کچھ بھی ہو ، آدمی اپنی فطرت میں وہی رہے گا۔ تبھی وہ بدل سکتاہے ، اگرخود وہ بدلنا چاہے۔ صوفی نے کہا تھا: پروردگار کا قانون عجیب ہے ۔ بن مانگے وہ گھاس بھی نہیں دیتا۔ سالہا سال کی سائنٹیفک تحقیق کے بعد امریکی ڈاکٹر نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اور جسے ایک آلے کی شکل ڈھال دیا ہے ، شاعر کے رہوارِ خیال نے اسے کیونکر پا لیا تھا؟ ؎ غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں انسانی فکر کا منبع وماخذ کیا ہے ؟ فرمانِ رسولؐ یہ ہے کہ ایک فرشتہ آدمی کی طرف وحی کرتاہے اور ایک شیطان بھی ۔ خواجہ مہر علی شاہ نے ، اقبالؔ جن کے علم اور روشنی ء طبع سے فیض پانے کے آرزومند رہے ، یہ کہا تھا : روشنی آدمی کے قلب پر اترتی ہے ، اگر وہ اسے تھامے تو عارضی ہوتی ہے اور اگر تھامے رکھے یہ تجلی دائمی ہو سکتی ہے۔ رمضان المبارک کی اولین شب‘ آخر کو تاریکی کا غبار اس طرح چھٹا کہ کچھ نجیب لوگ یاد آئے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب، اللہ انہیں زندگی اور صحت عطا کرے۔ بلاسود قرض فراہم کرنے والا ادارہ تشکیل دیا جس کے ذریعے ایک لاکھ شہریوں کو روزگار دے کر کارآمد بنا چکے۔ ڈاکٹر ظہیر احمد ، جن کا قرض کبھی نہ اترے گا۔ سینکڑوں تعلیمی ادارے انہوںنے بنا دئیے، جن میں ہزاروں غریب بچے اعلیٰ درجے کی تعلیم پا رہے ہیں ۔ سوچا کہ دستاویزات دیکھوں او رلکھنے کی کوشش کروں کہ کس طرح انہوںنے چراغاں سا کردیا۔ ماضی کی دھند سے پھر ایک تابناک چہرہ ابھرنے لگا… خواجہ کمال الدین انور۔ یا للعجب، ایک سجادہ نشین اور سیاستدان مگر کیسا نادرِ روزگار آدمی۔ خواجہ سے اولین ملاقات 1985ء میں ہوئی ، ارکانِ قومی اسمبلی کے لیے مخصوص ہوسٹل میں ، لیاقت بلوچ کے کمرے میں ۔ خواجہ بہت ہی دھیمے سے آدمی تھے اور بہت عجیب اطوار کے مالک۔ کم ہی گفتگو کرتے اور بہت رسا ن کے ساتھ ۔ کوئی چونکا دینے والی بات، کوئی سخت تنقید اور نہ فراواں تحسین ۔ بچوں کی طرح معصوم۔ طویل قامت منظور خاں، پنجاب یونیورسٹی سے ابھرنے والا وہ بہت ہی منفرد کردار، اگر موجود ہوتا تو ماحول ایک عجیب رنگ میں رنگا جاتا۔ ہر طرف ایک بشاشت سی پھیلتی رہتی ۔ اپنے ایک کردار کے بارے میں مشتاق یوسفی نے لکھا ہے : مرزا کو کھانے کا ایسا ہوکا تھا کہ ایک منہ انہیں کم محسو س ہوتا۔ منظورخاں کا وصف یہی تھا۔ اسلام آباد سے لاہور کا ایک سفر یاد ہے ۔ لیاقت بلوچ اور خواجہ صاحب منظور خاں کی پرخوری کے حیران کن واقعات سناتے رہے کہ اتنے میں گاڑی شہر سے باہر کھلی فضا میں آگئی۔ میں نے پوچھا :منظور خاں ، کیا وہ سچ کہتے ہیں ۔ اس کا بے ساختہ جواب یہ تھا : لڑھ مریندے ہن (بے معنی باتیں )۔ جملہ ختم ہونے سے پہلے خان نے شور مچا دیا \"گاڈی روکو، گاڈی روکو\"پوچھا کیا ہوا ؟ بولے \"گونگلواں دا کھیت اے، کھا سوں \"شلجم کا کھیت ہے ، کھائیں گے ۔ لالہ موسیٰ پہنچنے تک بھوک چمک اٹھی ۔ ریستوران میں کھانا منگوایا گیا۔ دوسری چیزوں کے علاوہ پالک گوشت ۔ منظور خان نے سب کی سب بوٹیاں اپنی پلیٹ میں ڈال لیں۔ سوال کیا \"یہ کیا؟\"کہا: تم لوگ نرے احمق ہو ، گوشت پکانے کے بہت سے طریقے ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے ساگ پات اس میں ڈال دیا جائے مگر اسے کھانا کیا ضرور ہے ؟ گاڑی پھر سے روانہ ہوئی تو خان سکنجبین سے ملتے جلتے ایک مشروب پہ اصرار کرنے لگا۔ پوچھاگیا کہ کس لیے ؟ جواب ملا : بھوک بڑھتی ہے ، اے احمق لوگو، کیا گوجوانوالہ سے تکے کھائے بغیر ہی گزر جائو گے ۔ لیاقت بلوچ ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہے ۔ خواجہ کا انداز دوسرا تھا ۔ ایک لطیف ساجملہ اور ایک لطیف سی ہنسی ۔ قہقہے نہیں کہ اس عمل میں ایک طرح کی بے باکی ہوا کرتی ہے اور خواجہ میں بے باکی نام کو نہیں تھی۔ ایسا چونکا دینے والا واقعہ اس قدر آہستگی سے بیان کر دیتے کہ آدمی غور کرے تو ششدر رہ جائے۔ ایک دن اچانک کہا: فلاں لیڈر، کس ٹھاٹ باٹھ سے رہتاہے ، اس کی زمین ہماری زمین سے کم ہے ۔ میں نے کہا : خواجہ ، آپ کے جدّ امجد کا مزار کہیں بڑا ہے ، نذرانے بھی تو بہت آتے ہوں گے ۔ کہا: بالکل نہیں ، جس دن میری دستار بندی ہوئی ، میںنے کہاتھا: نذرانے بند ،لنگر جاری ۔ 1988ء کے انتخابات ہوئے تو نواز شریف نے خواجہ کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا ۔ مجبوراً وہ پیپلزپارٹی میں چلے گئے ۔ بے نظیر بھٹو کے خلا ف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو بتایا گیا کہ غلام مصطفی کھر جہاز میں ایک کروڑ لاد کر خواجہ کے ہاں پہنچے مگر انہوںنے انکار کر دیا۔ میں نے پوچھا تو انہوںنے مصطفیٰ کھر کا نام لینے سے گریز کیا ۔ گفتگو کی تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کی تو کہا\"بس میں نے انکار کر دیا \"کوئی دوسرا ہوتا تومزے لے لے کر داستان سناتا مگر خواجہ سرے سے بات کرنے پر ہی آمادہ نہ تھے ۔ بس اسی قدر کہ پیشکش ہوئی جو ٹھکرا دی گئی ۔ میں نے کہا : خواجہ پیام بر نے آخر کچھ تمہید باندھی ہوگی ، کچھ دلائل دئیے ہوں گے ، آپ نے کچھ جواب دیا ہوگا۔ بولے \"ہاں کچھ کہا تھا اس نے \"زچ ہو کر میں نے کہا: آپ نے کیا جواب دیا ۔ ایک معصوم بچے کی سی سادگی سے بولے : میں نے کہا \"لڑھ نہ مار \"فضول بات نہ کرو۔ یہ ستمبر 1995ء تھا ۔ جہاز جدّہ میں اترنے والا تھا ، جب خواجہ پہ نظر پڑی ۔ معلوم ہوا کہ عازمینِ حج کے لیے عمارتوں کا بندوبست کرنے کے لیے یہ ایک سرکاری وفد ہے ۔ یہ بتانے میں انہیں تامل تھا کہ وہ اس وفد کے چیئرمین ہیں۔ یہ بات ایک عرب سے معلوم ہوئی ، جو سفارش کی تلاش میںمیرے پاس پہنچا ۔ خواجہ سے میں نے فقط یہ کہا: اس کی بات سن لینا ۔ جواب میں انہوںنے کہا : ضرور سن لوں گا… اور ملاقات اختتام کوپہنچی ۔ پھر ایک شام میں نے انہیں گنبدِ خضریٰ کے سائے میں دیکھا۔ ایک بار بہت کریدنے پر انہوںنے بتایا تھا کہ فلاں دن کے بعد تاش کھیلنا انہوںنے ترک کر دیا تھا اور پنج وقتہ نماز اب پابندی سے پڑھتے ہیں ۔ یہ مگر ایک دوسرا ہی آدمی تھا ۔ آواز او ربھی مدھم، لہجے میں اور بھی گداز۔ بات کرنے کی کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔ بعد میں غور کیا تو کھلا۔ زبانِ حال سے گویا وہ کہہ رہے تھے : سرکارؐ تشریف فرما ہیں ، حدّادب ملحوظ رہے ۔ خواجہ کی وہ تصویر ہمیشہ کے لیے ذہن میں نقش ہو گئی ۔ پھر وہ خبر آئی ، جس پر ذرا سی حیرت بھی نہیں چاہیے تھے۔ نواحِ مکہ میں ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور وہ اسی مٹی کے ہور ہے ، جس سے انہیں محبت ہو گئی تھی ۔ فطرت سعید ہو تو آدمی کی خاک کو ایک چنگاری کافی ہو جاتی ہے ۔ عمر بھر اسے سلگائے رکھتی ہے ۔ ، شاعر نے کہاتھا: چیست حیاتِ دوام؟ سوختنِ ناتمام۔ ابدی زندگی کیا ہے ، وہ آگ جو جلاتی بھی نہیں اور بجھتی بھی نہیں ۔ وہی آگ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر ظہیر احمد تخلیق کرتی ہے ۔ وہی جو معاشروں کو مرنے سے بچاتی ہے ۔ یو ٹیوب بند ہونے کی وجہ سے وہ فلم ہم تک پہنچ نہیں سکی جو اس امریکی ڈاکٹر نے بنائی ہے ۔ اپنی تحقیق کے نتائج پر مشتمل اور وہ یہ ہے: ہمیشہ ، ہر بار ، قبل از وقت یہ معلوم کیا جا سکتاہے کہ کوئی آدمی کسی خاص موضوع پر کیا فیصلہ بالآخر صادر کرے گا… چھ سیکنڈ پہلے ۔ ایک آلہ اس نے بنادیا ہے ، جو آدمی کے سر پہ لگا دیا جاتاہے اوروہ خبر دیتاہے ۔ یہ بھی غالبؔ نے کہا تھا ۔ ع محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی کچھ بھی ہو ، آدمی اپنی فطرت میں وہی رہے گا۔ تبھی وہ بدل سکتاہے ، اگرخود وہ بدلنا چاہے۔ صوفی نے کہا تھا: پروردگار کا قانون عجیب ہے ۔ بن مانگے وہ گھاس بھی نہیں دیتا۔