جمہوری نظام کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا؟ افسوس کہ ہمارے حکمران ہی سب سے کم ادراک رکھتے ہیں، دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت! سوال یہ نہیں کہ چوہدری نثار علی خاں کراچی میں قیامِ امن میں مددگار ہو سکتے ہیں یا نہیں ۔ یقینا ہو سکتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری عزم رکھتے ہیں یا نہیں ۔ پھر یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ زرداری صاحب اگر سنجیدہ ہوتے تو کیا قائم علی شاہ کو پھر سے وزیر اعلیٰ بناتے ؟ اگر یہ دونوں رہنما کراچی کی رہائی کے آرزومند ہیں تو سندھ کا وزیراعلیٰ کوئی دوسرا شخص ہوتا ۔ لیاری سے کچھی برادری کی المناک ہجرت پر انہوںنے ارشاد کیا کہ اخبار نویس مبالغہ آرائی کے مرتکب ہیں ۔اسی طرح کسی جی حضوری کی بجائے ،میاں صاحب کو سندھ کی گورنری ایک ایسے شخص کو سونپنی چاہیے، جو قوتِ فیصلہ کا حامل ہو۔ اطلاعات کے مطابق سندھ کے آئی جی شاہد ندیم اور رینجرز کے سربراہ جنرل رضوان نے وزیرداخلہ کو بتایا ہے کہ امن کا حصول ممکن ہے ؛بشرطیکہ فساد پھیلانے والے گروہوں کے ساتھ یکساں سلوک کیاجائے۔ کسی کو رعایت دی جائے اورنہ ہدف بنایا جائے۔ وہ لوگ معاملے کو الجھانا چاہتے ہیں ، جو یہ ارشاد کرتے ہیں کہ بد امنی کا سبب ڈرگ مافیا ہے اور لینڈ مافیا۔ زمینوں پر قبضے جمانے اور منشیات بیچنے والے لوگ۔ فارسی میں کہتے ہیں : خوئے بدرا بہانہ بسیار۔ یوں بھی ہم سب جانتے ہیں مگر سپریم کورٹ ایک باقاعدہ فیصلے میں قانون شکنی کرنے و الوں کا تعین کر چکی ۔ چار جماعتیں ہیں اور نام لینے کی ضرورت نہیں ، جن کے مسلّح گروہ بروئے کار ہیں ۔ قانون کا نفاذ مقصود ہے تو ان سب کی بیج کنی کرنا ہو گی اور پوری بے دردی کے ساتھ ۔ وہ روند ڈالے گئے تو ڈرگ اور لینڈ مافیا بھی تحلیل ہوجائیں گی۔ ریاست اپنا حکم نافذ نہیں کر سکتی تو بالآخر وہ وقت بھی آتاہے، جب وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ، اگر وہ مجرموں کے لیے نرم روی کا مظاہرہ کرے ۔ اگر نون لیگ، جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف مسلّح ونگ تشکیل دیے بغیر سیاست کر سکتے ہیں تو باقی پارٹیاں کیوں نہیں ؟ جماعتِ اسلامی کے لوگ شہید ہوتے رہے مگر تشدد کی راہ اختیار کرنے سے انہوںنے گریز کیا۔ تصور کیجئے کہ اس جماعت نے اگر ہتھیار اٹھالیے ہوتے تو آج اس شہرکا عالم کیا ہوتا؟ مقبولیت کا عہد آیا تو تحریکِ انصاف ایک بے تکی اور بے سری پارٹی بن گئی ، جس کا کوئی لیڈر نہیں اور جو تنظیم سے محروم ہے ۔ اس کے باوجود کراچی میںاگر وہ پھلی پھولی اور ایم کیو ایم کا متبادل بن گئی تو ظاہر ہے کہ ہتھیاروں کے بغیر ہی ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مختلف علاقوں پر قبضہ جمانے کے لیے کون لوگ ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں ۔ یہ الگ بات کہ قانون نافذ کرنے کا وقت آتاہے تو سب فلسفہ بھگارنے لگتے ہیں ۔ کارِ حکمرانی فلسفہ آرائی نہیں ہے وگرنہ آدمیت کنفیوشس اور افلاطون ایسے لوگوں کو اقتدار سونپا کرتی ۔ یہ کارِ دگر ہے اور ان لوگوں کے سپرد کیا جاتاہے جو قانون نافذ کرنے کی قوت رکھتے ہوں۔ بڑے شہروں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ تین چیزوں کا اہتمام لازم ہوتاہے ۔ انفراسٹرکچر یعنی سڑکوں پلوں اور ضروری عمارتوں کی تعمیر ، پوری آبادی کے تمام بچوں کے لیے حصولِ علم کے مواقع اور ایک منظم اور سخت گیر پولیس۔ کراچی کی کچی بستیوں کو تعلیم اور سڑکوں کی ضرورت ہے ۔ کراچی پولیس کو تطہیر اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بہتر بنا کر انہیں مربوط کرنے کی۔ کس چیز نے لندن کو لندن بنایا ہے ، دنیا بھر سے دس لاکھ سیاح ہر روز جس کا رخ کرتے ہیں ۔ آج پانچ برس بعد قائم علی شاہ دہائی دیتے ہیں کہ کراچی میں پولیس کی تربیت ناقص اور اسلحہ کمتر ہے۔ دہائی کہاں دیتے ہیں ، اس طرح وہ بات کرتے ہیں ، جیسے کوئی راہگیر حادثے کا قصہ سناتا ہو ۔ بے حسی اگر یہ نہیں تو اور کیا ہے اور پیپلز پارٹی کا اجتماعی ضمیر کیونکر اسے گوارا کرتاہے ۔ مگر پیپلز پارٹی ہی کا کیا ذکر ، دوسروں کاحال مختلف تو نہیں ۔ برسرِ عام نہ سہی ، اس جماعت کے لیڈر کم از کم خلوت میں اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا اعتراف توکرتے ہیں وگرنہ ایسی جماعتیں بھی موجود ہیں ، جو خود کوپارسا بناکرپیش کرتی ہیں، درآں حالیکہ ان کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں ۔ کارِ حکمرانی میں میزان ایک ہوتاہے اور باٹ بھی ایک۔ اس سے انحراف ہو تو تباہی آتی ہے ۔ 1995ء کے موسمِ خزاں میں ، جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو مسلح کرنے کا ارادہ کیا تو یہ نکتہ ان کی خدمت میں عرض کیا گیا ۔ انہوںنے اس سے اتفاق کیا تھا۔ پھرزرداری صاحب آئے اور ذوالفقار مرز ا، پھر پیپلز امن کمیٹی وجو د میں آئی۔ قانون کے تمسخر کا آغاز معمولی واقعات سے ہوتاہے ۔ نرمی سے کام لیا جائے تو گھائو بڑھنے لگتا اور بالآخر ناسور ہو جاتاہے ۔ چالیس روزہ اقتدار میں ، اس حکومت کے دو بڑے سکینڈل سامنے آچکے ہیں۔ اوّل 1200سی سی ہائبرڈ کاروں پر ڈیوٹی کی معافی ۔ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار سے جب یہ پوچھا گیا کہ ایسی کاریں تو کوئی کمپنی بناتی ہی نہیں تو انہوںنے فرمایا کہ کارساز اداروں کو ترغیب دینے کے لیے یہ اقدام کیا گیا۔ یہ وضاحت ان کے ذمے ہے کہ 60ہزار گاڑیاں کو ن درآمد کرر ہاہے ۔ایک گاڑی پر منافع 5لاکھ ہوتو قومی خزانے پر یہ 30ارب روپے کا ڈاکا ہے ۔ نندی پور کا قصہ بالکل آشکار ہے اور حکمرانوں کے تیور اس نے واضح کر دئیے ہیں ۔منصوبہ بندی کمیشن کی مخالفت کے باوجود، اقتصادی رابطہ کمیٹی میں احسن اقبال یہ تجویز لے کر گئے کہ 22ارب کے اس منصوبے پر 57ارب خرچ کرنے کی اجازت دی جائے۔ سینیٹر اسحٰق ڈار کی صدارت میں برپا اجلاس نے منظوری دی۔ وزیراعظم اپنے برادرِ خورد، فرزندانِ گرامی اور اپنے صنعت کار دوست کے ساتھ چین تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے وہاں ایک کارنامہ انجام دیا ہے ۔ چینی کمپنی کو پھر سے بروئے کار آنے پر آمادہ کرلیا ہے ۔ وزیراعظم کو اس وقت کیوں خیال نہ آیا کہ گھپلا ہوا ہے ۔ اخبار نویس چیخے چلّائے تو انہوں نے ایک عدد کمیٹی قائم کردی ۔انصاف مطلوب ہے تو احسن اقبال، اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اس وقت تک اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دینا چاہیے، جب تک اس قضیے کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ الیکشن میں دھاندلی کا تنازعہ سلگتی ہوئی لکڑی ہے ۔ وزیرِ داخلہ نے اعلان کیا تھاکہ جائزہ لینے کے لیے کمیشن قائم کیاجائے گا ۔ وہ کمیشن کہاں ہے ؟ نادرا کے پاس انگوٹھوں کے نشان جانچنے کی صلاحیت موجود ہے تو برتی کیوں نہیں جاتی ؟ جیسا کہ عمران خان نے اشارہ دیا ہے ، عید کے بعد اگر ان کی پارٹی نے احتجاجی تحریک برپا کرنے کا فیصلہ کیا توکیا وہ ذمہ دار ہوں گے یا خود وزیراعظم ؟ یہ بھی یاد رہے کہ اگر اپنی روایت کے مطابق نون لیگ نے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کی کوشش کی تو نتائج تباہ کن ہوں گے ۔ بات بس اتنی ہے کہ قانون وہاں کارگر ہوتاہے ، جہاں حکمران خود اپنے آپ پر اسے نافذ کرتے ہیں ۔ یہ شہنشاہِ جہانگیر کا دور نہیں کہ بادشاہ خود تو نائو نوش میں مگن رہے اور مضافات کے قاضی تاڑی پینے والوں پر کوڑے برساتے رہیں ۔ جمہوری نظام کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا؟ افسوس کہ ہمارے حکمران ہی سب سے کم ادراک رکھتے ہیں، دوسروں کو نصیحت ، خود میاں فضیحت!