تاریخ کا سبق یہ ہے کہ قلوب و اذہان کو تسخیر کرنے کے سوا، معاشروں کو بدلنے اور بہتر بنانے کا اور کوئی راستہ نہیں ، مگر افسوس کہ کم ہی لوگ اس پر غور کرتے ہیں ۔ مصر ہی نہیں ، شام اور لیبیا سے بھی اخوان کے کچھ ہم نفسوں نے طعنہ دیا ہے : کیا تم نے جمہوریت کا مزہ چکھ لیا؟ اس پر مجھے مقبوضہ کشمیر کے مقتل میں نصف صدی سے سروقد کھڑے سیّد علی گیلانی یاد آئے۔ پانچ برس ہوتے ہیں ، جب انہوںنے کہا تھا: شاید ابھی ہم اس اخلاقی معیار کو پہنچے ہی نہیں کہ سرخرو ہوں ۔ 1992ء میں کابل کے کھنڈرات میں نے دیکھے ۔ افغان لیڈروں کو اس طرح ایک دوسرے سے برسرِ پیکار پایا جیسے وہ غیر ملکی فوجوں سے نبرد آزما ہوں ۔ گذشتہ پانچ برس کے دوران ملک میں اقتدار کی کشمکش کا بہت قریب سے جائزہ لینے کا موقعہ ملا۔ خاص طور پر تحریکِ انصاف کا عروج و زوال۔ اگر ان برسوں کی روداد ڈھنگ سے لکھ دی جائے تو شاید صرف سمندر پار پاکستانیوں میں اس کتاب کی ایک لاکھ سے زیادہ کاپیاں بک جائیں۔ کتنے ہی سنسنی خیز واقعات ہیں ۔گاہے دل کڑھتا ہے ، پھر اپنے آپ کو میں یاد دلاتا ہوں کہ دوسروں کو صبر کی تلقین کرنے والے کو خود بھی اس کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ 2012ء میں اواخرِ سرما کی ایک شب یاد آتی ہے ۔ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا تصور زیرِ بحث تھا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی محتاط بہت ہیں ۔ اگر آپ ملاقات کی لفظ بہ لفظ روداد بھی لکھ دیں تو ان پہ حرف نہ آئے۔ موضوع سے وہ گریز نہیں کرتے لیکن اپنا موقف اس قدر عمدہ پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ آدمی عش عش کر اٹھے ۔ شیخ رشید ایسے لوگ عسکری قیادت کا مذاق اڑا رہے تھے ۔ بعض اوقات بہت پڑھے لکھے لوگ بھی جنرل کے بارے میں ایسی گفتگو کرتے کہ گویا ان کی کم ہمتی اور ناکردہ کاری ہی بحران کی بنیاد ہو ۔ اس روز اپنے درد کی حکایت انہوںنے بیان کی ، جس قدر کہ ایک معزز اور شائستہ آدمی کر سکتاہے ۔ پھر یہ کہا کہ صبر کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ یہ تو آشکار تھا کہ اقتدار کی آرزو سے وہ بے تاب نہیں۔ بنگلہ دیش جیسا تجربہ ممکن تھا مگر وہ ٹھنڈے دل سے سوچ رہے تھے ۔ انہیں ادراک تھا کہ ایسے اقدام سے وقتی فوائد تو شاید حاصل ہو سکتے ہیں لیکن آخری نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔ پوری کہانی سنا دینے کے بعد انہوںنے مجھ سے کہا: ساری بات میں نے آپ کو بتا دی ہے ، اب آپ جوچیز جس وقت بیان کر نا چاہیں ، کر دیں ۔ سوال ان کا یہ تھا کہ جب کوئی صبر کا مظاہرہ کرتا اور اصول پر قائم رہنے کی کوشش کرتاہے تو اس کا مذاق کیوں اڑایا جا تاہے ، طعنہ کیوں دیا جاتا ہے؟ عرض کیا : جنرل صاحب اس کاتو سوال ہی نہیں کہ سوچ سمجھ کر اختیار کیا جانے والا تحمل ضائع ہو جائے ۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے : ان اللہ مع الصابرین۔ بے شک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے ۔ یہ فقط اجر و ثواب کا وعدہ نہیں بلکہ اس امر کا دو ٹوک اعلان کہ اللہ صبر کا دامن تھامے رکھنے والوں کے حق میں ایک فریق بن جاتاہے ۔ انہیں ضائع اور ناکام ہونے نہیں دیتا۔ اگر اس وقت جنرل کیانی سول حکو مت کو چلتا کر دیتے تو آج پاکستانی فوج اور پاکستانی معاشرہ کس دلدل میں پھنس چکا ہوتا۔ کیسی کیسی پیچیدگیاں جنم لے چکی ہوتیں اور کیسا ماتم برپا ہوتا۔ مصر کے معاملے پر مغرب کے طرزِ عمل پر شکوہ او ررنج بہت ہے لیکن اس سوال پر کوئی بحث نہیں کہ خود اخوان سے کہاں غلطی سرزد ہوئی ۔ ظاہر ہے کہ امریکہ سمیت پورا مغرب اخوان کی ناکامی کا آرزومند تھااور کیوں نہ ہوتا؟ اخوان نے کب ان کے باب میں مفاہمت کا رویہ اختیار کیا تھا کہ مہربانی کی امید کرتے ۔ عمر فاروقِ اعظم ؓ نے کہا تھا: جس سے نفرت کرتے ہو، اس سے ڈرتے رہو۔ ظاہر ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کو نفرت کا پرچار ہی کرنا تھا ۔ پڑوس میں ترکی والے تجربے کے بعد وہ کیونکر اس کے متحمل تھے کہ مشرقِ وسطیٰ کا پورا خطہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے ۔ پھراسرائیل حالات کے رحم و کرم پر ہو۔ مصائب سے بے چین ہو کر اصحابِ رسولؓ نے کہا \\\"متیٰ نصر اللہ؟\\\" اللہ کی مدد کب آئے گی ۔ انہیں بتایا گیاکہ تم سے پہلوں پر اس سے زیادہ امتحان اترے تھے ؛حتیٰ کہ ان میں سے بعض آروں سے چیر دیے گئے ۔ جنگِ خندق امتحان کا نقطۂ عروج تھا۔ سردی ، بھوک ، حلیفوں کی غدّاری اور مدینہ کی کل آبادی سے کم از کم تین گنا بڑالشکر ، جس کا ہر شامل و شریک خون کا پیاسا تھا ۔ اصحابؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہؐ ، کلیجے حلق کو آگئے ۔ تب وہ دعا انہیں تعلیم کی گئی ، اہلِ ذکر آج بھی جس کی تکرار کرتے ہیں : اللھم استر عوراتنا و آمن روعاتنا۔ اے اللہ ہمارے عیبوں کو ڈھانپ دے اور ہمارے خوف کو امن سے بدل دے ۔ دنیا کی قیادت سہل نہیں ، اس کے لیے اخلاق کی رفعت درکار ہے ، جو انقلاب کے آرزومندوں کو دوسروں سے ممتاز اور بلند ہی نہ کردے بلکہ ایسا گداز اور تحمل بھی عطا کرے کہ ہر حال میں وہ خیر خواہی کا دامن پکڑے رکھیں ۔ انتقام کے جذبے سے خود کو مکمل طور پر پاک کردیں ۔ مورخ ہیرالڈلیم جب یہ کہتا ہے کہ تیرھویں صدی کے یروشلم میں صلاح الدین ایوبی ؒ نے مفتوح لشکروں کے ساتھ اس قدر حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا ، تاریخ جس کی مثال پیش نہیں کرتی تو فتح ِ مکہ کے دن کو وہ نظر انداز کر دیتا ہے ۔ رحمتہ اللعالمینؐ کا حیران کن عفو و درگزر ترس کے جذبے سے ہرگز نہ پھوٹا تھا۔ وہ ایک وقتی سیاسی حکمتِ عملی بھی نہیں تھی بلکہ اس کردار کا ایک لازمی تقاضا جو اٹھارہ برس کی ریاضت سے پیدا ہوا‘ جس نے مزاج کے اعتبار سے یکسر ایک نئی قوم تخلیق کر دی تھی ۔ وہ لوگ جو حکم چلانے کے آرزومند تھے ہی نہیں ، جو خود کو دوسروں سے کبھی الگ او رممتاز نہ سمجھتے تھے ۔ کسی بڑی سے بڑی فتح کو جو اپنا ذاتی کارنامہ قرارنہ دیتے۔ اللہ کے رسولؐ نے مکّہ کے قدیم باشندوں میں سے ہر اس شخص کو اقتدار میں شریک کر لیا جو ایمان لایا ؛حتیٰ کہ طائف کے لیے روانہ ہوئے تو بعض مشکرین کو لشکر میں شامل کر لیا۔ یہ روایت بعد میں باقی رہی ۔ حیرت ہے کہ فقہا تو کیا ، مسلم مورخین بھی اس کا ذکر شاذ ہی کرتے ہیں ۔ معاشرے کے مختلف طبقات میں کشمکش کی کوئی نہ کوئی صورت تو بہرحال باقی اور برقرار رہتی ہے ۔ کامیاب انقلابی گروہوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ شکست سے دوچا رہونے والوں کو وہ اجنبی اور غیر متعلق ہونے نہیں دیتے تاکہ ان میں کمتری کا احساس جنم نہ لے۔ انتقام میں مبتلا ہو کر وہ محاذ آرائی پر نہ اتر آئیں ۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد کے علاوہ ، جن کی قوم پر صدیوں سے چینی نسل کے مالدار مسلّط تھے ، ترک اس طرزِ عمل میں بڑی حد تک کامیاب رہے اور اس کا ثمر سمیٹ رہے ہیں ؛اگرچہ حالیہ مہینوں میںطیب ایردوان کو قدرے انحراف کرتے پایا گیا۔ مصری افواج ، پولیس ، انتظامیہ اور عدلیہ ساٹھ برسوں سے ایک ڈھب پر چلتی آئی تھیں ۔ آمر انہیں گوارا تھے اور مغرب بھی مگر مذہبی لوگوں کا اقتدار نہیں ۔ اخوان کی ناکامی یہ ہے کہ اپنے انقلاب کو سبھی مصریوں کا انقلاب وہ ثابت نہ کر سکے ۔ غیض و غضب سے بھرے ہوئے ، جو حلیف اخوان کو جمہوریت کا راستہ ترک کر کے مسلح جدوجہد اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ، وہ ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔ ہتھیاروں پر انحصار ملک کو مستقلاً تقسیم کرڈالتا ہے ۔ بغض و عناد کی ایسی باقی رہنے والی دیواریں اٹھاتا ہے کہ طویل زمانوں کے لیے ، وہ استحکام اور قرار کھو دیتاہے ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ قلوب و اذہان کو تسخیر کرنے کے سوا، معاشروں کو بدلنے اور بہتر بنانے کا اور کوئی راستہ نہیں ، مگر افسوس کہ کم ہی لوگ اس پر غور کرتے ہیں ۔