ووٹر با خبر اور حسّاس ہو گئے ۔کوئی جائے اور جا کر ان لیڈروں کوبتائے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں ۔ شعبدہ بازی اور جعل سازی کے زمانے لد گئے۔ مہلت موجود ہے مگر کچھ زیادہ نہیں۔ وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔ ناکامی بڑی شاندار چیز ہے ، اگر سبق سیکھا جائے ۔ کامیابی تباہ کرتی ہے ، اگر زعم میں مبتلا کردے ۔خیال آیا، ایک ہی بات گونگے بہروں کے لیے کتنی بار دہرائی جائے؟اللہ کے رسولؐ کا طریقہ مگر مختلف ہے ۔ اپنی خامیاں گنتے اور خود کو یاد دلاتے رہو۔ دوسروں کو بھی سوچ سمجھ کر سچا مشورہ دو۔صداقت اور صبرکا۔ قدرت کے قوانین کبھی نہیں بدلتے ۔ افراد ہوں یا اقوام ، ان کے مقدر میں اتنی ہی کامیابیاں ہوتی ہیں، جتنا ابدی قوانین سے وہ ہم آہنگ ہوں ۔ غلام احمد بلور نے فرمایا: 11مئی کو بھی میں عمران خاں کو ہرادیتا ۔ وہی خود فریبی !وہ جیت گئے اور کپتان نے انہیں مبارک باد دے دی ۔ یہ کافی تھا ، کچھ اچھل کودبھی جائز۔ دعویٰ مگر باطل ہوتاہے ۔ یہ جہالت سے پھوٹتاہے یا تکبر سے ۔حنیف عباسی نے کہا تھا: مخالف کی ضمانت ضبط کرادوں گا۔ اب روتا پھرتا ہے۔ چوہدری نثار نے کہ اسے جانتے اورسیاست کا فہم خوب رکھتے ہیں ، میاں نواز شریف سے کہا : میں اس شخص کو برداشت نہیں کر سکتا۔ تحریکِ انصاف دوسروں سے نہیں ، خود اپنے آپ سے ہاری ۔ این اے 1پشاور میں اس کے دو امیدوار تھے اور دونوں نے مجموعی طور پر بلور صاحب سے زیادہ ووٹ لیے ۔ امیدوار زیادہ سے زیادہ یونین کونسل کا ناظم بننے کا اہل تھا۔کل شب عمران خان اپنے دوستوں سے کہتے رہے کہ پرویز خٹک کی بات مان کر غلطی کی ۔ میانوالی میں کس کی مانی؟ جو مکّا جنگ کے بعد یا دآئے، وہ اپنے منہ پر مارنا چاہیے۔ تحریکِ انصاف کا زوال 30اکتوبر 2011ء کے بعد شروع ہوا ، جو اس کا نقطہ عروج بھی تھا۔ 2012ء کے آغاز میں وہ مقبول ترین پارٹی تھی ۔ پھر غلطیوں کا تباہ کن سلسلہ شروع ہو ا۔ پارٹی کے بے تکے الیکشن ، جس میں ووٹ خریدے گئے۔ مروّت ذاتی تعلقات میں ہوتی ہے ، اجتماعی حیات میں نہیں ، تجزیے میں نہیں اور مناصب سونپنے میں تو ہرگز نہیں ۔ بڑی تباہی 11مئی کو ٹکٹ جاری کرنے کے ہنگام ہوئی ۔ پارٹی الیکشن کی وجہ سے تاخیر پہ تاخیر ہوتی رہی ۔ معلومات جمع کرنے کا کوئی نظام نہ تھا ؛چنانچہ اعداد و شمار (Data)بھی نہیں۔ پارٹی لیڈ رکو خوشامدیوں اور ابن الوقتوں نے گھیر رکھا تھا۔ عمران خاں نے خود تسلیم کیا کہ 80 فیصد مقامات پر پولنگ ایجنٹ موجود ہی نہ تھے۔ غلطیاں نہیں ، مجرمانہ تساہل۔ بار بار فوج پر بے رحمی سے میں نے تنقید کی کہ ان کی اخلاقی ذمہ داری توتھی ۔ آخر کار انہوںنے مجھ سے رابطہ کیا اور یہ کہا : ہمیں تو الیکشن کمیشن نے اختیار ہی نہ دیا ۔ خوامخواہ ہم دخل دیتے تو شریکِ جرم ٹھہرائے جاتے۔ کیا وہ پارٹی ذمہ دار نہیں ، جومانتی ہے کہ اس کے پولنگ ایجنٹ غائب تھے۔ اب کی بار تحریکِ انصاف نے کون سا کدّو میں تیر مارا ہے؟ دو بنیادی وجوہات ہیں ۔ اوّل پارٹی کارکنوں کو ناراض اور مایوس کر دیا گیا ۔ثانیاًکراچی میں ایک پارٹی کے کارندے اس کی صفوں میں شامل ہیں ۔ تین تلوار کے مظاہرے میں دو گرفتار ہوئے ۔ نام معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ ایک صاحب بار بار مجھے پیغام بھیجتے تھے ۔ کل شام انہوں نے مجھے لکھا ’’میں عمران خان کے خلاف ہوں کہ میرا بیٹا شوکت خانم ہسپتال میں (ڈاکٹروں کی بے توجہی سے )مرا مگر مجھے بہت دکھ ہوگا اگر تحریکِ انصاف کے امیدوار جمعیت ، اے این پی اور ایم کیو ایم ایسے… سے ہار جائیں۔ اتناہی ، جتنا بیٹے کی موت کا‘‘ لکھتا رہا ، دہراتا رہا کہ بے شک لیڈربھی اہم ہوتے ہیں ، پارٹی کی اصل متاع کارکن اور ووٹر ہیں ۔ اعلیٰ کو دھتکار کر ادنیٰ لوگ اختیار کیے گئے ۔ جیسا کہ وجیہ الدین کمیٹی نے کہا کہ ٹکٹ بیچے گئے۔ میں نے ناراضی کا اظہار کیا تو کپتان بگڑا تھا اور بولا : تم مجھے حکم دے رہے ہو؟ کون سا حکم ؟ بات دلیل سے منوائی جاتی ہے یا انس و الفت کے ساتھ لیکن جب وہ خود پیشکش کر کے مکر گیا تو کیا اس پر احتجاج بھی نہ کیا جاتا؟خوشامد کا گرفتار، خدا کی پناہ‘ وہی سیف اللہ نیازی اور وہی عامر کیانی اب بھی پارلیمانی بورڈ میں شامل ہیں ۔ پشاور میں 95ہزار ووٹر گھروں سے نکلے اور انقلاب برپا کر دیا تھا۔ اب کی بار صرف 22ہزار ۔ ریلوے کو برباد کرنے والے بلور سے نہیں ، وہ اپنے آپ سے شکست کھا گئے ۔ تین صوبائی نشستیں قومی اسمبلی کی اس سیٹ سے منسلک ہیں ۔ ایک کے سوا سبھی میں ہندکو بولنے والوں کی اکثریت ہے ، بحیثیتِ مجموعی 60فیصد۔ پھر امیدوار کون چاہیے تھا؟ پشتون ہی سہی مگر ایسا ناقابلِ ذکر ؟ دوسری باتوں کو چھوڑیے، عائلہ ملک کس کی نورِ نظر ہے؟ میانوالی کے ڈرائیور محمد حسین نے تین دن پہلے کہا تھا : عمران ہمارا لیڈر ہے مگر سفاک کالا باغ خاندان کی حمایت ہم کیسے کریں؟ عدالت نے اس سے نجات دی تو ا س کے سسر کو ٹکٹ دے دیا۔ خود اپنے رشتہ داروں کو کس دلیل پر مسترد کیا تھا ؟ کل شب تحریکِ انصاف کے ایک لیڈر نے فون کیا ۔ اسلام آباد سے گاڑی گھر پہنچی مگر گفتگو تمام نہ ہو سکی۔ گاڑی سے اتر کر واک شروع کی، لباس بدلا، بستر پر لیٹ گئے مگر سلسلہ ء کلام باقی رہا۔ ایک ایک کرکے ساری غلطیاں اس نے گنوا دیں ۔ وہ واضح تھا، لیڈر کیوں نہیں ؟ پوچھا کروں کیا؟ کہا : کالم لکھو ۔ لیجئے ، لکھ ڈالا۔ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے اگر پارٹی کے کارکن چاہیں۔ بھینس کے آگے تو میں بہت دن بین بجا چکا۔ امید ہی ایمان کی سب سے بڑی علامت ہے ۔ کسی حال میں اس سے دستبردار نہ ہونا چاہیے۔ خدا کی کتاب یہ کہتی ہے کہ سب گناہ معاف ہوسکتے ہیں لیکن شرک اور نا امیدی نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ پر اظہارِ عدمِ اعتماد ہے۔ بھیانک غلطیوں کے باوجود تحریکِ انصاف دوسری بڑی جماعت بن گئی ۔ اب بھی خود احتسابی کر ے تو بچ سکتی ہے وگرنہ نئی پارٹی اٹھے گی ۔ تحریکِ انصاف کے لوگ سوچ رہے ہیں ۔ میں انہیں روکتا ہوں کہ ابھی اسے مہلت دو۔ سچ پوچھیے تو سبھی ہار گئے ۔ ایم کیو ایم اب پوری طرح کبھی بحال نہ ہوگی ۔ اے این پی ، پیپلز پارٹی اور مولوی صاحب بھی نہیں ۔ شہباز شریف کی اپنی سیٹ کھو گئی اور راجن پور میں نون لیگ کی دو نشستیں بھی ؛البتہ قوم نون لیگ کو مہلت دینے پر آمادہ ہے۔دینی بھی چاہیے۔ ووٹ ان کے بھی بہت کم ہوگئے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا متبادل ابھی نہیں ابھرا۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ پیر پگارا کے بھائی نے خفیہ ساز باز کر لی تھی ۔ نون لیگ کو کارکردگی دکھانا ہوگی۔ الیکشن نہیں ، حکمرانی میں وگرنہ خلا پیدا ہوگا ۔اس خلا کو تحریکِ انصاف نہ پاٹ سکی تو نئی پارٹی بنے گی ۔ اگر وہ بھی نہیں تو اللہ کرے میرا اندازہ غلط ہو ، مارشل لا کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ نواز شریف نے ایک نکتے کو پالیا ہے ۔ کب تک لاشیں اٹھائی جا سکتی ہیں؟ پھر یہ قوم کب تک کرپشن برداشت کرے گی، جواب تک جاری ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی جمہوری تشکیل کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ووٹر با خبر اور حساس ہو گئے ۔کوئی جائے اور جا کر ان لیڈروں کوبتائے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں ۔ شعبدہ بازی اور جعل سازی کے زمانے لد گئے۔ مہلت موجود ہے مگر کچھ زیادہ نہیں ۔وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔