آسمان دور ہے اور خدا بے نیاز ہے مگر آسمان ایسا بھی دور نہیں اور خدا ایسا بھی بے نیاز نہیں ۔ جیسا کہ درویش نے کہا تھا : اہلِ ایمان کے لیے آسماں بھی رستہ ہے ۔ عمران خان کے مقدمے نے امریکی وزیرِ خارجہ کے دورے کو دھندلا دیا۔ ڈرون حملے بند کرنے سے امریکہ نے انکار کر دیا ہے اور غیر فوجی امداد میں اضافے سے۔ ادھر واشنگٹن میں کہا گیا کہ پاکستان افغانستان میں در اندازی کا مرتکب ہے ۔ بھیک کا کشکول ہاتھ میں ہو تو اور کیابرپا ہو ؟ جو قوم اپنی معیشت تعمیر نہیں کر سکتی ، خارجہ پالیسی بھی بنا نہیں سکتی۔ سیاسی لیڈروں کی باہمی چپقلش اور ان کا غیر ذمہ دارانہ رویہ، نازک ترین قومی امور پر بھی وہ متحد نہیں ہوتے۔ ٹیکس وصولی میں المناک مصلحت کیشی۔ وصولی کی شرح بھارت کی طرح 16فیصد ہو سکے تو سرکاری آمدن میں بیس ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ ہو۔ غیر ملکی امدا دسے ملک کو بے نیاز کر دے۔ اتنا ہی اہم امن کا حصول ہے کہ سیاسی استحکام کا ذریعہ بنتا اور معاشی سرگرمیوں کوفروغ دیتاہے ۔کیا شریف حکومت کو احساس اور ادراک ہے ؟بظاہر تو ہرگز نہیں ۔ کوئی چیلنج انسانی صلاحیت سے بڑا نہیں ہوتا ۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ انسانوں پر ان کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ ہم کیا، بھارت ،چین ، جاپان اور امریکہ ایسی عظیم معیشتیں طوفانوں سے دوچار ہوتی ہیں ۔ کمیونزم کی قید سے رہائی پا کر آزاد معیشت کی طرف سفر کرتے ہوئے ، روس دیوالیہ ہوگیا تھا۔ پورا معاشرہ بحران کو چیلنج کے طور پر قبول کر لے تو سویر نمودار ہونے لگتی ہے ۔ مہاتیر محمد کا ملائیشیا تباہی کے دہانے پر جا پہنچا تھا مگر وہ بچ نکلے ۔ بڑی طاقتوں اور آئی ایم ایف کی امدا د کے بغیر ہی ۔ پاکستانی معیشت بیمار ہے مگر ہمیں اس کی پروا ہی نہیں۔ ایک ہفتے میں روپے کی قدر چھ سات فیصد کم ہو گئی مگر ہم سوئے رہے ۔ رہے حکمران تو انہیں بس اپنے کاروبار کی فکر ہے ۔ اپنی اولادوں اور دوستوں کو وہ غیر ملکی دوروں پر ساتھ لیے پھرتے ہیں ۔ اپوزیشن اور میڈیا کو عمرا ن خاں کے مقدمے سے دلچسپی زیادہ ہے ۔ دو نکات واضح ہیں ۔ اوّل یہ کہ خان صاحب اور ان کی پارٹی کم از کم اس باب میں مظلوم ہیں ۔ ثانیاً ان کی حکمتِ عملی ناقص ہے اور بہت ناقص ۔ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے کا انٹرویواعلانِ جنگ تھا۔ ان کے حامیوں میں جوش کی ایک بے کراں لہر اٹھی ۔ محسوس ہوا کہ فعال طبقات کا ایک بڑا حصہ ان کی پشت پر کھڑا ہو جائے گا۔ حکومت کی کارکردگی ناقص ہے اور اتنے سکینڈل کہ قوم ناراض اور مایوس ہے ۔ خان صاحب اور ان کے ساتھی مگر ایک موزوں لائحہ عمل مرتب نہ کر سکے ۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ۔ ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوئی ۔ پنجاب اور سندھ بالخصوص کراچی میں تو من مانی اور قانون شکنی کی حد ہو گئی۔ الیکشن کمیشن ذمہ دار تھا اور کئی ریٹرننگ افسر ملوّث۔ امریکہ، برطانیہ اور بعض عرب ممالک نے ایک پارٹی کی سرپرستی کی۔ بظاہر عسکری قیادت بھی ذمہ دار ہے ، جس نے آنکھیں بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔ 2008ء میں جنرل کیانی نے سرکاری افسروں کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ خرابی کی اجازت نہ دی جائے گی ؛حالانکہ تب جنرل پرویز مشرف سر پہ مسلّط تھے۔ فوجی قیادت کہہ سکتی ہے کہ دھاندلی روکنا اس کی ذمہ د اری نہیں ۔ کیا ایک ایسے ملک میں ، جس کی سلامتی خطرے میں پڑی ہو اور غیر ملکی سازش پر تلے ہوں، اخلاقی ذمہ د اری بھی نہیں ؟ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے مگر ڈٹ جانے کے لیے سچ ضروری ہے اور پورا سچ۔ عمرا ن خاں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ پوری عدلیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ کم از کم تاثر یہی پیدا ہوا۔ مجھ ناچیز کی رائے میں انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ ریٹرننگ افسران کی ایک قابلِ ذکر تعداد مرتکب ہے؛ چنانچہ عدلیہ کی ذمہ د اری تھی کہ جلد از جلد ان کا احتساب کرے ۔ وہ یہ ذمہ داری پوری نہ کر سکی ۔ حامد علی خان کو وکیل نہ کرنا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ میںپیش ہونے والے قانون دان اور وکلا کے لیڈر کی حیثیت سے ان کی محدودات ہیں۔ پارٹی کے وہ نائب صدر رہے مگر وابستگی برائے نام تھی۔ 30اکتوبر 2011ء کے جلسے سے پہلے ، ٹی وی والوں سے کہہ دیا کرتے کہ ان کا تعارف پارٹی لیڈر نہیں بلکہ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کی حیثیت سے کرایا جائے۔ مقدمے کی کارروائی سے ایک دن قبل محترم جسٹس وجیہہ الدین احمد کا نقطہ نظر بہت غور سے سنا ۔ قانونی اعتبار سے درست اور جامع مگر ایسا لگا کہ معاملے کے سیاسی پہلوئوں پر انہوںنے غور نہیںکیا ۔ ان کا یہ میدان بھی نہیں ۔ ذہن میں ایک خیال یہ ابھرتا ہے کہ کہیں حامد علی خان کا انتخاب مفاہمت کی خاطر تونہیں ؟ اگر ایسا ہے تو عمران خان کو وہ شعلہ بار انٹرویو نہ دینا چاہیے تھا، جس میں ان کے اندر کا پرانا جنگجو انگڑائیاں لیتا نظر آیا۔یہ کوئی حتمی رائے نہیں مگر کبھی یوں لگتاہے کہ بلندی سے گرنے والے حادثے کے بعد کپتان کے باطن سے ایک مصلحت پسند ابھر رہا ہے۔ محسوس یہ ہوا کہ دلاور جنگجو اور مصلحت پسند سیاستدان میں گھمسان کا رن پڑ اہے ۔ تھک جاتے ہیں ، آخر کو سبھی تھک جاتے ہیں ۔ ان کے سوا ، جنہیں اپنا مقصد زندگی سے زیادہ عزیز ہو ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ! ٹی بی نے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا مگر بولتے تو یوں لگتا کہ آواز فولاد کے پیکر سے پھوٹ رہی ہے ۔مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں رشید صدیقی نے لکھا تھا ’’بولتے تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ابو الہول کی آواز اہرامِ مصر سے ٹکرا رہی ہے ، جیسے شاہجہاں کے ذہن میں تاج (محل) کا نقشہ ابھر رہا ہے یا جیسے کرپ کے کارخانے میں توپیں ڈھل رہی ہیں‘‘ یہ بات قائد اعظمؒ پر زیادہ صادق آتی ہے۔ آخری ایّام میں محمد علی جوہرؔ نے خود ایک بار کہا تھا: میرے پاس کیا لینے آئے ہو ، جناح کے پاس جائو ۔محمد علی جناح ؒکے ہاتھ میں الہٰ دین کا ایک چراغ تھا ۔ اس کا نام توکّل ہے ۔ عمران خان کو میں وہ جملہ یاد دلاتا ، جو ایک بار اس نے مجھ سے کہا تھا: انا کی قربانی دئیے بغیر کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جا سکتا۔ اب مگر وہ ایک دوسرا آدمی ہے ، خوشامدیوں میں گھرا ہوا اور جو ان میں گھرا ہو ،آسانی سے وہ یکسو ہو نہیںسکتا۔ عدلیہ کے بارے میں جو ناقص جملہ اس نے کہا تھا، اس کا اعتراف کرتا اور دھاندلی کو اصل موضوع بنادیتا۔ میں حیران ہوں کہ کیا اب بھی اس میں وہ ولولہ باقی ہے اور سینے میں ایمان کی وہی حرارت؟ ربِ ذوالجلال نے زمانے کی قسم کھائی اور ارشاد کیا : بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ جو ایمان لائے اور اجلے عمل کیے ۔ جنہوںنے حق اور صبر کی وصیت کی ۔خود اپنا احتساب کرنے اور پورا سچ بولنے والے کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔ ایسے لوگ تاریخ کا دھارا بدل دیا کرتے ہیں۔ سچائی کا راستہ وگرنہ ایک ناکامی کے بعد دوسری ناکامی ۔ ایک شکست کے بعد دوسری شکست اور ایک زوال کے بعد دوسرا زوال! آسمان دور ہے اور خدا بے نیاز ہے مگر آسمان ایسا بھی دور نہیں اور خدا ایسا بھی بے نیاز نہیں۔ جیسا کہ درویش نے کہا تھا : اہلِ ایمان کے لیے آسماں بھی رستہ ہے۔