بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا اے سرزمینِ پاکستان! تیرے وہ آزادفرزند کہاں ہیں ؟ حمیّت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے ؟ تصور کیجئے کہ اگر وہ واقعہ پاکستان میں پیش آیا ہوتا جو بھار ت میں رونما ہوا تو بھارتی میڈیا نے کس طرح چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹھالیا ہوتا۔ کوئی بعید نہیں کہ دہلی نے اقوامِ متحدہ سے رجوع کر لیا ہوتا کہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے ۔ اس کی پارلیمنٹ میں ایک ہنگامہ برپا ہوتا اور اس کے سفارت کار دنیا بھر میں ایک ایک دروازہ کھٹکھٹا رہے ہوتے ۔ حیرت ہے کہ جماعتِ اسلامی کے سوا ، سبھی کو سانپ سونگھ گیا ہے ۔ سب کے سب منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں ، گویا یہ واقعہ دنیا کے کسی اور خطۂ ارض میں رونما ہوا ہے اور ہمارا کوئی تعلق ہی اس سے نہیں ۔ ایک ذمہ دار بھارتی افسر نے انکشاف کیا اور برملا کیا کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا واقعہ دراصل ایک ڈرامہ تھا ، جس کامقصد پاکستان کو بدنام کرنے کے علاوہ ایسے قوانین کی منظوری حاصل کرنا تھا جو شورش پسندوں کے خلاف حکومت کو سخت اقدامات کے مواقع دے ۔ یہی نہیں ، ممبئی کے قتلِ عام کا واقعہ بھی، جس میں ایک سو سے زیادہ شہری ہلاک کر دیے گئے‘ جس کے فوراً بعد بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کاعمل معطل کر دیا۔ وہ واقعات جن کے نتیجے میں اول ایک کشمیری افضل گورو اور پھر ایک پاکستانی اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی ۔ بارہ برس تک دنیا بھر میں پاکستان کی کردار کشی کی جاتی رہی کہ وہ دہشت گردوں کے گروہ پالتا اور پڑوسی ممالک میں فساد پھیلاتاہے ۔ امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن سمیت کتنی ہی ممتاز عالمی شخصیات نے بھارتی سرزمین پر کھڑے ہو کر پاکستان کی مذمت کی ۔ برطانوی وزیر اعظم نے یہاں تک کہہ دیا کہ آئندہ اس ملک کو دہشت گردی برآمد کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی ۔ وہ سب اب کہاں ہیں اور پراسرار طور پر خاموش کیوں ؟ اس سے پہلے اور اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف ، جو خود کو قائداعظم ثانی کہلانا پسند کرتے ہیں ، کیا اسی ملک کے وزیر اعظم ہیں ؟ ان کے سکوت اور سناٹے کا سبب کیا ہے اور وہ کچھ کہہ کیوں نہیں رہے؟ شہباز شریف کہاں ہیں ، جو خود کو حب وطن کا اجارہ دار بنا کر پیش کرتے ہیں ؟ خواجہ سعد رفیق کہاں ہیں ، جو اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ پاکستان کے دوران اچھلتے پھر رہے تھے۔ وزارتِ اطلاعات پنجاب کے دفتر میں انہوںنے اودھم مچا رکھاتھا کہ ان کی طرف سے بھارتی نیتا کے لیے خیر مقدمی بیان کیوں جاری کیا گیا ۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر بار بار وہ کہتے تھے : میں اس کی تاب نہیں رکھتا اور اپنا ہی نہیں ، دوسروں کا گریبان بھی چاک کر دوں گا: ؎ جز قیس کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا مگر بہ تنگیِٔ چشمِ حسود تھا ایسی بے حسی ؟ صاحب ایسی بے حسی ؟ عمران خان کہاں ہیں ؟ شیر کا وہ شکاری ، ناک پر جو مکھی نہیں بیٹھنے دیتا؟ مانا کہ وہ انگلستان میں ہیں مگر کیا اب تک خبر ان تک نہیں پہنچی ؟ انہیں کوئی ملال اس کا نہیں کہ پیہم اور مسلسل ان کے ملک کی تذلیل کی جاتی رہی؟جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کیوں گنگ ہیں ؟ پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کی ایک ذرا سی غلطی معاف نہ کرنے والے محمود اچکزئی کہاں ہیں ؟ ایم کیو ایم اور اے این پی والوں سے تو خیر کوئی امید ہی نہ تھی اور نہ مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ العالیٰ سے ، ایک بھارتی دورے کے ہنگام جنہوںنے تجویز کیا تھا کہ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کے لیڈروں کی ایک کانفرنس بلا کر ہندوستان کو پھر سے یکجا کر دیا جائے۔ سید منور حسن کے سوا، جو تب پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے ، اس وقت بھی کوئی نہ بولا تھا۔ کیا یہ فقط بے حسی ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ روّیہ، جس کے لیے موزوں لفظ یقینا موجود ہیں مگر شائستگی کا تقاضا یہ ہے کہ اخبار میں نہ لکھے جائیں۔ قیامت ہے قیامت کہ کشمیری لیڈروں کی اکثریت بھی خاموش ہے۔ وہ اس بات پر رنجیدہ ہیں کہ مظفر آباد اور میر پور کے دوروں میں وزیر اعظم نے کشمیرکا ذکر تک نہ کیا۔ میر پور کے حالیہ اجتماع میں بیرسٹر سلطان محمود اور نون لیگ آزاد کشمیر کے لیڈر راجہ فاروق حیدر پہلی صفوں میں موجود تھے مگر میاں محمد نواز شریف نے آداب کو بالائے طاق رکھا‘ نہ صرف ان کا نام نہ لیا بلکہ ہاتھ ملائے اور الوداع کہے بغیر ہیلی کاپٹر میں سوار ہو گئے ۔ کشمیری عوام کی طرح ، ہم بھی ان کے دکھ میں شریک ہیں مگر اس سانحے پر، پاکستان کے خلاف ایسی مکروہ بھارتی سازشوں کے انکشاف پر تو واویلا کیا ہوتا ۔ کیا کوئی زندہ ہے یا سب کے سب مر گئے؟ اقبالؔ نے کہا تھا او رہزار بار پڑھا تھا لیکن سمجھ میں اب آیا: ؎ عاقبت منزل یا وادیٔ خاموشان است حالیہ غلغلہ در گنبدِ افلاک انداز آخر آخر کو شاید یہ ہوتاہے کہ احساس ہی مر جاتاہے‘ دل و دماغ میں تو کیا قیامت برپا ہو گی؟ زبان تک نہیں کھلتی ۔ فرانس کے اس نادرِ روزگار ادیب فرانزز فینن نے اپنی منفرد کتاب ’’افتادگانِ خاک‘‘ میں لکھا ہے : غلام کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ وہ اپنے آقا کے ذہن سے سوچنے لگتاہے ۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ کہ کچھ لوگوں نے حصولِ اقتدار کے لیے امریکہ ، برطانیہ اور عربوں سے سازباز کی اور مقامی مالدار طبقات کو ساتھ ملالیا کہ لوٹ مار کا کاروبار اسی شان و شوکت سے جاری رہے ۔ یہاں تو سب کا حال پتلا ہے ۔ یہاں تو سب کے سب سربسجود ہیں: ؎ یہ مصرعہ لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا افسوس ، صدر ہزار بار افسوس! وہ عظیم کالم نگار، وہ دانشور، ٹیلی ویژن کے وہ شیر کی طرح دھاڑنے والے میزبان کیا ہوئے؟ بات کرتے ہیں تو یوں لگتاہے کہ ہمالیہ اٹھا کر بحیرہ عرب میں پھینک دیں گے۔ ان میں سے جسے چند سطریں لکھنے کی توفیق ہے ، آئے دن اپنی بہادری کے قصے سنایا کرتاہے ۔ محاورے کے نابکار بیٹے نے کہا تھا: اماں ! میں تھانیدار بن گیا تو سب سے پہلے تیری خبر لوں گا۔ یہ وہی ہیں۔ اپنی فوج او راپنی ایجنسیوں کو گالی دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ اس پر داد کے آرزومند ہوتے ہیں کہ ہم سا بہادر دنیا میں کوئی نہیں ۔ ذہنی غسل سے گزرے ہوئے لوگ، دکھاوا کرنے والے سطحی، احساسِ کمتری کے مار ے ہوئے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب سے نجات دے ۔ اقبالؔؔ نے سچ کہا تھا: ؎ بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا اے سرزمینِ پاکستان، تیرے وہ آزادفرزند کہاں ہیں؟ حمیّت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے؟