"HRC" (space) message & send to 7575

اب کیا ہوگا؟

افغانستان میں امن درکار ہے تو ایک کم از کم قومی اتفاق رائے تشکیل دینا ہوگا۔ تبھی پاکستان میں بھی قرار آئے گا… اور انشاء اللہ ایک دن ضرور آئے گا۔ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در کشادِ او کشادِ آسیا (ایشیا پانی اور مٹی کا ایک پیکر ہے۔ ملّتِ افغان اس پیکر کا قلب۔ اس کے فساد سے ایشیا میں فساد۔ اس کی راحت میں ایشیا کی راحت) وہ ایک اور داستان تھی اور کبھی کوئی لکھ دے گا۔ یہ ایک اور کہانی ہے اور ابھی اس کا آغاز ہے۔ اگست 1988ء کے اوائل میں راولپنڈی کے گالف کورس میں دوڑتے ہوئے‘ 64 سالہ جنرل اختر عبدالرحمن اچانک رکے اور اپنے صاحبزادے ہارون اختر خان سے انہوں نے کہا ’’اب وہ ہمیں چھوڑیں گے نہیں لیکن جو کام ہمیں کرنا تھا‘ ہم نے کر ڈالا ہے‘‘… افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا اور اس سے جڑے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے لیے آنے والے دن کیا لائیں گے؟ کون جانے؛ البتہ باہم وہ پیوست اور ہم ان کے ساتھ بندھے ہیں۔ اکٹھے ہمیں تیرنا اور ایک ساتھ ساحل سے ہمکنار ہونا ہے۔ یہ ایک خاندان ہے اور ہزار برس سے ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا: پاکستان اس دن وجود میں آ گیا تھا‘ جب برصغیر میں پہلا آدمی مسلمان ہوا تھا۔ وقفے تو آتے رہے مگر اڑھائی سو سال تک‘ عربوں نے سندھ پر حکومت کی‘ پرلی طرف ایران کے راستے ان کا تعلق حجاز سے تھا اور دائمی تھا۔ دو ہزار برس ہوتے ہیں‘ جب ایرانیوں نے افغانستان‘ ایران کے بعض علاقوں اور طورخم سے ملتان تک پھیلے پاکستان کے موجودہ حصے کو خراسان کا نام دیا۔ سرکارؐ نے غزوہ ہند کے حوالے سے جو کچھ ارشاد فرمایا‘ وہ بالکل واضح ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ سب دوسری پیش گوئیوں کی طرح‘ ختم المرسلینؐ کی یہ بشارت بھی پوری ہو کر رہے گی۔ معتبر لوگوں سے کچھ واقعات سنے اور بچشمِ سر بعض خود بھی دیکھے۔ فرمایا: مکہ کے پہاڑ کھود ڈالے جائیں گے۔ دنیا بھر میں پہاڑ کاٹے جاتے ہیں‘ پھر مکّہ میں کھودے کیوں جائیں۔ پارکنگ کے لیے کئی کئی منزلہ تہہ خانے تعمیر کرنے کے لیے۔ شاہراہِ خالد بن ولید اور عزیزیہ میں‘ مسافر نے یہ مناظر دیکھے۔ فرمایا: عرب‘ سرسبز ہو جائے گا۔ 1995ء میں منی پلانٹ کی ایک بیل کے سوا مکّہ مکرمہ کبھی کچھ دکھائی نہ دیا۔ 2004ء میں منیٰ کی پہاڑیوں سے نیچے اترا تو سامنے لاہور کے گلبرگ کا سا منظر تھا۔ انہی دنوں جدّہ میں مقیم اپنے بھائی میاں محمد خالد حسین اور لندن سے آئے ہوئے برادرِ اکبر میاں محمد یٰسین کے ساتھ جدّہ میں تین دن گزارے۔ شام ہوتی تو سرخ سمندر کے ساحل پہ ہم چلے جاتے۔ ایسا لگتا کہ مری کے پہاڑوں سے بادل اتر کر وادی اور سمندر پہ پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ خالد صاحب نے کہا: تین عشرے قبل‘ ابو جندلؓ کے اس دیار میں فقط ایک درخت تھا۔ اس کے گرد حصار کھینچ کر بلدیہ نے ایک بورڈ لگا دیا تھا ’حدیقۃ الشعرا‘ شاعروں کا چمن۔ اب شجر شمار نہیں ہو سکتے۔ مدینہ منورہ میں شب اترتی تو ٹھنڈ سے حالت غیر ہونے لگتی‘ حالاں کہ سرما کا یہ آغاز ہی تھا۔ ایک دن نواحِ بدر میں ایک ٹیوب ویل دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ رحیم یار خاں کے سے نخلستان اور نواح میں چالیس ہزار کی آبادی کا نیا شہر! ایک معتبر پاکستانی استاد نے بتایا کہ ان کا مالک مکان ذاتی طور پر کرایہ وصول کرنے آیا تو دیکھا کہ پیر اس کے خالی ہیں۔ یہ بھی رسالت مآبؐ نے ارشاد کیا تھا: ننگے پائوں والے عمارتیں بنائیں گے… عالی شان! 45 سال کی عمر میں امیر المومنین ہارون الرشید ایران میں علالت کے ہاتھوں کھیت رہے‘ جو اب مشہد کہلاتا۔ کبھی ایک گائوں تھا۔ امام علی رضاؒکے مزار نے دور تک شہر بسا دیا ہے۔ ان سے محبت کرنے والوں نے۔ ہارون بغاوت فرو کرنے آیا تھا۔ وہ قیدی لائے گئے۔ ان میں سے ایک باغی جنگجو کا سگا بھائی تھا۔ اس سے امیر المومنین نے کہا: اللہ کی قسم‘ اگر تمہاری فوج ستاروں کے برابر ہو‘ تب بھی اسے میں پامال کر دوں گا۔ اس نے رحم کی التجا کی تو دنیا کے سب سے بڑے حکمران نے حقارت سے ٹھکرا دی۔ دوسرے نے اس پر یہ کہا: درخواست کیوں کرتے ہو‘ مارے گئے تو ہم شہادت کی عزت سے بہرہ ور ہوں گے۔ ہارون الرشید کی ایک ملکۂ‘ خیز ران کا تعلق اسی دیار سے تھا‘ مامون الرشید کی ماں۔ نجیب الطرفین عرب خاندانوں کی وارث زبیدہ بیگم حکم چلایا کرتی اور بادشاہ سلامت اس کے باب میں محتاط رہا کرتے۔ تین ہزار سال پہلے بختِ نصر کے زمانے میں بلادِ شام سے ہجرت کر کے دشوار گزار پہاڑوں میں آباد ہو جانے والے خراسان کے پشتون قبائلی ہمیشہ سرکش رہے۔ ادھر ازبک اور تاجک بھی۔ ازبک دریائے آموکے پار سے آئے تھے اور پشتون کہا کرتے ہیں ’’غضب افغان‘ رحم ازبک‘‘ برہم پٹھان رحم دل ازبک کے برابر ہوتا ہے۔ تاجک زیادہ تعلیم یافتہ مگر اتنے ہی سخت جان۔ احمد شاہ مسعود ان کا لیڈر تھا۔ ساری زندگی کبھی کسی سے دبا نہیں‘ دلیل کی زبان سنتا اور نہ محبت کی۔ 1992ء میں کابل آیا تو کہا کہ وہ اڑھائی سو سال کا قرض چکا دے گا‘ یعنی احمد شاہ ابدالی سے اب تک کے دور کا۔ وہی قبائلی عصبیت۔ اقبال ؔنے کہا تھا: ع کہستاں کی ہزار پارہ مسلمانی وسطی افغانستان کے تاتاری قبائل چنگیز خانی دور کی یادگار ہیں۔ کابل شہر میں طالبان بھی ان کے علاقوں میں داخل ہونے سے گریز کرتے۔ قبائل صدیوں پر پھیلے تاریخی عمل کے ذریعے جدید معاشرے میں ڈھلتے ہیں۔ سکندراعظم‘ چنگیز خان‘ ظہیر الدین بابر نے دیکھا۔ انگریزوں‘ روسیوں اور اب امریکیوں نے بھگت لیا۔ سخت گیر‘ مذہبی‘ غیر ملکیوں کے باب میں شکّی‘ حریت کیش‘ منتقم مزاج اور انفرادیت پسند۔ 27 دسمبر 1979ء کو روسی فوج کابل میں اتری تو امریکہ کے ایوان نمائندگان نے افغان امور کے ماہر لوئی دپری کو خطاب کی دعوت دی۔ محقق کی تقریر میں مؤرخ ٹائن بی کے فلسفے کی بازگشت تھی: یہاں قوموں کی قسمت کے ستارے ڈوب جاتے ہیں۔ ٹائن بی کو مغرب‘ فلسفۂ تاریخ کے اوّلین بڑے عالم ابن خلدون کا جانشین قرار دیتا ہے اور اس کا ہمسر بھی۔ جلد از جلد امریکی افغانستان سے نکل جانے کے آرزو مند ہیں۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ 2014ء کے بعد ان کے اڈے علاقے میں کس طرح استحکام کا باعث ہوں گے۔ صرف ایک ہی صورت ہے کہ پاکستان‘ ایران‘ روس‘ بھارت اور امریکہ سمیت‘ دلچسپی رکھنے والے تمام ممالک مداخلت اور مقابلہ بند کردیں۔ آپس میں بات چیت کریں اور افغانوں کے باہمی مذاکرات کی حوصلہ افزائی کریں۔ ابھی سے تیاری ہو کہ اپریل 2014ء کے الیکشن میں تمام افغان فریق شامل و شریک ہو جائیں۔ اس الیکشن کے منصفانہ ہونے پر ہی اس ملک کے مستقبل کا انحصار ہے۔ جنرل کیانی تو یہ بات جانتے ہیں اور یہ بھی کہ افغان فوج شاید تحلیل ہونے لگے… اور کتنے لوگ ان چیزوں کا ادراک رکھتے ہیں؟ طالبان سے مذاکرات بجا لیکن سرحد پار سے ان پر دبائو نہ رہا تو کوئی بڑی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ قیدی چھوڑے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف سے ردعمل مگر توقع کے مطابق خوش دلانہ ہرگز نہیں۔ حامد کرزئی بھارت سے سازباز کرتے ہیں۔ امریکہ سے لین دین۔ پاکستان سے بھی مگر اسے بلیک میل کرنے کی کوشش بھی۔ اپنا جانشین نامزد کرنے یا خود بادشاہ بنے رہنے کے آرزو مند۔ ارے بھائی! تمہارے دامن میں ہے کیا؟ امن درکار ہے تو ایک کم از کم قومی اتفاق رائے تشکیل دینا ہوگا۔ تبھی پاکستان میں بھی قرار آئے گا… اور انشاء اللہ ایک دن ضرور آئے گا۔ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در کشادِ او کشادِ آسیا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں