اسی لیے تو وہ مہلت دیتا ہے ۔کوئی مگر غور تو کرے ،ذرا سی خود احتسابی اور توکّل بھی ۔یکسوئی جنابِ والا، یکسوئی۔ یہی مرحلہ تو مشکل ہوتاہے ۔ اپنی فطرت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا پاکستان کی خارجہ پالیسی یرغمال پڑی ہے ۔ اب تک وزیراعظم نے جو اقدامات کیے ہیں ، ان سے کوئی امکان ، کوئی امید ، کوئی تصویر نہیں اُبھرتی ۔امریکہ کے خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز کو جناب سرتاج عزیز اورجنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقاتیں کرنا تھیں ۔وزیر اعظم نے لیکن اسے ایوانِ وزیرِ اعظم مدعو کرلیا۔ وہیں اپنے مشیر اور سپہ سالار کوبھی ۔ سیاسی اور عسکری قیادت الگ الگ مذاکرات نہ کریں تو اچھا ہے ۔ اندازِ فکر میں اختلاف ہو سکتاہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ،مگرکچھ سوالات ہیں ۔ وزیر اعظم کو اس سطح کے افسر سے ملنے کی ضرورت کیا پڑی؟جیمز ڈوبنز کے پاس کیا اختیار ہے کہ وہ مدد کرے ۔ ایسی تعجیل کیا، وزیراعظم اگر کوئی پیغام واشنگٹن پہنچانے کے آرزومند تھے تو اس کا طریق وہی تھا، جو صدر اوباما نے الجھی گتھیاں سلجھاتے ہالبروک سے جنرل کیانی کی ملاقات کے ہنگام اختیار کیا تھا۔ چودہ صفحے کا ایک خط جنرل کیانی نے لکھا تھا، افغانستان اور قبائلی علاقوں کے بارے میں امریکی پالیسی پر پاکستانی قوم کے تحفظات ۔ امریکی صدر کمرے میں اچانک داخل ہوئے اور جنرل نے وہ دستاویز ان کے حوالے کردی ۔پھر بات ہوئی، پھر کشمکش ہوتی رہی ، حتیٰ کہ امریکی سپلائی روک دی گئی ۔ حتیٰ کہ امریکیوں نے مانا کہ افغانستان میں بھارت ان کاجانشین بالکل نہ ہوگا۔ نازک سفارتی اور تزویراتی معاملات میں یہ کام اسی چابک دستی کے ساتھ کیا جاتاہے۔ عرق ریزی کرنا ہوتی ہے، عرق ریزی۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا: مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں سب سے اہم مسئلہ ہے ڈرون حملوں کا۔ پانچ برس تک نون لیگ نہ صرف مذمت کرتی رہی بلکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ۔ایک قابلِ اعتبار انگریزی اخبار کے مطابق وزیراعظم نے اب اپنے مشیروں کو حکم دیا ہے کہ ڈرون حملوں پروہ زیادہ واویلا نہ کریں۔ سفارتی جدوجہد سے وہ معاملہ سلجھا ئیں گے ۔کس طرح ؟ یہ واضح نہیں اور واضح وہ کرنا چاہتے نہیں۔ وزارتِ خارجہ انہوںنے اپنے پاس رکھی ہے اور دو عدد مشیر مقرر فرمائے ہیں ۔ جناب سرتاج عزیز اور جناب طارق فاطمی ۔ دونوں ایک دوسرے سے ناخوش ہیں ۔ ایک ٹیم کے دو کپتان کیسے ہو سکتے ہیں ؟ رفیق تارڑ صدر بنائے گئے تو سرتاج عزیز بھی امیدوار تھے ۔ کہا جاتاہے کہ ان سے وعدہ بھی تھا۔ میاں محمد نواز شریف کا مزاج مگر یہ ہے کہ زیادہ وفادار کو وہ فوقیت دیتے ہیں ۔ بتایا گیا ہے ، الیکشن کے بعد وزیراعظم کو سرتاج عزیز نے پیغام بھیجا کہ کیا اب کی بار انہیں صدر بنایا جا سکتاہے ؟پارٹی کا سیکرٹری جنرل بننے سے جس نے انکار کیا تھا کہ میں بوڑھا ہو گیا۔اب جوانی کہاں سے لوٹ آئی؟ کئی سال سے طارق فاطمی خارجہ امور میں نون لیگ کی خد مت انجام دے رہے تھے ۔ ایک محنتی اور مرتب آدمی ، جس کی ساری زندگی اس میدان میں گزری ۔ امریکہ میں پاکستان کا سفیر رہ چکا او رخود نواز شریف کے گذشتہ دورِ حکومت میں وہ ایوانِ وزیراعظم میں خارجہ امور سے متعلق رہے ۔ اب ان پر ایک محتسب مقرر کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ اے روشنیِ طبع تو برمن بلا شدی؟ کیا ان کی سوجھ بوجھ اور قوتِ ادراک اندیشوں کو جنم دیتی ہے ؟ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جو حکمران سوچ سمجھ کر چنے گئے وفادار ساتھیوں پر بھی اعتماد نہیں کرتے ، ان کی نائوبیچ منجدھار میں ڈوبتی ہے ۔ پاکستانی وزیر اعظم سب سے پہلے سعودی عرب جایا کرتا ہے ۔قریب ترین دوست ۔ عمرہ ، اللہ کے اس سیاہ پوش گھر کے مقابل ، ہیچ ہونے کے بے کراں احساس کے ساتھ التجا و گریہ ۔ اس شہرِ خنک مدینۃ الرسولؐ کی زیارت۔ آغازِ سفر سے پہلے آس ، امید کی آبیاری ۔نصیباوہاں کھلتا ہے۔روشنی وہاں اترتی ہے ۔ نواز شریف نے چین کا قصد کیوں کیا ہے؟ کیا عربوں نے عنایت سے انکار کر دیا ؟ گریزکیوں او رگومگو کیا؟وہیں تو جانا چاہیے تھا۔ ظاہر ہے کہ ایران پاکستان پائپ لائن بِس کی گانٹھ ہے ۔ گریز اور فرار تو کوئی حل نہیں ۔ کئی مہینے ملے ۔ پوری طرح سوچ بچار کے بعد حکمتِ عملی مرتب کر کے سعودی حکمرانوں سے بات کی جاتی ۔ پھر قوم کو اعتماد میں لیا جاتا۔ صاف ظاہر ہے کہ یکسوئی موجود نہیں اور یہ بڑی ہی تباہ کن بات ہے ۔شاہی خاندان سے ذاتی تعلقات کے باوجوداگر پاکستان کا مقدمہ وہ پیش نہیں کر سکتے تو کسی او رکے سامنے کس طرح ؟ گریز کشمکشِ زندگی سے مردوں کا اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست؟ وزیرِ خارجہ مقرر نہ کرنے کا مقصد کیا ہے ؟ اول تو طارق فاطمی ہی کہ چھپاتے کچھ نہیں۔ریاضت کیش ہیں اور کھل کر بات کرتے ہیں ، صحت مند اور مستعد ۔ وفاداری وہ ثابت کر چکے ۔ اگر وہ نہیں تو کیاپوری پارٹی بانجھ ہے ؟ میاں صاحب کیا یہ سوچتے ہیں کہ امریکی لیڈر شپ کے ساتھ ذاتی مراسم استوار کرنے چاہئیں؟ اول تو تجربہ برعکس ہے ۔نجی تعلقات میں طاقتور ہی غالب آتا ہے ۔ تاویل کرنے والے نون لیگ کے پا س بہت ہیں مگر تاویل نہیں ، دلیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ راستہ مخلص رفیق ہی بتا سکتے ہیں ،خوشامدی راہ کھوٹی کیاکرتے ہیں ۔ کیا نادر نکتہ اقبالؔ نے نکالا۔ معلوم نہیں‘ ہے یہ خوشامد یا حقیقت الّو کو کوئی کہہ دے اگر رات کا شہباز ملکوں اور قوموں کے تعلقات باہمی ضروریات اور مفاد پر استوار ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی تزویراتی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ امریکہ نظر انداز کر سکتاہی نہیں،خاص طور پہ اب افغان تناظر میں۔ حالات ایسے نہیں کہ پاکستان کو بلیک میل کیا جا سکے۔ صدر زرداری ایسے کمزور آدمی کے عہدمیں سپلائی رکی تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی ؟ اب صورتِ حال کافی بہتر ہے، خوف البتہ ! اگر اقتدار ہی عزیز ہو ، اگر اندیشہ غالب رہے تو کیسی قوتِ عمل اور کون سا بھائو تائو؟ سرکار ؐ نے فرمایا کہ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا اور نجات برعکس عمل میں۔ افغانستان سے واپسی واشنگٹن کا سب سے بڑادردِ سر ہے۔ موقعہ شناسی ہی سفارت کاری ہے ۔ اس فکر میں وہ گھلے جاتے ہیں کہ سینکڑوں کھرب ڈالر کا فوجی سامان حفاظت سے امریکی ساحلوں پہ پہنچ جائے ۔ پاکستانی فوج کی مدد کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ۔ پاکستان کے دو سنگین مسائل ہیں ۔ معیشت او رامن و امان۔ بہترین افسروں کے تقرر اور پولیس کو سیاسی اثرات سے نجات دے کر 50فیصد خرابی کم کی جا سکتی ہے ۔رفتہ رفتہ معیشت استوار ہوتی جائے گی ۔ ثانیاً ٹیکس وصولی کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے ایف بی آر کی تشکیلِ نو۔ فالتو سے ایک آدمی کو دعویٰ کرتے سنا گیا کہ وہ چن لیا گیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ایسا نہ ہوا،مگر فیصلے صادر کرنے کا یہ انداز؟ وحشت ہوتی ہے، وحشت۔ مجھے رنگینیء صحنِ چمن سے خوف آتاہے یہی انداز تھے جب لٹ گئی تھی زندگی اپنی سب سے اہم بات یہ ہے کہ عسکری اور فوجی قیاد ت میں ہم آہنگی کے بغیر کوئی ملک خارجہ پالیسی کے میدان میں کبھی ظفرمند نہ ہو سکا۔سوال ہی نہیں۔ یہی نہیں ، اپوزیشن کا اعتماد بھی ۔تاریخ بتاتی ہے کہ کسی قوم میں قابلِ عمل اتفاقِ رائے مثبت بنیادوںپر ہی ممکن ہوتاہے ۔ وزیراعظم اگرجنرل کیانی کے ساتھ نہیں چل سکتے تو کس کے ساتھ چلیں گے ؟ محدود سی معلومات کی بنیاد پر اندازہ یہ ہے کہ چار ماہ بعد نئے فوجی سربراہ کے باب میں ان کا اندازِ فکر وہی پرانا ہے ۔ اس پر لیکن پھر کبھی ۔گوہر ایوب کو انہوںنے وزیرِ خارجہ اور جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا تھا۔ بدقسمتی سے مشیر بھی وہی ہیں ۔ صاحبِ اقتدار کے چہرے کا سناٹا اب سمجھ میں آنے لگا ہے۔ بہت سوں سے بہت سے وعدے انہوںنے کر لیے۔ اب حیران او رپریشان ہیں ۔ فیصلے تو صادر کرنا ہی ہوں گے اور اصول آشکار ہیں ۔ نیت سچی ہوجائے تو ہر الجھائو سے نکلا جا سکتاہے ۔اسی لیے تو وہ مہلت دیتا ہے ۔کوئی مگر غور تو کرے، ذرا سی خود احتسابی اور توکّل بھی ۔یکسوئی جنابِ والا، یکسوئی۔ یہی مرحلہ تو مشکل ہوتاہے ۔ اپنی فطرت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا