قیادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا اگر یکسوئی نصیب نہ ہو او ریکسوئی پیدا نہیں ہو سکتی ، اگر دلوں میں خوف چھپا ہو ۔ شریف حکومت کے لیے مہلت موجود ہے مگر مہلت کبھی دائمی نہیں ہوتی ۔ جہاں تک 1992ء کے فوجی آپریشن کا تعلق ہے ، یہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز کا فیصلہ تھا۔ سول حکومت کی تائید اسے حاصل نہ تھی ؛لہٰذا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ جون 1995ء سے شروع ہونے والی کارروائی کے بارے میں بھی ایم کیو ایم کاموقف یہی ہے کہ وہ صریح ظلم اورنا انصافی پر مبنی تھی۔ اس کے ہزاروں بے گناہ کارکن مارے گئے۔ ان کارکنوں کی فہرست کبھی شائع نہ کی گئی ۔ آزادی کے بعد بھی عدلیہ کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا گیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل نصیر اللہ بابر اپنے اللہ کے پاس جا چکے ۔ ڈاکٹر شعیب سڈل زندہ سلامت ہیں اور انٹیلی جنس کے وہ افسر بھی ، جو اس کارروائی کے ذمہ دار ہیں ۔ اگر وہ خطاکار ہیں ، کسی جرم کے مرتکب تو عدالتوں کے دروازے اب بھی چوپٹ کھلے ہیں ۔ جون 1995ء میں ڈاکٹر شعیب سڈل کو ایوانِ صدر بلایا گیا تو برّی فوج کے سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ اور وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بھی موجود تھیں ۔ ڈاکٹر صاحب اقوامِ متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل چن لیے گئے تھے اور ایک آسودہ زندگی کا خواب دیکھ رہے تھے ۔ صدر فاروق لغاری نے دونوں لیڈروں کی موجودگی میں اصرار جاری رکھا تو بالآخر مان گئے۔ صرف ایک شرط انہوںنے عائد کی ۔ صدر ، وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ سمیت، کوئی شخص ان کے کام میں مداخلت نہ کرے گا۔ انٹیلی جنس کے جن افسروں کو ذمہ داری سونپی گئی ، ان میں سے بعض اب بھی برسرِ ملازمت ہیں وگرنہ میں ان کا نام لکھتا۔ فرائض سنبھالنے سے پہلے عمرہ کرنے کے لیے وہ حجازِ مقدس گئے ۔ دربارِ رسولؐ پر رحمتِ پروردگا رکی دعا کی اور یکسو ہو کر لوٹ آئے۔ باقی تاریخ ہے ۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں رنجیدہ ہو کر پوچھتے ہیں : کوئٹہ ایک چھوٹا سا شہر ہے ۔ قدم قدم پر فرنٹئیر کور کے ناکے ہیں ۔ اس کے باوجود آئے دن ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے و الے بے گناہ کیوں خاک و خون میں لوٹائے جاتے ہیں ۔ اس سوال کا دو ٹوک جواب یہ ہے : اس لیے کہ کوئی ایک شخص ذمہ دار نہیں ۔ فوج ہے ، فرنٹئیر کور اور پولیس۔ ہر کوئی دوسرے کو قصوروار ٹھہراتا ہے۔ گذشتہ صدی کے اوائل کالند ن ہو یا 1980ء اور 1990ء کے عشرے کا نیو یارک ۔ آئرلینڈ یا ترکی ، جہاں بھی اس انداز کی دہشت گردی نے جنم لیا ، مقابلہ ہمیشہ پولیس نے کیا۔ ایسے انٹیلی جنس اداروں کی مدد سے، جن کے افسر ایک والہانہ قومی جذبے سے اپنا فرض اد اکرنے کے لیے تیار ہوں ۔ اگرچہ مرکز کی امداد اہمیت رکھتی ہے مگر بنیادی طور پر یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ بلوچستان میں ممکنہ حد تک موزوں حکومت قائم ہو چکی ۔ اب عنان اس کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ کوئٹہ شہر کو ایک پولیس افسر کی ضرورت ہے ، جو قانون قاعدے کا پابند ہو اور ضرورت پڑنے پر آنکھیں ماتھے پر رکھ سکتا ہو ، ڈاکٹر شعیب سڈل کی طرح ۔ 2008ء کا الیکشن تمام ہوتے ہی پولیس کو کوئٹہ شہر اور اس کے نواح تک محدود کر دیا گیا تھا۔ اس وقت لیویز کی تربیت اور عمارتوں کی تعمیر پر دس ارب روپے خرچ کیے جا چکے تھے ۔ اس مذاق کو اب ختم ہونا چاہیے اور معاملات وزیراعلیٰ کو براہِ راست اپنے ہاتھ میں لینے چاہئیں۔ دنیا کا کون سا ملک ہے ، جہاں ایسی خطرناک صورتِ حال میں ،جب دشمن ممالک فسادیوں کی پشت پر کھڑے ہوں ، قبائلی لیویز کے ساتھ امن قائم ہوا ہے ۔ ڈاکٹر عبد المالک انتظامی صلاحیت رکھتے ہیں اور اخلاقی جرأت بھی ۔ ان کی خدمت میں استدعا ہے کہ لیڈر وہ شخص ہوتاہے ، جو مشکل حالات میں ذمہ داری قبول کرنے پرآمادہ ہو۔ یہ کیا تماشا ہے کہ فرنٹئیر کور والے صوبائی حکومت کو اور صوبائی حکومت ایف سی کو ذمہ دار ٹھہراتی رہے۔ حکومت ایک ہوتی ہے لیڈر بھی ایک ۔ بے عملی کی بنیاد تذبذب پر ہوتی ہے اور متذبذب لوگ کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں کرتے ۔ لبنان کے فلسفی خلیل جبران نے کہا تھا : جو بے دلی سے کشید کرتاہے ، بادہ نہیں، وہ زہر کشید کرتاہے ۔ Chain of command ایک بنیادی حقیقت ہے اور بلوچستان میں اس حقیقت سے انحراف کیا جا رہا ہے ۔ بلوچستان پولیس کی تطہیر ہونی چاہیے مگراندھا دھند نہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری دفاتر میں فسادیوں کے کچھ کارندے موجود ہیں ۔ ان کا سراغ لگایا جا سکتاہے ۔ ان لوگوں کو عبرت کا نشان بنانے میں تامل نہ ہونا چاہیے۔ کراچی کی بات دوسری ہے ، جہاں وزیرا علیٰ قائم علی شاہ کا از سرِ نو تقرر اس امر کا اشارہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت مسئلہ حل کرنے میں ہرگز کوئی دل چسپی نہیں رکھتی ۔ ان صاحب کا حال یہ ہے کہ لیاری سے مہاجرت شروع ہوئی تو شرمندہ ہونے کی بجائے ، انہوںنے یہ کہا کہ میڈیا چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتاہے ۔ کیا کوئی مہذب معاشرہ اس طرح کے حکمران گوارا کر سکتاہے ؟ اگر ان میں احساس کی ایک رمق بھی ہوتی تو خود ہی مستعفی ہو جاتے ۔ عدالتِ عظمیٰ قرار دے چکی ہے کہ فلاں فلاں پارٹیوں کے مسلّح ونگ موجود ہیں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ؟ تاویلات کیوں ہیں؟ بظاہر ایسا نظر آتاہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت کوئی اقدام کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتی۔ حالات یہی رہے تو بالآخر گورنر راج نافذ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ سب جانتے ہیں کہ قانون کا بلا امتیاز اطلاق ہی جرم کے خاتمے کا واحد نسخہ ہے ۔ یہاں مگر تقاریر ہیں اور داستانیں! قصے، کہانیاں اور تاویل در تاویل۔ دہشت گردی کے باب میں سب سے زیادہ تذبذب کا شکار خود وزیر اعظم ہیں ۔ اب یہ واضح ہے کہ حکومت سنبھالنے سے پہلے انہوںنے اس مسئلے پر پوری طرح سوچ بچار نہیں کیا تھا مگر تابہ کے؟ کب تک معاملات کو وہ موخر کر سکتے ہیں ۔ صوبہ سرحد میں برسرِ اقتدار تحریکِ انصاف کا حال بھی یہی ہے ۔ عمران خان کو اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ دہشت گردی کے باب میں ان کا موقف درست نہ تھا مگر علی الاعلان اعتراف کرنے سے گریزاں ہیں۔ طالبان سے وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں مگر کن طالبان سے؟ عمران خودتسلیم کرتے ہیں کہ وہ درجنوں گروہوں پر مشتمل ہیں ۔ پھر کس سے وہ بات کریں گے ؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی طالبان کبھی اتنے کمزور نہ تھے ، جتنے اب ۔ اکّا دکّا دھماکے وہ ضرور کر سکتے ہیں مگر کمر ان کی ٹوٹ گئی ہے ۔ سرزمینِ شام کی طرف ان کے فرار کا ایک سبب یہ بھی ہے ۔یہ بھی کہ امریکہ ، سعودی عرب اور قطر ایسے ممالک نے سینیٹر مشاہد حسین کی اصطلاح میں ’’دیگوں کے منہ‘‘کھول رکھے ہیں ۔ موزوں حکمتِ عملی اختیار کی جائے تو زیادہ سے زیادہ دو سال کے عرصے میں ملک کو امن نصیب ہو سکتاہے ۔ ایک ذمہ دار بھارتی افسر کی طرف سے اس انکشاف کے بعد کہ پارلیمنٹ اور ممبئی شہر کے حملوں کا بندوبست خود بھارتی حکومت نے خفیہ طور پر کیا تھا، وزیراعظم خاموش کیوں ہیں؟ اگر ایک قوم کا لیڈر اس حال میں بھی تذبذب کا شکار ہوتو کیا عرض کیا جائے۔ شہباز شریف کا وہ بیان یاد آتاہے، جب طالبان سے انہوں نے استدعا کی تھی کہ وہ پنجاب پر حملے کرنے سے گریز کریں۔ دو بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف اپنی گذشتہ ناکامیوں کے لیے دوسروں کو ذمہ دار قرار دیتے رہے ۔ اب کی بار کیا کریں گے؟ قیادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا اگر یکسوئی نصیب نہ ہو او ریکسوئی پیدا نہیں ہو سکتی ، اگر دلوں میں خوف چھپا ہو ۔ شریف حکومت کے لیے مہلت موجود ہے مگر مہلت کبھی دائمی نہیں ہوتی ۔