فیصلہ ہوکر رہے گا۔ آج کے حکمران نہیں تو کوئی اور کرے گا۔ پھر وہ تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیئے جائیں گے۔ کتاب کہتی ہے : کتنے زمانے تھے جنہیں ہم نے ہلاک کرڈالا۔ فارسی کی کہاوت یہ ہے: نادان بھی بالآخر وہی کرتے ہیں، جو ہوش مند لیکن بہت خرابی اور خواری کے بعد۔ ہر کہ دانا کُند، کُند ناداں‘ لیک بعد از خرابیٔ بسیار۔ اس نادر روزگار ادیب کوئلو پائلو کا کہنا یہ ہے: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، بس سبق ہوتے ہیں۔ اگر ایک بار ہم سیکھ سکھیں تو بجا وگرنہ حیات ہمارے لیے انہیں دہراتی رہتی ہے۔ قول رسولؐ کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی اگر اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلے تو بے معنی تگ و تاز میں تھکا دیا جاتا ہے اور بالآخر ہوتا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہو۔ چالیس برس تک بنی اسرائیل صحرا میں بھٹکتے رہے تاآنکہ ایک پوری نسل پل کر جوان ہوگئی‘ پھر ان پر معمول کی زندگی کا در کھلا کہ ماضی کے ملبے سے چھٹکارا پا لیا تھا۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ایک تنکا اٹھایا اور زمین پر بہت سی لکیریں کھینچیں‘ ٹیڑھی میڑھی۔ پھر ایک سیدھی صاف لکیر۔ ارشاد فرمایا کہ بہت سے غلط راستے ہوتے ہیں اور ایک سیدھا سچا راستہ۔ ہر نماز میں کئی بار مسلمان سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں۔ ’’صراط مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی فرما‘‘۔ یہ صرف دہشت گردی کا مسئلہ نہیں۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر فیصلے میں قدرت کے قوانین کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے وگرنہ اضطر اب‘ ناکامی اور پیچیدگی۔ ایک مرض سے مزمن امراض کی طرف۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ خالق کائنات نے آسمانوں کو بلند کیا تو ترازو بھی اُتارا۔ کائنات کی بے کراں وسعتوں میں جہاں زندگی خیرہ کن تنوع میں برپا ہوتی اور اکثر الجھانے کی کوشش کرتی ہے، انصاف ہی امن اور اعتدال کی ضمانت ہے۔ فرمایا: کسی گروہ کی دشمنی تمہیں، ناانصافی پر آمادہ نہ کرے۔آدمی کو اگر فلاح اور نجات درکار ہو تو اسے تعصبات اور جذبۂ انتقام سے اوپر اٹھ کر سوچنا چاہیے۔ زیادہ اہم اصول زیادہ واشگاف الفاظ میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ ’’اے اہل دانش، تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘ اور یہ کہ ’’الفتنہ اشدّ من القتل‘‘۔ فتنہ قتل سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ میاں محمد نوازشریف کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بھی یقینا دہشت گردی سے نجات چاہتے ہیں۔ ان کے وطن اور ان کی اپنی سیاسی بقا کا اسی پر انحصار ہے۔ فرمان تو ان کا یہ ہے کہ فوج اورحکومت میں کوئی فاصلہ نہیں مگر ایک ہی دن دو مختلف شہروں میں خطاب کرتے ہوئے، جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیرداخلہ نے دو بالکل ہی مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کیے۔ جنرل نے جو بارہ برس سے معاملے کے ساتھ وابستہ ہیں، ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز، آئی ایس آئی کے سربراہ اور چھ سال سے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے‘ یہ کہا: یہ ہماری جنگ ہے۔ چودھری صاحب نے اپنے ہمیشہ کے گونجتے گرجتے انداز میں ارشاد کیا: یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔ ایک فوجی آمر نے، ایک ٹیلیفون کال پر یہ فیصلہ کیا تھا اور وہ جا چکا۔ چودھری صاحب کی غایت اگر یہ ہے کہ بارہ برس پہلے القاعدہ اور طالبان حکومت کے خلاف امریکی کارروائی میں تعاون کا فیصلہ غلط تھا تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس اثنا میں دریائوں میں بہت سا پانی بہت بہہ چکا۔ وہ دن اب لوٹ کر نہیں آسکتا، جب جبر کی یہ شادی ہوئی۔ اس جنگ کے بچے پیدا ہو کر جوان ہوچکے۔ یہ افغانستان میں امریکہ کے داخلے نہیں واپسی کی تیاریوں کا وقت ہے۔ اسد اللہ خان غالبؔ نے کسی اور ضمن میں‘ کسی اور سے کہا تھا، مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس دم میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں تین برس ہوتے ہیں، جب جنرل کیانی نے ایک اور پہلو سے مشورہ دیا تھا کہ تاریخ سے لڑا نہیں جاسکتا۔ ظاہر ہے کہ ماضی کو کسی طور تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ فقط اس سے سبق ہی سیکھا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت خود اس کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کی حکمت عملی سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر کیا روسیوں کے گھس آنے کا فیصلہ درست تھا؟ تیرہ لاکھ افغانوں کو قتل کرنے، تیرہ لاکھ کو اپاہج کرنے اور 75لاکھ سے زیادہ کو اندرون اور بیرون ملک مہاجرت پر مجبور کرنے کا؟ جنرل محمد ضیاء الحق کے اقدام کو 122اقوام کی تائید حاصل ہوئی ؛ اگر چہ ملک میں ان کے مخالفین مذمت اور واویلا کرتے رہے۔ پاک فوج کے بعض جنرلوں سے اس ناچیز کو بات کرنے کا موقعہ ملتا رہا ۔ فوجی قیادت اس بارے میں کسی ابہام کا شکار نہیں کہ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد امریکیوں نے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے منصوبے بنائے۔ وہ ناکام رہے۔ طالبان برسرِ اقتدار آئے تو بالآخر اس پر چڑھ دوڑے۔ نصف شب کی ایک طویل ملاقات میں پاک فوج کے سب سے ذہین جنرل نے ایک بار یہ کہا تھا: طالبان اگر نہ ہوتے تب بھی امریکی افغانستان پر قابض ہونے کی کوشش کرتے‘ اس کی تزویراتی اہمیت اور بہت قیمتی معدنیات کی وجہ سے۔ ایران کے ایک مختصر، ٹکڑے کے علاوہ، پاکستان اور افغانستان ہی میں جو فراوانی سے یہ پائی جاتی ہیں۔ پاکستان بھی اس لیے ان کا ہدف ہے ۔ نائن الیون کے المناک واقعہ سے پہلے ہی وہ افغانستان پر قبضہ کرنے کا فیصلہ فرماچکے تھے۔ میرا خیال یہ ہے کہ 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں اسی لیے امریکیوں نے اسلام آباد پر اپنی پسند کے حکمران مسلط کرنے کی کوشش کی ۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے کہ دو عالمی طاقتوں سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے افغانستان پر تسلط کی کوشش کی اور بے گناہوں کا خون بہایا‘ جہاں ٹائن بی کے بقول قوموں کی قسمت کے ستارے ڈوب جاتے ہیں۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ افغانوں کو مزاحمت کا پورا حق حاصل تھا۔ یہ ان کا وطن ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ صرف وہی کرسکتے ہیں۔ باقی ممالک ان سے فقط یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ کسی دوسرے ملک کی سلامتی کو ان کی سرزمین سے خطرہ نہ ہونا چاہیے۔ امریکیوں نے القاعدہ اور طالبان سے یکساں سلوک روا رکھنے کا جو فیصلہ کیا تھا، اب وہ اس پر پچھتا رہے ہیں۔ ملا عمر کے نمائندوں سے وہ بات کر رہے ہیں۔ اسی تصویر کا ایک اور رُخ یہ ہے کہ حکومت پاکستان سے جن کو اختلاف ہو، وہ سیاسی جدوجہد کے لیے آزاد ہیں۔ اس ملک میں شاید دنیا کا سب سے زیادہ آزاد میڈیا ہے۔ ٹی وی اور اخبار ہی نہیں، جلسے اور جلوس کی بھی آزادی ہے۔ پھر اسلحہ اٹھانے کا جواز کیا ہے؟ اس سے بھی زیادہ یہ کہ مارکیٹوں ، مساجد اور مزارات پر عام لوگوں کو بموں سے اُڑانے کا؟ فساد فی الارض کیا یہی نہیں؟ اور کیا کسی بھی طور اس کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ دو عفریت ہیں۔ ایک امریکہ‘ دوسرے دہشت گرد؛ لہٰذا حکومت اور قوم کے ہدف بھی دو ہی ہونے چاہئیں۔ افغانستان سے امریکہ کی واپسی اور پاکستان میں دہشت گردوں کا خاتمہ۔ چودھری نثار یہ کہتے ہیں کہ چار ممکنہ طریق ہوسکتے ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ عملی طورپر صرف ایک ہی راستہ کھلا ہے۔ پورے عزم اور مکمل یکسوئی سے دہشت گردوں کے خلاف ایسی مربوط کارروائی کا آغاز، جس میں اختتام سے پہلے دم نہ لیا جائے۔ تیاریاں مکمل کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ یہ ایک برس کی جنگ ہوگی۔ بڑی اور زیادہ منظم فوج‘ نسبتاً کم منظم گروہ کو ہرادے گی۔ اندازہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی اسّی فیصد کام مکمل ہوجائے گا۔ رہے مذاکرات تو یہ متوازی طورپر بھی ہوسکتے ہیں۔ صرف ان سے جو اسلحہ رکھنے اور دستور کی حدود میں بروئے کار آنے پر آمادہ ہوں۔ ملک کی رہائی خلط مبحث اور کنفیوژن سے نجات میں ہے۔ حکومت کے پاس، جسے ہرایک نے مان لیا ہے اور ہرایک کا تعاون جسے مل سکتا ہے، شاید صرف چند ماہ باقی ہیں۔ اگر وہ فیصلہ صادر نہ کرے گی تو نئی سیاسی قوتیں اُبھر سکتی ہیں یا کوئی اور حادثہ۔ کچھ بھی ہو فیصلوں کو تادیر مؤخر نہیں کیا جاسکتا ۔کسی کے لیے کبھی لامحدود مہلت نہیں ہوا کرتی ۔ کیسا عجیب وقت ہے کہ تقریباً تمام فیصلہ کن سیاسی قوتیں تاریخ کے چوراہے پر متذبذب کھڑی ہیں ۔ درست اقدام کرسکیں تو سرخروئی ان کے انتظار میں ہے۔ ایک دیوار کی دوری ہے قفس توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے فیصلہ ہوکر رہے گا۔ آج کے حکمران نہیں تو کوئی اور کرے گا۔ پھر وہ تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیئے جائیں گے۔ کتاب کہتی ہے : کتنے زمانے تھے جنہیں ہم نے ہلاک کرڈالا۔