افواج اور ممالک نہیں، طاقت اور اسلحہ نہیں، بالآخر یہ صورتِ حال کی نوعیت ہوتی ہے جو فیصلہ صادر کرتی ہے۔ طاقتور بھی کمزور ہوتے ہیں اور کمزور بھی طاقتور مگر کم ہی لوگ غور کر تے اور کم ہی عبرت پکڑتے ہیں ۔ امریکی انتظامیہ کا کہنا یہ ہے کہ اپنے اعلان کردہ منصوبے کے برعکس 2014ء کے آخر تک افغانستان سے وہ آخری فوجی کو بھی واپس بلا سکتے ہیں ۔ کیا واقعی وہ ایسا کر سکتے ہیں یا محض ایک دھمکی ہے ۔ اگر دھمکی ہے تو کس کے لیے ؟ پاکستان کے اعلیٰ عسکری ذرائع اس پر یقین رکھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی مداخلت کا تعلق محض اسامہ بن لادن کی موجودگی یا طالبان کی حکومت سے نہیں تھا۔ ایک ممتاز جنرل نے دیر تک جاری رہنے والی ایک ملاقات میں کہا تھا کہ امریکیوں نے نائن الیون سے بہت پہلے کابل پر مسلّط ہونے کا منصوبہ بنا لیا تھا ۔ دوسری وجوہات کے علاوہ ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان سے جڑے ایرانی علاقے سے لے کر بلوچستان او روزیرستان سے ہوتی ہوئی ایک پٹی افغانستان کے اندر تک چلی جاتی ہے ، جس میں دنیاکی سب سے زیادہ قیمتی معدنیات پائی جاتی ہیں ۔ افغانستان ،چین کاپڑوسی اور وسطی ایشیا میں داخلے کا واحد آسان راستہ ہے۔ دریائے آمو کے پار 1992ء میں آزاد ہونے والی ریاستیں اب بھی روس کے زیرِ اثر ہیں اور گرم پانیوں سے بہت دُور۔ افغانستان میں وہ ایک ایسی حکومت کے آرزُومند رہیں گے جو اگر امریکہ اور مغرب کی ترجیحات کو ملحوظ نہ رکھے تو کم از کم اس سے متصادم ہرگز نہ رہے ۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونے والے مذاکرات کو خود صدر اوباما نے مشکل اور پیچیدہ قرار دیا تھا۔ ان کے بیان کا تاثر یہ تھاکہ امریکی عوام کو جلد حاصل ہونے والے غیر متوقع نتائج کی امید نہ رکھنی چاہیے۔ یہ قابلِ فہم تھا۔ مسائل اس قدر پیچیدہ ہیں اور فریق اتنے زیادہ کہ اتفاقِ رائے کا حصول آسان نہیں ۔ بات چیت مگر جس افراتفری اور جس تیزی کے ساتھ ناکامی سے دوچار ہوئی ، وہ بھی کم تعجب خیز نہیں ۔ معاملات اگر آگے نہ بڑھتے تو کسی کو حیرت نہ ہوتی مگر اوّل حامد کرزئی جس بری طرح ناراض ہوئے اور پھر طالبان جس طرح روٹھ کر الگ ہوئے ، اس کا اندازہ کسی کونہیں تھا۔ حیران کن انکشاف یہ ہے کہ یہ سب کچھ قطر حکومت کی ایک غلطی سے ہوا ، جو ایک خطرناک مغالطے سے پید اہوئی ۔ طالبان کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ بات چیت کریں گے تو ’’امارتِ اسلامی افغانستان‘‘ کے تحت ۔ اپنے دفتر پر وہ اس نام کا بورڈ نصب کریں گے اور اس کا جھنڈا لہرائیں گے ۔ قطریوں نے امریکہ سے بات کیے بغیر طالبان کے مقرر کردہ وفد کو ایسا کرنے کی اجازت دی اور کہا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔ حامد کرزئی بگڑ گئے ؛چنانچہ جھنڈا اور بورڈ ہٹانا پڑا۔ اب طالبان کے برہم ہونے کی باری تھی ۔ مذاکرات کے حوالے سے ان میں دو طرح کے اندازِ فکر ضرورپائے جاتے ہیں ۔ ایک کا خیال یہ ہے کہ بات چیت کی دعوت دے کر امریکہ نے عملاً اپنی شکست تسلیم کر لی ہے ؛لہٰذا انہیں زیادہ نرم روّیہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے طالبان رہنمائوں کے خیال میں زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں ۔ انکل سام اگرچہ جنگ سے بیزار ہو چکا ہے کہ خود امریکی عوام میں اس کی تائید برائے نام رہ گئی مگر حالات خود ان کے لیے بھی کچھ سازگا ر نہیں ۔ بظاہر ایسا لگتاہے کہ جھنڈا اور بورڈ ہٹانے پر اوّل الذکر گروہ کے کمانڈروں کو اپنی رائے تسلیم کرانے کا موقعہ مل گیا۔ امریکیوں کی پریشانی کا اصل سبب مگر طالبان نہیں ، صدر حامد کرزئی واقع ہوئے ہیں ۔ اقتدار کے آخری برس میں ، جب امریکی فوج کا جانا ٹھہر گیا ہے ، صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنے زیادہ سے زیادہ مطالبات تسلیم کرانا چاہتے ہیں ۔ امریکیوں کی طرف سے واضح کیاجا چکا ہے کہ مذاکرات افغان دستور کی حدود میں ہوںگے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ بالآخر اتفاقِ رائے سے تشکیل پانے والی ایک انتظامیہ کے تحت الیکشن کا انعقاد، دوسروں کے علاوہ ، جس میں طالبان بھی حصہ لے سکیں ۔ یہاں تک تو حامد کرزئی بھی طالبان سے متفق ہیں اور ان کی اعلیٰ امن کونسل (Supreme Peace Council)بھی ۔ صد رحامد کرزئی اور ان کے دورِ اقتدار میں پروان چڑھنے والے ساتھیوں اور حلیفوں کا دردِ سر یہ ہے کہ امریکیوں کے واپس چلے جانے کے بعد ان کاانجام کیا ہوگا۔ افغان آئین کے تحت صدر کرزئی تو تیسری بار الیکشن نہیں لڑ سکتے ؛چنانچہ ان کے نامزد کر دہ شخص کو یہ منصب حاصل ہو نا چاہیے جو ان کی اور ان کے رفقا کی حفاظت کر سکے ۔ اس مرحلے پر امریکی یہ ضمانت کیونکر دے سکتے ہیں ؟ پاکستان پر حامد کر زئی کی برہمی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اگر طالبان اور ان کے حامی برسرِ اقتدار آتے ہیں تو کابل میں پاکستانی رسوخ بڑھ جائے گا۔ بھارتیوں کی بے قرار ی کا سبب بھی یہ ہے کہ ایسے میں ان کی برسوں کی سرمایہ کاری اکارت رہے گی ۔ 2011ء میں سات ماہ تک امریکی سپلائی روکنے کے پاکستانی اقدام نے ان کی پریشانی میں اضافہ کیا‘ اس لیے کہ نتیجے میں افغانستان کے اندر پاکستانی کردار کی اہمیت کا ادراک کرنا پڑا۔ ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ واقعی اپنا بوریا بستر اٹھا کر روانہ ہو جائے تو افغان فوج کا مستقبل کیا ہوگا، جس پر چھ ارب ڈالر سالانہ خرچ کیے جاتے رہے اور جسے اب تیزی سے ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں ۔ نام اب حافظے میں نہیں ابھرتا، اس سوال پرغور کرتے ہوئے ایک امریکی جنرل سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی گفتگو مجھے یاد آتی ہے ۔ جنر ل کیانی کا کہنا یہ تھاکہ افغان فوج کی تشکیل آسان نہ ہوگی ۔ پھر اسے ایک قومی فوج میں ڈھالنا اور بھی دشوار ہوگا۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ اس فوج میں، جس پر امریکیوں نے سب سے زیادہ ریاضت کی ہے ، اکثریتی پشتون آبادی کی نمائندگی اب بھی بہت کم ہے ۔ ہزارے ، تاجک اور ترکمان نسبتاً کہیں زیادہ ہیں ۔ ان میں سے آخر الذکر دو گروہوں کو ایران کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ اچانک امریکی واپسی کی صور ت میں مختلف لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افغان فوجی مقامی لیڈروں اوروارلارڈز کے ساتھ ساز باز کر کے ایک بار پھر وہی کھیل شروع کر سکتے ہیں جو طالبان کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے جاری تھا۔ یہ ایک عجیب و غریب فوج ہو گی ،تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے جو بکھر جائے گی اور ایک ہولناک خانہ جنگی کا سبب بنے گی ، جو شاید ماضی کی خوں ریزی کو بھی مات دے دے ۔ کیا امریکی اس کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ کیا رائے عامہ او رخود امریکی عوام اپنی حکومت کو اس کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں گے اور پڑوسی ممالک ، چین ، ایران اور پاکستان کے علاوہ وسطی ایشیا کی ریاستیں اور روس بھی ۔ آخری تجزیے میں یہ ایک دھمکی ہی نظر آتی ہے جس کے مخاطَب صرف حامد کرزئی اور ان کے حلیف ہی نہیں بلکہ طالبان بھی ہیں ۔ طالبان بھی خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہوںگے لیکن حامدکر زئی کے لیے تو شاید افغانستان میں موجودگی بھی مشکل ہو جائے ۔افغانستان میں سارے فریق پھنس چکے ہیں اور کسی کے لیے راہ کشاد ہ نہیں ۔ اتفاقِ رائے کے سوا، ان میں سے کسی کے لیے بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ۔ افواج اور ممالک نہیں، طاقت اور اسلحہ نہیں، بالآخر یہ صورتِ حال کی نوعیت ہوتی ہے جو فیصلہ صادر کرتی ہے۔ طاقتور بھی کمزور ہوتے ہیں اور کمزور بھی طاقتور مگر کم ہی لوگ غور کر تے اور کم ہی عبرت پکڑتے ہیں ۔