ہاں ! ایک آدمی تھا ، محمد علی جناحؒ ۔ کوئی فرصت پائے تو غور کرے کہ دور دیس کے کوچہ و بازار میں ایک تنہا بچے کی زندگی نور کے سانچے میں کیسے ڈھلی ۔ آنے والے سب زمانوں کے لیے مثال کیسے ہو گئی ۔ عجیب سے وہ لوگ ہیں ۔ سوچ بچار کی زحمت ذرا نہیں اٹھاتے ۔ اس طوفان خیز اعلان کے ہنگام کہ فوجی آمر کو اب سزا کا سامنا کرنا ہے ، ایک اور خیال پریشان کرتا رہا: جذبات کے دریا میں بہتے ہوئے ، کیا وہ سب کے سب اپنے انجام کی طرف نہیں بڑھ رہے ؟ ایک کے بعد دوسرا حکمران جاہ و جلال کے ساتھ ابھرتا اور رسوا ہو کر رخصت ہو تاہے ۔ آخر وہ عبرت کیوں حاصل نہیں کرتے؟ بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں سیاسی یا فوجی ۔ ہر مقتدر بالآخر ناکام اور نامراد کیوں ہوا؟ ذوالفقار علی بھٹو کو قائدِ عوام اور فخرِ ایشیا کہا گیا ۔ ایک عظیم قوم پرست اور خیرہ کن انقلاب کی نوید۔ اس حال میں تختِ اقتدار پر وہ متمکن ہوئے کہ ملک توڑنے کا ان پر الزام تھا۔ حکومت کے آخری ایام میں ایک وحشت خیز عوامی تحریک ان کے خلاف برپا تھی ، جس میں329افراد قتل کر دیے گئے ۔کروڑوں انسانوں کو صف بستہ کرنے والا آدمی۔ نہایت بے بسی کے عالم میں ، زندگی کے آخری ایّام لوہے کی سلاخوں والی ایک کوٹھڑی میں اس نے بتائے… اور ایک حریف کے بوڑھے باپ کے قتل کا الزام ! مقدمے کی کارروائی کتنی ہی بھدی اور ناقص رہی ہو ، آج تک ان کے وارث اور حامی ثابت نہیں کر سکے کہ اس جلیل القدر حاکم کے سوا بھی کوئی دوسرا نواب محمد احمد خان کی موت کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتاہے ۔ جنرل محمد ضیاء الحق نفاذِ اسلام کا علم لہراتے ہوئے آئے۔ اس آن بان کے ساتھ نمودار ہوئے کہ ان کے مداحوں کو صلاح الدین ایوبیؒ کی جھلک دکھائی دینے لگی ۔ ایک سے بڑھ کر ایک پارسا ان پر فدا۔ میدانِ صحافت کے سب دمکتے ہوئے چہرے ، جن میں سے اب کوئی ان کا نام نہیں لیتا، جس طرح طلاق لینے والی اپنے سابق شوہر کے ذکر پر حیرت اور گومگو کا شکار ہو جاتی ہے ۔ وہ علمائے کرام جو ان کا طواف کیا کرتے ۔ پھر اس طرح وہ انہیں بھول گئے ، جس طرح گائوں سے شہر پہنچ کر ، اپنی ذات او رقبیلہ تبدیل کر لینے والا احساسِ کمتری کا کوئی مریض اپنے ماضی کو ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس ملک پر غلبے کے آرزومندوں نے اس شخص کو ایک گھنائونی سازش سے قتل کیا مگر ان کے جانشینوں میں کسی نے سراغ لگانے کی ابتدائی کوشش تک نہ کی۔ وہ کیسا ہیرو تھا کہ جس کاکوئی دفاع کرنے والا نہیں ؛حتیٰ کہ اس کی زندگی میں پروانوں کی طرح اس پر گرنے والے بھی ؟ اقتدار کی غلام گردشوں میں جو لوگ پروان چڑھتے ہیں ، کیا وہ احساس و ادراک سے، بنیادی انسانی اوصاف تک سے محروم ہوجاتے ہیں ؟ ہوسِ اقتدار الگ کہ اس عیب میں دوسروں سے وہ ہرگز مختلف نہ تھا، ایک حیران کن بات مگر یہ ہے کہ اس کی ذاتی زندگی میں کوئی عیب نہ تھا اور نہ اس نے وہ جانشین مسلّط کرنے کی کوشش کی، جو اس دیار کی پختہ رسم ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک مگر تمام جرائم کا اسے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے تو کوئی جواب کیوں نہیں دیتا؟ حکمران کس قدر بدقسمت لوگ ہوتے ہیں ۔ باپ کے سرخ لہو سے لتھڑا پرچم اٹھائے ، سیاست کے خارزار میں اترنے والی بھٹو کی بہادر بیٹی ، ایک دن سرِ راہ قتل کر دی گئی، جیسے کوئی راہ گیر مارا جائے۔ اس کی لاش کے طفیل وارثوں کو اقتدار ملا ، جن پر ہزار الزامات تھے ، ہزار پھبتیاں جن پر کسی جاتی تھیں۔ اسی درد کے صدقے بہہ نہ سکنے والے آنسوئوں نے ان پر عنایت کی۔ شب و روز وہ اس کے گیت گاتے اور اس کے نام پر حکومت کر تے رہے ۔ قبر پہ چراغ جلاتے رہے مگر قاتلوں کو تلاش کرنے کی ایک ذرا سی کوشش بھی نہیں۔ کوئی سوال کرے تو وہ کہانیاں سناتے ہیں ۔ اس کے غم میں سیاہ پوش، مرحومہ کے شوہرِ نامدار نے یہ کہا: قاتلوں کے بارے میں کوئی مجھ سے بات نہ کرے ۔ میں انہیں جانتا ہوں او رپوری طرح ۔ میری مدد کرو اور کرتے رہو۔کیا وہ ان سے خوف زدہ تھا؟ خوف کے مارے کی کیا زندگی؟ وہ کہاں کا رہنما؟ مقدس کتاب میںیہ لکھا ہے : ولکم فی القصاصِ حیٰوۃ یا اولی الالباب۔ اے وہ لوگو جنہیں عقل و دانش میں سے عطا کیا گیا، یہ جان لو کہ قصاص میں زندگی ہے ۔ پھر انہوںنے موت او ربزدلی کا کیوں انتخاب کیا ۔ ہمیشہ وہ اپنے اجداد کی شجاعت اور عظمت کے ترانے گاتے رہے ۔ دعویٰ تو یہ تھا کہ شہدا کا قافلہ ہے اور اس میں کبھی کوئی پیٹھ نہیں دکھاتا۔ لاڑکانہ ، اس گرد آلود شہر کے ایک گائوں میں وہ قبر بجائے خود ایک پیہم سوال ہے اور قبیلے کا کوئی آدمی جواب نہیں دیتا۔ اقتدار کے فرزند ایسی بے حسی کا شکار کیوں ہوتے ہیں کہ پتھر سے ہوجاتے ہیں ۔ درہم و دینا ر ہی کی پوجا کرتے ہیں ؟ پھر وہ بہادر آدمی ، اقتدار کے آفاق پہ نمودار ہوا، جو ’’ڈرتا ورتا‘‘ کبھی نہ تھا۔ یہ الگ بات کہ مقابلے اور محاذ آرائی پر کبھی آمادہ نہ ہوا ۔ ایک ٹیلی فون کا ل پر جو ڈھیر ہو گیا۔ جس ملک میں امیروں سے ٹیکس نہ لیا جائے، فقط عامیوں کا خون چوسا جائے ، بھیک مانگنے کی ضرورت تو رہے گی اور ظاہر ہے کہ استعمار سے ، جو سیاسی اور عسکری ہی نہیں ، بے رحم مالیاتی اور ابلاغی اداروں کے بل پر بنی نوع انسان کی گردن پر سوار ہے ۔ سبھی حکمران اسی کے دریوزہ گراور مسلسل دریوزہ گر! ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے وہ مگر ایک عجیب آدمی نکلا۔ جب انہوںنے دھمکایا اورخطرے کی اس نے بو پائی تو وہ شرائط بھی اس نے تسلیم کر لیں ، جو انہوںنے پیش ہی نہ کی تھیں ۔ اس کے ہم نفس بھی ایک سے ایک منفرد۔ ان میں سے ایک نے ساڑھے سات سو صفحات کی کتاب لکھی ہے کہ خود کو معصوم اور سچّا ثابت کرے ۔ ایک واقعہ اس کے بقول: دو بار اس شخص نے روشن ترین اقوال میں سے ایک قول کا مذاق اڑایا۔ اس شخص کے بارے میں کیا کہا جائے، تیرہ برس کے بعد جس کی غیرت جاگی اور وہ بھی اس قدر کہ رنج ہی کا اظہار کرے۔ تجزیہ تک نہیں کہ اس کا ذہنی مرض کیا تھا ۔ مقتدر تھا تو یہ ارشاد کیا کہ وہ پابندِ صوم و صلوٰۃ ہے ، سید زادہ ہے ۔ خانہ کعبہ کی چھت پر جا پہنچنے کا اعزاز اسے حاصل ہے اور پیغمبرآخر الزماں ؐ کے مرقدِ مبارک کا دروازہ اس پر کھول دیا جاتاہے ۔ اس مہم جو کے فدائین بھی بہت تھے ، جو اسے ترقی اور روشن خیالی کا مینارِ نور کہا کرتے۔ کل ان سب کو کیا ہوا، جب اس کے لیے توہین آمیز موت کا امکان رکھنے والے مقدمے کا اعلان ہوا؟ دوسروں کے ساتھ وہ کیوں تالیاں پیٹ رہے تھے ؟ اقتدار کی چراگاہوں میں چرنے والوں نے حمیت تو کبھی نہ پائی تھی ۔ شرمندہ نہ سہی اگر وہ خاموش رہنے کی ہمت ہی کر دکھاتے ؟ یہ کون سی بستی ہے کہ احساس او رشرم و حیا تو درکنار، جس میں ہوش و حواس کی آخری کرن بھی بجھ جاتی ہے ۔ جس میں لوگ جانوروں کی سی زندگیاں جیتے اور سر اٹھا کر کبھی نہیں دیکھتے ؟ تو کیا بہت کشش ہے اس جہانِ رنگ و نور میں ہم اے نگارِ سیم و زر شکار کیسے ہو گئے؟ اور ایک آخری سوال : کیا آج کوس لمن الملک بجانے والے کا مستقبل مختلف ہوگا؟ کیسے مختلف ہوگا کہ ترجیحات وہی ہیں ، ماضی وہی اور حال بھی ویسا ہی ۔ پھر کیا قدرت کے قوانین بدل جائیں گے ؟ وہ تو کبھی نہیں بدلتے ۔ ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل یہی ہے فصلِ بہاری؟ یہی ہے بادِ مراد؟ ہاں ! ایک آدمی تھا ، محمد علی جناحؒ۔ کوئی فرصت پائے تو غور کرے کہ دور دیس کے کوچہ و بازار میں ایک تنہا بچے کی زندگی نور کے سانچے میں کیسے ڈھلی ۔ آنے والے سب زمانوں کے لیے مثال کیسے ہو گئی ۔ عجیب سے وہ لوگ ہیں ۔ سوچ بچار کی زحمت ذرا نہیں اٹھاتے ۔