افراد اور اقوام کی زندگی میں کوئی وقت ہوتاہے ، جب شجاعت سے زیادہ صبر و تحمل اور حکمت کے چراغ ہی راستہ روشن کرتے ہیں۔ کیا یہ وہی وقت نہیں ؟ زندہ اقوام خود کو جانچتی اور زمانے کے تیور دیکھتی ہیں ، خود شناس ہوتی ہیں ۔ اقبالؔ نے کہا تھا۔ صورتِ شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب حامد کرزئی ہمارا نہیں ، انکل سام کا مسئلہ ہیں ۔ وہی انہیں کابل لے گئے اور صدارت کے منصب پر براجمان کیا تھا۔ اب یہ موقعہ شناس آدمی امریکی آقائوں کے ساتھ سودے بازی چاہتاہے ۔ طالبان کے خلاف متحرک طبقات اور بھارت کی مدد سے ۔افسوس کہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی بجائے ، ہم دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں ۔حکمرانوں کی ہمّتیں ٹوٹ گئیں۔ بانیٔ پاکستان کا رفیع الشان توکّل ہم نے ترک کیا اور دریوزہ گر ہوگئے ۔ اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم بھارت گذشتہ بارہ برس کے دوران دو بلین ڈالر کے لگ بھگ نقد امداد فراہم کرنے کے علاوہ ،افغان سرزمین میں اہم ترین شعبوں میں سرمایہ کاری کرتا رہا۔ وہاں اس کے ہزاروں مشیر ہیں۔ہمارا مسئلہ سول ملٹری تصادم کی مکروہ سازش ہے۔ ہمارا پڑوسی جس کا ہمیشہ آرزومند رہا۔ 4اکتوبر 1999ء کی صبح امریکی سفیر نے جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی تو چار ’’تجاویز‘‘ انہوں نے پیش کی تھیں ۔ ان میں سے ایک یہ کہ پاکستانی میڈیا آزاد رہے گا۔وہ مان گئے کہ امریکی سرپرستی درکار تھی ۔یوں بھی،اس باب میں میاں محمد نواز شریف ایسے ’’جمہوری‘‘ حکمرانوں سے وہ مختلف ہیں ۔ میاں صاحب موصوف کا حال تو یہ تھا کہ ایک بڑے اخبار کے باہر پولیس بٹھا دی تھی ۔ باقاعدہ اشاعت تب ممکن ہو ئی ، تقریبا تمام اخباری انجمنیں اور سیاسی جماعتیں جب متحدہ طور پر برسرِ احتجاج ہوگئیں ۔ پی ٹی وی اور سرکاری ریڈیو پر کسی اپوزیشن لیڈر کا نام تک نشر نہ ہو سکتا تھا۔ حالات اب مختلف ہیں مگر پی ٹی وی کے سابق چئیرمین پرویز رشید ہی کو انہوں نے وزیرِ اطلاعات مقرر کیا ہے۔ وہ شخص ، جس نے بانیٔ پاکستان کے حق میں کبھی ایک لفظ نہ کہا۔ جو قائداعظم ثانی کے خلاف ایک لفظ بھی سن نہیں سکتا۔ امریکہ ہماری آزادی کے لیے بے چین کیوں تھا ؟ سیاسی لیڈر جیب میں رکھنے کے باوجود ، وہ پاکستانی پریس سے پریشان تھا ۔ دو محاذوں پر چنانچہ سرگرم ہوا ۔ این جی اوز کے ذریعے مصنوعی سول سوسائٹی کی تشکیل اور صحافت۔ صدر اوباما نے مانا ہے کہ امریکی حکومت نے پاکستانی میڈیا کے لیے پچا س ملین ڈالر رکھے ہیں ۔ 90ء کی دہائی سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔امریکی ترجیحات میں شامل ہے کہ بھارت کو بالادستی حاصل ہو ۔ بعض چینلوں کی نشریات اور بعض تنظیموں کے طرزِ عمل سے کیا یہ آشکار نہیں ؟ کیا ان میں سے کچھ لوگ پیہم سیاستدانوں کے گرد گھیرا ڈالنے میںمصروف نہیں رہتے ؟ امریکہ اور عرب ممالک جن سیاسی قوتوں کی حمایت پر تلے تھے، کیا یہ لوگ بھی انہی کے لیے متحرک نہ رہے ؟ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے علاوہ ، سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود ،سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیاتو کوئی بولا کیوں نہیں ؟ کراچی میں فوج اور رینجرز کو غیر متعلق بنانے کا مقصد کس طرح حاصل کیا گیا؟ بے خبری اور بے حسی ہمیشہ نہ رہے گی ۔ آخر سب کھلے گا کہ کون کون ، کس کس سطح پر امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کرتا ہے ۔لاکھوں باشعور نوجوان اب میدان میں ہیں ۔ وقتی طور پر انہیں مایوسی اور کنفیوژن میں مبتلا کیا جا سکتاہے مگر تابہ کے ؟ پارلیمنٹ میں کھوکھلے اعلانات کی بجائے ، الیکشن کمیشن انگوٹھوں کے نشان جانچنے کاعمل بلا تاخیر کیوں شروع نہیں کرتا؟ چونکا دینے والے کچھ اور شواہد بھی علم میں آئے ہیں۔ بخدا کوئی خوف نہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ دل یقین سے بھرا ہوا مگر میں اندیشہ پالتا ہوں کہ ملک میں ہنگامہ برپا نہ ہو۔ ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں دل سنبھالے رہو زباں کی طرح اپوزیشن ، بالخصوص عمران خاں نے اصولی احتجاج برقرار رکھتے ہوئے انتخابی نتائج قبول کرنے کا فیصلہ کیا تو بہت اچھاکیا۔ ملک اب مزید محاذ آرائی کا متحمل نہیں ۔ معیشت برباد ہے ۔ بجٹ کا تمام تر انحصار اب امریکی گود میں بیٹھے اس نوسر باز آئی ایم ایف پر ہے ، جس کے سربراہ نے جنوری میں کہا تھا کہ وہ کسی ملک سے مذاکرات نہیں کیا کرتے ، صرف اپنی شرائط بتایا کرتے ہیں ۔ 2011ء میں امریکی سپلائی بند کرنے سے پہلے انسانی حقوق کے پاسبان چیخ رہے تھے کہ ہماری دفاعی پالیسیوں کا محور بھارت کیوں ہے ؟ عسکری قیادت کے ساتھ مذاکرات میں جنرل مائیکل ملن ،پیٹریاس اور ہلیری کلنٹن بھی بار بار یہی سوال اٹھایا کرتے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا جواب یہ تھا : اس لیے کہ بھارت کی تمام تر فوجی تیاریوں کا ہدف پاکستان ہے ۔ بھارت کی 80فیصد فوج اس طرح متعین ہے کہ اس کا رخ اور ہدف (Deployment)ہماری سرزمین ہے ۔ انکل سام کی طے شدہ پالیسی یہ تھی کہ بھار ت کو افغانستان میں ایک اہم کردار دیا جائے۔ ایک طرح سے وہ کابل میں اس کا جانشین ہو ۔سپلائی بند ہونے کے بعد یہ حقیقت امریکیوں پر کھلی کہ پاکستان کے بغیر محفوظ واپسی ممکن ہے اور نہ بعض دوسرے مقاصد کا حصول۔ افغانستان کی سیاسی قیادت کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار کیا جاتا رہا۔حامد کرزئی شطرنج کی اسی بساط پرکچھ لے مرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہی اگرپاکستانی فوج فوری طور پر قبائلی علاقوں سے نکل آئے تو یہ پورا خطہ طالبان کے رحم و کرم پر ہوگا۔ ہر طرح کے عناصر جن میں شامل ہو چکے ۔ مکمل شواہد موجود ہیں کہ ا ن میں سے بعض بھارت کے آلہ ء کار ہیں ۔ اگر ایسا ہو تو ملک میں خودکش حملوں کی سطح 2009ء ایسی ہو گی ، جب ہر دوسرے تیسرے دن کوئی بڑا شہر درجنوں لاشیں اٹھا رہا ہوتا۔ افغانستان میں قیامِ امن کی کوششیں اولین مرحلے میں دم توڑ دیں گی۔ زبوں حال معیشت زمین پر آرہے گی ۔ ان آشکار حقائق کے باوجود محمود خاں اچکزئی ایسا جہاندیدہ سیاستدان یہ مطالبہ کیوں کرتا ہے کہ قبائلی علاقے فوراًخالی کر دئیے جائیں؟ پورے ملک کو لرزا دینے و الی کوئٹہ کی خوں ریزی کے ذمہ دار تو لشکرِ جھنگوی کے وہ عناصرہیں ، جن پر اب خود اس کی قیادت کا کنٹرول بھی باقی نہیں ۔ تنقید کا زیادہ تر ہدف مسلّح افواج ہی کیوں؟ چارہزار جوان اور افسر شہید ہو چکے۔ خفیہ ایجنسیوں نے پر لے درجے کی غفلت کا مظاہرہ کیا ۔ وہ ناکام رہیں ۔ ملٹری انٹیلی جنس الگ کہ اس کا دائرہ کار ہی مختلف ہے۔ سوال یہ ہے کہ پندرہ خفیہ ایجنسیوں میں سے سارا غصہ کیاصرف آئی ایس آئی پرہی نکلنا چاہیے؟ فوج کا حوصلہ پست اور تباہ کرنے کا نتیجہ کیاہوگا؟ واضح طور پر بھارت کی مالی سرپرستی سے بروئے کار دہشت گردوں کی ڈٹ کر مخالفت اور مذمت کیوں نہیں ؟ کیا یہ بے حسی ہے یا ذہنی غسل؟بلوچستان میں 80فیصد ترقیاتی بجٹ ہڑپ ہوتا رہا۔ اس پر کتنا واویلا ہے؟ صوبے میں 1600 سرائیکی، اردو اور پنجابی بولنے و الوں کے قتلِ عام کا ذکر تک کیوں نہیں؟کس نے منصوبہ بنایا، کون مشورہ دیتاہے ؟ دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں وقت آپہنچا کہ سیاسی قیادت کو اختیارات کی زیادہ سے زیادہ منتقلی کا عمل شروع کیا جائے ۔ اس ہدف کا حصول مگرسیاسی اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی سے مرتب کیے جانے والے ایک طے شدہ منصوبے سے ممکن ہے یاایک دوسرے کے گریبان پکڑنے سے، برسوں سے بھارت جس کے لیے تڑپ رہا ہے؟ اس سوال کا جواب اقتدار کے انبساط اور آرزومندی کے زمانوں سے گزرنے والی افواج کے ذمہ ہے مگر اس سے زیادہ سنسنی فروش میڈیا اور نعرے با ز سیاسی قیادت پر ۔ عسکری قیادت نے صبر کا کچھ نہ کچھ مظاہرہ توکر ہی دکھایا ۔ پورے پانچ برس اور اب بے سروپا شور و غوغا کے رواں ایّام میں ، جب عقلیں غارت ہوئیں ، کان بند اور دہن بے قابو! افراد اور اقوام کی زندگی میں کوئی وقت ہوتاہے ، جب شجاعت سے زیادہ صبر و تحمل اور حکمت کے چراغ ہی راستہ روشن کرتے ہیں۔ کیا یہ وہی وقت نہیں ؟ زندہ اقوام خود کو جانچتی اور زمانے کے تیور دیکھتی ہیں ، خود شناس ہوتی ہیں ۔ اقبالؔ نے کہا تھا۔ صورتِ شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب