"HRC" (space) message & send to 7575

جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ

لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ابدیت سفر کو ہے ، مسافر کو نہیں ۔حسنِ نیت ایک بیج ہے ، جو ہمیشہ اُگتاہے ۔ آدمی مایوسی کے کفر کا شکار نہ ہو تو امکانات کے ہزار دئیے روشن رہتے ہیں ۔ جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ جانے یزداں ہے منتظر کس کا؟ دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتاہے ، قرائن اچھے ہیں ۔ سلطان العارفین حضرت باہوؒ نے کہا تھا۔ دل دریا سمندروں ڈونگھے‘ کون دلاں دیاں جانے ہو ۔( دل کا دریا بحر سے گہرا، کون دلوں کی جانے )۔ نو منتخب وزیر اعظم اور رخصت کی تیاریاں کرنے والے سپہ سالار کے باہمی تعلقات کیسے ہیں ؟ کئی دن میں کھوجتا رہا ۔ کچھ دوست جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جانتے ہیں ، کچھ وزیراعظم کو ۔ وہ لوگ ، جو چاہتے ہیں کہ پائیدار بنیادوں پر دونوں اہم اداروں میں قربتیں پید اہو ں کہ استحکام کا انحصار اسی پر ہے ۔ درحقیقت تمام قومی اداروں کے تال میل میں‘ نغمہ تبھی اکائی بنتا اور جادو جگاتاہے ، جب سارے ساز ایک ہی آہنگ میں ڈھل جائیں ۔ پورے اطمینان کے ساتھ اب کہا جا سکتاہے کہ ماحول بہتری کی طرف گامزن ہے اور متواتر۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا تصور اسی خوشگوار فضا میں پھوٹا اور قرینے سے آگے بڑھا تو برگ و بار لائے گا۔ میرے پاس کافی معلومات ہیں۔ قومی سلامتی کے نازک معاملات پر مگر اخبار او رٹی وی میں بحث نہیں کی جا سکتی ۔ پاکستان ایسے طوفانوں میں گھرے ملک میں تو ہرگز نہیں ۔ تفصیل نہ پوچھ ہیں اشارے کافی یونہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں جو لوگ اس ملک کو تماشائیوں کی طرح دیکھتے ہیں یا جن کا پیشہ سنسنی فروخت کرنا ہے ، وہ شوق سے اپنا کاروبار جاری رکھیں ۔ کانگو سے امریکہ تک ، دنیا کے کسی ملک میں یہ تماشا نہیں ہوتا کہ شام ڈھلے کچھ ناتراشیدہ میزبان اور کچھ بے خبر مہمان ٹی وی پر بیٹھ جائیں ۔ افواہ اور خبر میں تمیز کیے بغیر بے لگام بولتے چلے جائیں ۔ بہتری کا آغاز الیکشن کے فوراً بعد میاں محمد نواز شریف کے ساتھ جنرل کی ملاقات سے ہوا ۔ ادنیٰ مفادات کے قیدی ، ذاتی وفاداری ثابت کرنے پر تلے ہوئے خوشامدی شوشے چھوڑنے سے باز آسکتے ہیں اور نہ غیبت سے۔ امید مگر یہ ہے کہ اب وہ کوئی گل نہ کھلا سکیں گے ۔ دونوں نے احتیاط کادامن تھام رکھا ہے ۔ زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے عسکری اور سیاسی قیادت کے طرزِ احساس اور اندازِ فکرمیں فرق ہے اور کہیں کچھ زیادہ بھی ۔ اتفاقِ رائے کی کوشش لیکن خوش دلی سے ہوئی ۔ جنرل کیانی نے طے کر لیا ہے کہ رائے مختلف ہوئی تو بھی منتخب وزیراعظم کے فیصلے کو دل وجان سے قبول کرلیں گے۔ ذمہ داری ان کی ہے اور قوم نے اختیار انہیں سونپا ہے ۔ اس موضوع پر اگرچہ قیاس آرائیاں جاری ہیں اور یہ سلسلہ نومبر کے دوسرے ہفتے تک جاری رہے گا کہ کیا جنرل کو دوسری بار توسیع دی جا سکتی ہے ؟ اپنے طو رپرلیکن انہوںنے فیصلہ کر لیااور حتمی فیصلہ کہ نہ صرف وہ توسیع قبول نہ کریں گے بلکہ کوئی دوسرا سرکاری منصب بھی نہیں۔ ایک ملاقاتی سے انہوں نے یہ کہا: کوئی چیز آدمی کی عزت سے زیادہ اہم نہیں ہوتی۔ اس سوال پر مسلسل وہ غور کررہے ہیں کہ سبکدوشی کے بعد کیا کریں ۔ شاید تاریخ میں باقی رہنے والی ایک کتاب کہ بہت کچھ لکھا نہیں جا سکتا مگر بہت کچھ لکھ ڈالنے کا وقت آپہنچا ہے ۔ خاص طور پر افغانستان اور دہشت گردی کے حوالے سے ۔ اس کے علاوہ دنیاکے اہم ترین اداروںمیں لیکچرز کا ایک سلسلہ ، اگرچہ ان دونوں موضوعات پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ اس آدمی نے نہیں کیا ، جو سوچتا بہت ہے لیکن جب ارادہ کر لے تو جما رہتاہے ۔ ایک دوست نے جب ان سے یہ کہا کہ ’’لیکچر…‘‘ تو دیر تک سننے اور بہت کم بات کرنے والا آدمی بیچ میں بول اٹھا ’’کیا کہا الیکشن؟ الیکشن لڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ اس نے وضاحت کی ’’جی نہیں، ’’لیکچر‘‘، میں ’’لیکچر‘‘کی بات کر رہا تھا‘‘۔ شاید ازراہِ تفنّن ان کے ایک دوست نے ، جس کا وہ بے حداحترام کرتے ہیں ، جنرل سے کہا : آپ کو اندازہ نہیں کہ اگر موزوں وقت پر آپ گوجر خان سے انتخاب میں حصہ لیں توفتح یقینی ہے ۔ جنرل نے فوراًانکار میں سر ہلایا اور یہ کہا :بالکل نہیں ۔ سنا تو دیر تک وہ جملہ میرے ذہن میں گونجتا رہا ، جو سرما کی ایک شب انہوںنے مجھ سے کہا تھا ’’سیاست سے مجھے ایک طرح کی کراہت ہے‘‘ جنرل اب خورسند بہت ہیں ۔ وہ اس پر بہت خوش ہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے چھ سال کا طوفانی عہد انہوں نے آبرومندی کے ساتھ گزار دیا۔ اس میں صدر زرداری کا عرصہ تو ظاہر ہے کہ نہایت اذیت ناک تھا، جس میں میمو گیٹ ایسا تنازعہ پید اہو ااور پانچ ہزار ایسے امریکیوں کو ویزے جاری کیے گئے،جن کے کوائف کا کسی نے جائزہ ہی نہ لیا۔ ایک نہیں ، ان میں کئی ریمنڈ ڈیوس تھے ۔ صدر پرویز مشرف کی صدارت کے آخری ایام بھی تلخ تھے ۔ ا س لیے کہ جنرل کیانی نے 2008ء کے الیکشن میں دھاندلی کا منصوبہ ناکام بنا دیا تھا ۔ ظاہر ہے کہ پرویز مشرف اس پہ خوش نہ تھے ۔ یہ شا ید جنرل کی زندگی کے بہترین لمحات میں سے ایک تھا مگر اس پر انہیں برطرف کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، سلیقہ مندی کے ساتھ جس سے نمٹ لیا گیا۔ دوسرا وہ تھا، جب اپریل 2010ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں تین سالہ توسیع کی پیشکش کی ۔ صاف صاف انہوں نے انکا رکردیالیکن گیلانی تلے ہوئے تھے ۔ صدر زرداری توسیع کے خلاف تھے اور ایک موقع پر انہوںنے یہ کہا تھا: Over my dead body۔ وزیر اعظم نے انہیں قائل کر لیا اور اس نقطے پر قائل کیا کہ وہ جانے پہچانے بھی ہیں اور قابلِ اعتماد بھی۔ جیسا کہ بعد میں یوسف رضا گیلانی نے کہا : منت سماجت کر کے ہم نے انہیں آمادہ کیا۔ صدر او روزیر اعظم گیلانی کو اس سلسلے میں جنرل کے ساتھ نصف درجن سے زیادہ ملاقاتیں کرنا پڑیں۔ گیلانی کا خیال یہ تھا کہ وہ ان کے احسان مند ہوں گے ۔ کس بات پر ؟ کیا انہوںنے التجا کی تھی ؟ پھر یہ کہ وہ ملک اور اپنے فرائض سے وفا کرتے یا ایک شخص کے ساتھ ؟ میمو گیٹ پر سپریم کورٹ میں اپنابیان داخل کرانے پر وزیر اعظم نے انہیں قانون اور آئین سے انحراف کا ذمہ دار ٹھہرایا تو جنرل نے کہا کہ وہ ثابت کریں یا اپنے الفاظ واپس لیں ۔ تیسرے ہی دن وزیراعظم نے وضاحت کی : میری مراد یہ نہیں تھی ۔ اب بھی ان کا اندازِ فکر یہی ہے کہ ملک کے لیے جو کچھ بن پڑے ، کر گزرنا چاہیے اورکسی چیز کو انا کا مسئلہ نہ بنانا چاہیے۔ تمام مسائل پر رائے انہوںنے دے دی ہے اور انہیں امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید بہتری آتی جائے گی ۔ فوج کا نیا سربراہ کون ہوگا؟ جنرل کی رائے بالکل واضح ہے ۔ سینیارٹی اور اہلیت کی بنیاد پر ۔ اختیار وزیراعظم کا ہے ؛اگرچہ نتائج نہ صرف ان کی ذات بلکہ پوری قوم پہ اثر اندا ز ہوں گے ۔ موجود میں سے بہترین چناجا سکتاہے ۔ یہ کوئی معمّہ نہیں ہے اور نہ ہی بہت دماغ سوزی کا مطالبہ کرتاہے ۔ سب کے کوائف سامنے ہیں ۔ ذاتی وفاداری کوئی چیز نہیں بلکہ اس کا تاثر دینے والا مشرف کی طرح خطرناک ہوسکتاہے ۔ ان میں جنرل کیانی جیسا بہرحال کوئی نہیں ۔ کوئی دن میں وہ کہہ سکیں گے ۔ ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن اب شہرمیں تیرے‘ کوئی ہم سا بھی کہاں ہے بہت دکھ ہم جھیل چکے ، بہت صدمے اٹھا چکے ۔ اللہ پاکستان اور وزیر اعظم پہ مہربان ہو ۔ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں ۔ حسنِ نیت ایک بیج ہے ، جو ہمیشہ اگتاہے ۔ آدمی مایوسی کے کفر کا شکار نہ ہو تو امکانات کے ہزار دئیے روشن رہتے ہیں۔ جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ جانے یزداں ہے منتظر کس کا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں