقت طاری کرنے کے وہ قائل ہیں اور نہ آواز بلند کرنے کے ۔ خود کو تھامے رکھتے ہیں اور مستقل طور پر ۔ بڑے سے بڑے مفکر او رامام کا قول مگر فرمان رسولؐ سے ذرا سا بھی مختلف ہو تو وضاحت کرتے ہیں ۔ کبارصوفیا تک کے بارے میں جہاں یہ گمان پید اہو کہ حدیث سے بال برابر انحراف بھی ہے تو بلا تامّل اس کی نشان دہی ۔ کم ہی ان کی آواز میں گونجتا ہو ااصرار ہوتاہے۔ اس دن ضرور تھا ، جب یہ کہا کہ اللہ کے آخری رسولؐ سے اگر کسی نے ایک ذرا سا جھوٹ بھی منسوب کیا تو آگ میں ڈالا جائے گا: ع نفس گم کردہ می آید جنید ؒو بایزید ؒ ایں جا قرآنِ کریم ؟ اللہ کی کتاب کو جس نے محبوب نہ کر لیا ، دین کے ساتھ اسے کیا تعلق ؟ حیات اور کائنات کا رازداں وہ کیونکر ہوگا؟ سحر دم اٹھتے ہیں ، دیر تک تلاوت کرتے ہیں ۔تلاوت نہیں تفکر اور تدبر۔ آیات الٰہی دن بھر زبان سے جاری رہتی ہیں مگرصبح سویرے جب بھی ملاقات ہوئی ، مصحفِ مبارک سے اکثر کوئی نیا نکتہ بیان کیا۔ ایک سحر یہ کہا : رب کریم کا ارشاد ہے کہ اس طرح مجھے یاد کرو جیسے اپنے آبائواجداد کو کرتے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ اب سامنے کی بات ہے کہ ہمیشہ انہیں انس ، الفت اور لگن سے یاد کیا جاتاہے ۔ پھر پروردگار کے ذکر میں خشیت کے ساتھ محبت کیوں غالب نہ رہے ؟ سچّا صوفی اپنی طرف خلق کو نہیں بلاتا بلکہ اللہ اور اس کے سچے پیامبرؐ کی طرف ۔ سیکھتا ہے اور دائم سیکھتا رہتا ہے ۔ عام آدمی کی زندگی کرتا ہے ۔ اس کا کوئی دعویٰ ہوتا ہے اور نہ کوئی مطالبہ ۔وہ ایک ماشکی تھا ، بھید جس نے کھول دیا تھا : خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ ؒ کے پائوں چومنے کو بڑھا۔ ناگواری کا بلند آواز سے انہوںنے اظہار کیا تو بولا: خواجہ !بخدا آپ سے کس کو غرض ہے ۔ اللہ سے آپ محبت کرتے ہیں ، فقط اس لیے ! وہ قیادت کا مدّعی ہوتاہے اور نہ احترام کا طالب ۔ ایک بار کہا : اللہ کا کرم تو ہمیشہ بے حساب رہا ، اس کی مخلوق سے مگر میں آزمایا گیا۔ پھر ایک شام کہا : اب سوچتا ہوں ، تصوف بھی کیا، بس دو ہی باتیں ہیں ۔ ایک اللہ سے محبت اور دوسرے ہر حال میں اس کے بندوں کا لحاظ! اظہار الحق نے سچ کہا :صدیوں سے درویشی ایک کاروبار بھی ہے 99.99فیصد اسی طرح کے، نجومیوں جیسے!سیّد ابو الاعلیٰ مودودی نے لندن میں ایک استفسار کرنے والے سے کہا تھا : ایسا ایسا اژدہا اس راہ میں پڑا ہے کہ آدمی کا ایمان ہی ہڑپ کر جائے۔ اس سے بڑا المیہ ہے کہ اپنے پیالے کو وہ سمندر سمجھتے ہیں ۔علم سے کورے ، قرآنِ کریم اور احادیث سے بے بہرہ ۔ اپنے زمانے اور تاریخ سے نابلد۔ اقبالؔ نے یہ بھی کہا تھا : مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو ایک دن، برسوں پہلے کا قصہ سنایا: ایک مشہور و ممتاز ’’روحانی پیشوا‘‘ نے نصف شب کو دروازہ کھٹکھٹایا ۔ دیر تک ادھر ادھر کی گفتگو، پھر کہا: ہارون الرشید سے کہیے ، ایک کالم اس فقیر کے بارے میں لکھ ڈالے۔ جو کچھ جواب میں کہا ، اس کا خلاصہ یہ ہے : عالی جناب اسے جانتے نہیں۔ اس طرح کی سفارش میں کرتا نہیں اور وہ سنتا نہیں ۔ اس کے باوجود کہ کسی کارنامے کے وہ کبھی آرزومند نہ تھے ، پاکستان کی تاریخ پر پروفیسر احمد رفیق اختر کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ اتنے گہرے کہ چند ایک کے سو اکوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا… اوربخدا اس لیے کہ بڑائی اور عظمت کی آرزوہی نہ تھی۔ (بیچارہ نوکری پیشہ جنرل شاہد عزیز، چڑیا اور شہباز کے فرق سے بھی نا آشنا) اللہ کو منظور ہوا تو کبھی لکھوں گا لیکن ابھی نہیں ، ہرگز نہیں۔ انشاء اللہ یہ بھی واضح کردوں گا کہ عمران خاں ان کے تجویز کردہ راستے پر نہ چل سکے۔ خوشامدیوں نے انہیں گھیر لیا تھا۔ مقرر کردہ لوگوں نے ،شاہ محمودوں اور صداقت عباسیوں نے۔ اقبال ؔ نے سچ کہا تھا : عشق کی تیغِ جگر دار اڑالی کس نے۔ علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی!