آثار بہرحال اچھے نہیں ، بالکل اچھے نہیں ۔ ؎ ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا سامنے کی بات یہ ہے کہ قانون وہ ہوتاہے جو طاقتوروں پر نافذ ہو سکے ۔ پھر یہ کہ قانون کے نفاذ کا ایک وقت ہوتا ہے۔ اگر فوراً وہ بروئے کار نہ آئے تو معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ انصاف میں تاخیر عدل سے انکار کے مترادف ہے۔ Justice delayed, justice denied خوف زدہ معاشروں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ ایم کیو ایم ہی کو لیجئے۔ لندن میں جو کچھ برپا تھا ، ابھی تک ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات الطاف حسین اور ان کی پارٹی کا نام لینے سے گریزاں تھے ۔ برطانوی نژاد پاکستانی اور خود برطانوی پریس بروئے کار آیاتومعلوم ہوا کہ ایک آدھ نہیں ، تین الزامات کی تفتیش ہے ۔ اوّل‘ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ۔ دوم‘ منی لانڈرنگ… رقوم کی تفصیلات تک سامنے آئیں کہ الطاف حسین کے گھر اور دفتر سے چار لاکھ پائونڈ کی رقم برآمد کر لی گئی ہے۔ جائدادوں کی خریداری اس کے سوا ہے۔ سوم‘ اپنے حامیوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام ، جس کی اب سرگرمی سے تفتیش کی جا رہی ہے ۔ پیش کی جانے والی تاویل عجیب و غریب ہے کہ ایم کیو ایم چونکہ دہشت گردی کے خلاف سرگرمِ عمل ہے ؛چنانچہ طالبان سے ہمدردی رکھنے والے عناصر خود انگلستان میں بھی اس کے خلاف سرگرم ہیں۔ انگریزی پریس اور پولیس میں انتہا پسندوں کے حامی کہاں سے آگئے ؟کیا برطانوی اور امریکی اداروں میں بھی طالبان کے ایجنٹ پائے جاتے ہیں ؟ الیکشن میں دھاندلی کا مسئلہ ابھی تک اسی طرح لٹکا ہوا ہے ۔ عمران خاں نے قومی اسمبلی میں اپنے اوّلین خطاب میں جب یہ مطالبہ کیا کہ کم از کم چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات جانچ لیے جائیں تو چودھری نثار علی خاں نے کہاتھا : چار کیوں ، وہ چالیس حلقوں کا جائزہ لینے کے لیے آمادہ ہیں اور ایک عدد کمیشن قائم کر دیا جائے گا۔ تین ہفتے گزر چکے ، وہ کمیشن کہاں ہے ؟ اس سے بھی پہلے یہ کہ کمیشن کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ نادرا کی مدد سے وہ اپنا کام نمٹائے ۔ یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیںآتی کہ شفقت محمود تو نون لیگ کے نسبتاً نیک نام امیدار کو ہرادیں‘ عمران خاں ایاز صادق سے شکست کھا جائیں ، جوتین میں ہے نہ تیرہ میں۔ پانچ سال تک قومی اسمبلی کا ممبر رہنے کے باوجود، عوام کی اکثریت جس کے نام تک سے واقف نہیں تھی۔ اسی حلقے میں تحریکِ انصاف کا صوبائی اسمبلی کا امیدار جیت گیااو ریا للعجب، وہ امیدوار جو قاف لیگ سے نئی جماعت میں وارد ہو اتھا۔ پارٹی کے کارکن عمران خان کے لیے زیادہ سرگر م رہے ہوں گے یا ان صاحب کے لیے ؟ خواہ وہ کتنے ہی قابلِ قبول اور مستعد کیوں نہ رہے ہوں ۔ شک تو اسی سے پیدا ہو گیا تھا کہ اس حلقے کا نتیجہ اگلے دن تک لٹکایا جاتا رہا۔ آخر کس لیے ؟ پھر اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں دیتا کہ شب گیارہ بجے ہی میاں محمدنواز شریف نے اپنی فتح کا اعلان کیسے کر دیا تھا؛حالانکہ چندہی حلقوں کے نتائج سامنے آئے تھے ۔ اگر یہ انصاف کا قتل نہیں تو اور کیا ہے اور اگر سپریم کورٹ اس کا نوٹس نہیں لیتی تو کس چیز کا لے گی ؟ حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان انتخابی نتائج تسلیم کرنے اورحکومت کے ساتھ تعاون کا اعلان کر چکے ۔ اس کے باوجود جن کا کام نگہبانی ہے، وہ لمبی تان کر سوئے پڑے ہیں ۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ کیا اس کے باوجود جمہوریت پر عوام کا اعتماد باقی رہ سکے گا؟ پھر وہ تخریب یا تشدد کی طرف مائل ہوں تو کیا تنہا وہی ذمّے دار ہوں گے ؟ میاں محمد نواز شریف کے حالیہ دورۂ چین کے حوالے سے بھی بہت سے سوالات اٹھے ہیں ۔ کیا ہمارا میڈیا اور عدالتیں صرف پیپلز پارٹی ہی کا احتساب کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں، نون لیگ کانہیں ؟ اوّلین مسئلہ نندی پور کے بجلی گھر کا ہے ۔ کہا جاتاہے کہ پیپلزپارٹی کے ایک وزیر نے قانونی سقم نکال کر اس منصوبے پر کام روک دیا تھا؛ چنانچہ کمپنی ناراض ہو گئی ۔ میاں شہباز شریف نے ان لوگوں سے مذاکرات کیے اور پھر سے کام شرو ع کرنے پر آمادہ کر لیا ۔ بہت اچھی بات ! دو تین سال کے عرصے میں منصوبے کی لاگت مگر 22سے 57ارب کیسے ہو گئی اور اس قدر برق رفتاری سے اس کی منظوری کیونکر دے دی گئی ؟ بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر مشینری نصب ہو چکی ہے اور تھوڑا سا کام باقی ہے ۔ لاہور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے سابق سربراہ نے اس سلسلے میں ایک خط چیف جسٹس کے نام لکھا ہے ۔ جواب میں مگر سکوت اور سناٹا ہے ۔ کہا جاتاہے کہ چین روانہ ہونے سے پہلے ہی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے تجویز کی منظوری لے لی گئی تھی‘ وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے اسحٰق ڈار جس کے سربراہ ہیں ۔ وہی اسحٰق ڈار جو شریف خاندان کا حصہ ہیں‘ عدالت میں دئیے گئے جن کے اعترافی بیان کے مطابق وہ ان کے لیے منی لانڈرنگ کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔ بتایا گیا ہے کہ تجویز کے محرّک احسن اقبال تھے ، شریف خاندان میںجن کی سیاسی حیثیت خانہ زاد کی ہے اور جو ان کے اشارۂِ ابرو پر بروئے کار آتے ہیں۔ واویلا ہوا تو انہی کو تفتیش سونپ دی گئی ۔ سبحان اللہ‘ سبحان اللہ!مرحبامرحبا! پیپلز پارٹی سے تو کوئی امید ہی نہیں کہ چھلنی چھاج سے خوف زدہ ہے ، تحریکِ انصاف کو کیا ہوا؟ کیا یہ لوگ اخبار بھی نہیں پڑھتے ، ٹی وی بھی نہیں دیکھتے ؟ کب تک وہ سیاسی نابالغوں کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے ؟ کب انہیں ادراک ہو گا کہ اپوزیشن کی اہم ترین پارٹی کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری کیا ہے ؟ ایک نہیں ، کئی لطیفے ہیں ۔ اعلان ہو اکہ اخبار نویس وزیر اعظم کے ساتھ نہیں جا سکتے‘ مگر ہوا یہ کہ ایک کی بجائے دو جہاز چین پہنچے۔ ایک میں وزیراعظم ، ان کی اہلیہ محترمہ ، شہباز شریف، صاحبزادے حسین نواز ، طارق فاطمی اور عملے کے چند اور ارکان ۔ دوسرے میں میاں محمد منشا ، شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز اور چند دوسرے لوگ۔ اول تو اس تماشے کی ضرورت کیاتھی ، سب لوگ ایک ہی جہاز میں جاتے۔ دوسرے وزیراعظم کاپورا خاندان کیوں لے جایا گیا ، جب کہ دونوں صاحبزادے کاروبار فرماتے ہیں اور اس دورے میں زیادہ تر کاروباری کمپنیوں سے بات چیت ہوئی ۔ پھر میاں محمد منشا ، نواز شریف کے اوّلین دور میں جنہیں مسلم کمرشل بینک بخشا گیا۔ افواہیں اب یہ ہیں کہ اب کی بار پی آئی اے عنایت کی جائے گی اور بجلی کے سمارٹ میٹرز کا منصوبہ بنا تو ان کے سپرد کیاجائے گا؟ چیف جسٹس کہہ چکے کہ دونوں حکومتوں میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ اگر ایسا ہے تو عدالت کا ردّعمل بھی وہی ہونا چاہیے۔ قوم چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہی ہے ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ الزامات غلط ہیں تو ان کی نیکو کاری پہ عدالت کی مہر لگنی چاہیے۔ خاموشی کا کیا مطلب؟ تجزیوں اور تقاریر سے نہیں ، معاشرے طرزِ عمل کے تغیّر سے نمو پذیر ہوتے ہیں ۔ اگلے چند ہفتوں میں آشکار ہو جائے گا کہ کیا ہمارے حصے میں فقط گل رنگ وعدے ہی آئے ہیں ؟ آثار بہرحال اچھے نہیں، بالکل اچھے نہیں: ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا