قرآنِ کریم کہتا ہے ، جب اُلجھ جائو تو اہلِ علم کے پاس جائو ، اہلِ ذکر سے پوچھ لو ۔ بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا دہشت گردی کے باب میں فوجی قیادت قصوروار ہے لیکن کیا ہم سب بھی نہیں ؟ کیا ہمارا روّیہ بنی اسرائیل کا سا نہیں ، جنہوںنے کہاتھا: موسیٰ ؑ اور اس کا رب لڑے ۔ کیا ذرائع ابلاغ نے اپنا فرض پورا کیا ؟رتّی برابر کسی کو پروا نہیں کہ ٹی وی چینل اور اخبارات کنفیوژن پھیلاتے اور قوم کا حوصلہ پست کرتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ دشمن اپنے پروپیگنڈے کے لیے انہیں استعمال کرتاہے اور علی الاعلان ۔ امریکی انتظامیہ کہہ چکی کہ بعض پاکستانی اداروں پر اس نے زر لُٹایا ہے۔ عدلیہ کے پاس جواز یہ ہے کہ پولیس ڈھنگ سے تفتیش نہیں کرتی ۔ جی ہاں ، بہت سے مقدمات میں نہیں کرتی لیکن جہاں اس نے کر دکھایا؟ سب جانتے ہیں کہ نچلی عدالتوں کا حال کتنا برا ہے ۔ ہائیکورٹ کے بعض جج بھی پہلو بچاتے ہیں ۔ گذشتہ برس پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کی تقریب میں اس ناچیز کے علاوہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک سبکدوش جج کو اظہارِ خیال کرنا تھا ۔کمالِ مسرّت سے انہوںنے بتایا کہ دہشت گردی کے کئی ملزموں کو انہوںنے رہا کیا۔ کیا پارلیمنٹ سرخرو ہے، جو اب تک ضروری قوانین مرتّب نہیں کر سکی؟ کراچی میں سب سے زیادہ اندیشہ صحافت سے ہے اور نچلی عدالتوں سے ۔ رینجرز جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر میدان میں اترتے ہیں مگر کوئی نہ کوئی چینل ہر روز اعلان کرتا ہے کہ وہ ناکام ہو گئے ۔ ابھی تو آغاز ہے ، ناکام وہ کیسے ہو گئے ؟ ملک کے سب سے قدیم انگریزی اخبار نے اداریے میں لکھا ہے کہ فوجی قیادت سول حکومت کی رہنمائی کرنے میں ناکام رہی۔ جنابِ والا! راستہ اُسے بتایا جاتا ہے ، جو منزل کا عزم رکھتا ہو ، اسے نہیں ،جو جنگل میں بھٹکنے یا پکنک منانے کا آرزومند ہو۔ میثاقِ جمہوریت کے ہنگام میاں محمد نواز شریف نے لندن میں کہاتھا : دہشت گردوں کے اصل مخالف ہم ہیں ، جنرل مشرف تو دکھاوا کرتے ہیں ۔ وطن پہنچے تو پیہم کنفیوژن کا شکار، خوف میں مبتلا۔ برادرِ خورد میاں محمد شہباز شریف نے بھرے جلسے میں طالبان سے استدعا کی کہ وہ پنجاب کو ہدف نہ بنائیں ۔ ان کے وزیرِ قانون رانا ثنا ء اللہ انتہا پسند تنظیموں سے تعلقات رکھتے ہیں۔ ڈرون حملوں کے سوا، جن پر میاں صاحب کا موقف آشکار اور درست رہا، کسی چیز پر وہ واضح نہ تھے ۔ یہ جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے ، جو الیکشن کے بعد خود ان کے پاس گئے ۔ جنرل کے بقول وہ کبھی کسی کو قائل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ اپنے اندازِ فکر سے سب نکات سامنے رکھ دیتے ہیں ۔ برسوں فوجی قیادت سول حکومت سے استدعا کر تی رہی کہ قومی سلامتی پالیسی وضع کرے ۔ زرداری صاحب کے ایوانِ صدر کا جواب یہ تھا کہ فوج لکھ ڈالے ، وہ دستخط کر دیں گے ۔ اس پر جی ایچ کیو نے خاموشی اختیار کر لی۔ میاں محمد نواز شریف نے معاملہ ہاتھ میں لیا اور کل جماعتی کانفرنس بلا کر مذاکرات کا فیصلہ کیا تو فوج نے اس پرصاد کیا۔ اس کے سوا وہ کیا کرے ؟ دیر کے سانحے پر ماتم برپا تھا۔ پیر کے دن مگر قومی اسمبلی کے اجلاس میں نون لیگ اور تحریکِ انصاف والوں سمیت سبھی منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے رہے ۔ جنرل کیانی کا بیان سامنے تھا کہ سیاسی کوشش اور مصالحت کو موقعہ دیا جائے گامگر فوج دہشت گردوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے ۔ وزیرِ داخلہ سے توقع تھی کہ وہ پالیسی بیان جاری کریں گے ۔وہ عمران خان اور محمود اچکزئی سے مشورہ کرتے رہے ۔پھر شہدا کے لیے فاتحہ پر اکتفا کیا۔ خورشید شاہ چھٹی پر ہیں اور میاں صاحب اپنے بھائی، بھتیجوں کے ساتھ ترکی میں ۔ جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا مگر بہ تنگیء چشمِ حسود تھا صدر روزویلٹ کا قول اکثر دُہرایا جاتا ہے کہ گومگو کا شکار رہنا غلط فیصلہ کرنے سے بھی بدتر ہے ۔جناب عمران خاں کیا، میاں محمد نواز شریف کیا، لیڈری کے سبھی دعوے داروں کا حال مگر یہ ہے کہ ؎ ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان سمجھ میں آتاہے کہ زمانہ ء آخر میں مسلمان وھن (موت کے خوف ) کا شکار ہوں گے ۔ فرمایا: ان میں ایک تہائی دجال کے ساتھ جا ملیں گے ۔ ایک تہائی (فاسق) اس سے لڑیں گے اور ہار جائیں گے ۔ پھر ایک تہائی اس پر غلبہ پائیںگے ۔ ظاہر ہے کہ یکسو لوگ، جو سر ہتھیلیوں پر رکھ لیں گے۔ اولین دونوں گروہ پہچانے گئے ۔تیسرا بھی آئے گا کہ سرکارؐ کا وعدہ ہے ۔یہ بھی ارشاد کیا: زمانہ ء آخر میں صرف دو خیمے رہ جائیں گے ، ایک ایمان اور دوسرا کفر کا ۔ رزم آرائی ارب پتیوں کے بس کی بات نہیں ہوتی ، زر و جواہر کے انبار جنہوں نے جمع کر لیے ہوں ۔ فرمایا: جائیدادیں نہ بنائو ، دنیا سے تمہیں محبت ہو جائے گی (اور موت کا خوف طاری رہے گا)۔ اقبالؔ نے کہا تھا ۔ کافر کی موت سے بھی لرزتا ہے جس کا دل کہتاہے اس سے کون مسلماں کی موت مر اور اقبالؔ وہ ہیں ، جو ملحد اور ملّا ، دونوں سے عمر بھر برسرِ جنگ رہے ۔ فرقہ پرستوں اور تہذیبِ حاضر کے مرعوب فرزندوں سے۔ اقبالؔ کے لیڈر محمد علی جناح تھے ۔ آخری ایّام میں بار بار وہ کہتے کہ تمام مسلم جماعتوں کو قائد اعظم کی مسلم لیگ میں ضم ہو جانا چاہیے۔ ایسا تو ہو نہ سکا مگر 1946ء کے الیکشن میں مسلم عوام بالآخر یکسو ہو گئے ، 76.5فی صد! کارنامہ انہی نے انجام دیا۔ نجات اب بھی اعتدال کی راہ میں ہے ۔ محمد علی جناح عمر بھر اس تاریخی صداقت کا اعادہ کرتے رہے کہ اسلام میں مذہبی طبقے کی حکمرانی کا کوئی تصور نہیں ۔ادھر پوری سیاسی زندگی میں ایک بار بھی ’’سیکولر ازم‘‘ کا لفظ انہوںنے استعمال نہ کیا۔ بے شک فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے ہمیں اس جنگ میں دھکیلا مگر سول قیادت نے کب اپنا کردار ادا کیا؟ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیںکہ گولی نہیں ، وہ ووٹ اور دستور کے قائل ہیں مگر وکالت اور اعانت طالبان کی کرتے ہیں ؛اگرچہ وکی لیکس کے مطابق امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹر سن سے یہ بھی کہا کہ حصولِ اقتدار میں ان کی سرپرستی فرمائیں ۔ چاپ کو سن کے جو رکھ دی تھی اٹھا لا ساقی شیخ صاحب ہیں، میں سمجھا تھا، مسلماں ہے کوئی عمران خان کے تذبذب کا سبب کیا ہے، کبھی تفصیل سے عرض کروں گا ۔بہرحال ابھی وہ متذبذب ہی رہیں گے اور نواز شریف بھی‘ مگر کب تک؟ حالات پیچیدہ بھی ہوتے ہیں مگر فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے ۔اہلِ علم کی رائے ہی سچّی ہوتی ہے ۔ وہ جو اپنے تعصبات اور مفادات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں ۔ سرکار ؐ نے فرمایا : تم پر لازم ہے کہ ’’ابرار‘‘ کے پاس بیٹھا کرو ۔ ظاہر ہے کہ ابرار سے مراد ڈاکٹر خورشید رضوی ایسے لوگ ہیں ، مولانا فضل الرحمٰن ایسے بالکل نہیں ۔ ہاں، پچاس برس سے سری نگر کے مقتل میں پورے قد سے کھڑے سید علی گیلانی ! پانچ برس ہوتے ہیں، انہوںنے کہا تھا: ’’طالبان پاکستان کی جڑیں کھود رہے ہیں مگر سیّد منور حسن سمیت کسی نے سن کر نہ دیا‘‘ قرآنِ کریم کہتا ہے ، جب الجھ جائو تو اہلِ علم کے پاس جائو ، اہلِ ذکر سے پوچھ لو ۔ بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا