یاس یگانہ چنگیزی کس بلا کے شاعر تھے اور کتنی آسانی سے بھُلا دئیے گئے ؎ نشہ خودی کا چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا عام تاثر یہ تھا کہ من موہن، نواز شریف ملاقات دکھاوے کی ہوگی۔ ممکن ہے کہ برف پگھل جائے اور مذاکرات کی راہ ہموار ہونے لگے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جموں کے چونکادینے والے خونیں حادثے کے بعد کیا ہوگا؟ قرائن یہ ہیں کہ کچھ زیادہ منفی اثرات مرتب نہ ہوںگے ۔ اگر اسے خوش فہمی نہ سمجھا جائے تو ایک امکان اور بھی ہے ۔ ہوش مندی غالب آئے اور زیادہ سنجیدگی سے بات ہو۔ دشواری یہ ہے کہ بھارت میں الیکشن قریب ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی، کانگریس کو دیوار سے لگانے کی کوشش کررہی ہے ۔ نواز شریف من موہن سنگھ کو رعایت دے سکتے ہیں، مگر بھارتی وزیراعظم ہرگز نہیں۔ چوہدری محمد علی مرحوم کہا کرتے تھے :تاشقند میںپست قامت شاستری نے وجیہ و شکیل ایوب خان سے کہا: میں جمہوری نظام کا ایک کم زور، بے بس نمائندہ ہوں۔ آپ تو فوج کے سربراہ ہیں۔ آپ ہی کچھ مہربانی فرمائیں۔ فیلڈ مارشل نے مہربانی فرمائی یا نہیں مگر ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو قائل کرلیا کہ وہ بچھ گئے ۔ ان کی اسی مہم سے وہ ایک قوم پرست بن کے اُبھرے ۔ غریب پاکستانیوں کے غم خوار۔ نواز شریف منتخب و زیراعظم ہیں مگر گاہے ، وہ فیلڈ مارشل بن کر فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارت کے وزیراعظم کو مدعو کرنے کی بے تابی۔ 11؍مئی کے فوراً بعد جنرل کیانی، لاہور جاکر ان سے ملے ۔ مشورہ دیا کہ بھارت سے تعلقات کی بحالی کا عمل فطری انداز میں آگے بڑھنا چاہیے ۔ ایک برس پہلے پاکستانی سپہ سالار سیاچن کو غیر فوجی علاقہ بنانے کی پیش کش کرچکا تھا۔ تین برس پہلے ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ نے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں یہ کہا تھا ‘‘کشمیریوں پر اتناظلم بھارتیوں نے نہیں کیا، جتنا پاکستانی فوج نے ۔’’ ظاہر ہے کہ 12 ؍ اکتوبر 1999ء کے بعد سے وہ وردی والوں سے ناراض چلے آتے تھے ۔ خدا کا شکر ہے کہ عسکری اور سیاسی قیادت میں فاصلہ اب سمٹ رہا ہے ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار پاکستانی حکومت ہی نہیں پوری قوم بھارت کے باب میں تحمل پر آمادہ ہے ۔ حیرت انگیز طور پر جمعرات کو بھارتی میڈیا کا طرز عمل بھی معمول سے کم اشتعال انگیز ہے ۔ وزیر خارجہ سلمان خورشید کا موقف بھی اعتدال کا مظہر ہے ۔ بھارتی حکومت یہ کہتی آئی تھی کہ پاکستان حافظ سعید کو ان کے حوالے کرے ۔ آج مگر انہوںنے یہ کہا کہ اسلام آباد کو ممبئی حادثے کے ذمے داروں کا تعین کرنا چاہیے ۔ یہ بھی کہ من موہن، نواز شریف ملاقات میں یہ سوال اٹھایا جائے گا۔ اسی بناء پر میرا قیاس یہ ہے کہ بات چیت گہرائی کو مائل ہوسکتی ہے ۔ کیا معیشت کی زبوںحالی کے سبب، بھارت میں کاروباری طبقہ زیادہ سرگرم ہوا ہے ؟ کیا ان سے ربط وضبط رکھنے والے ، پنجاب کے میاں منشاایسے کاروباری حرکت میں آئے ہیں؟ شریف خاندان پہ ان کا اثر غیر معمولی ہے اور تجارت کی بحالی میں وہ سرسبز چراگاہوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کھرب پتیوں کے لیے پرچم اور سرحد(Flag and Frontier) کی اہمیت دوسروں سے بہت کم ہوتی ہے ۔ بندہ ہائے درہم ودینار! آزاد کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر فاروق عبداﷲ کا کہنا ہے کہ جموں کا حادثہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے ۔ عمر فاروق ایک بحران سے دوچار ہیں۔ بھارتی فوج کے سابق سربراہ وی کے سنگھ کی طرف سے پاکستان کے خلاف قائم کردہ خفیہ سیل کے انکشاف نے آنجناب کو ہراساں کررکھا ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ بھارت کی وفاقی خفیہ ایجنسی آئی بی کی طرف سے بھی مقبوضہ کشمیر کے وزراء کی مالی سرپرستی ہوتی رہی۔بندہ ہائے درہم ودینار! تاریخ کا سبق یہ ہے کہ عوامی تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ سات لاکھ فوج کے بل پر، جو تاریخ میں تناسب کے اعتبار سے سب سے بڑا عسکری اجتماع ہے ۔ اس سے زیادہ عالمی حالات اور پاکستان کی داخلی کم زوریوں نے تحریکِ آزادیِ کشمیر کو زخم لگائے ۔ ہاں!مگر وہ زخمی ہے ، مری نہیں۔ لمبی ہے غم کی شام* مگر شام ہی تو ہے آزادی کا ولولہ کیسے مرسکتا ہے ؟ یہ آدمی کے خمیر اور سرشت میں ہے ۔ کب تک، پچاس لاکھ انسانوں کو برہمن زنجیریں پہنا سکتے ہیں۔ خاص طورپہ اس وقت جب وہ اپنی قوت دریافت کرچکے ۔ ایک ہزار برس کی غلامی کے بعد برہمن کو اقتدار ملا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے آخری ایام، اٹھارویں صدی کے آغاز سے ، مسلم دشمنی کی تحریک پر ہندو انتہا پسند تلے ہیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ، شیوا جی کی وارث ہے ۔ صرف سیاست میں وہ سرگرم نہیں۔ انڈین سول سروس میں اپنے حامی داخل کرنے کے لیے کتنے ہی ادارے اس نے قائم کررکھے ہیں۔ بابری مسجد، سمجھوتہ ٹرین اور احمد آباد کا قتل عام کوئی الگ تھلگ واقعات نہیں، ایک طے شدہ حکمت عملی کانتیجہ ہیں۔ نریندر مودی کی مقبولیت کا راز فقط ان کی سیاسی ہنرمندی اور گجرات کی اقتصادی ترقی میں پوشیدہ نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت، جب پاکستانی حکومت اور عسکری انتظامیہ نے انتہا پسندوں پر سے ہاتھ اٹھالیا، بھارت میں آر ایس ایس سمیت، انتہا پسند تنظیموں سے خفیہ ایجنسیوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مراسم گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ بھارتی فوج کے موجودہ سربراہ بکرم سنگھ، حکومت کی نہیں آرایس ایس کی زبان بولتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا دن رات عسکری قیادت کے بخیے ادھیڑتا ہے ۔ خطا کیا، ان کی خوبی اور اچھائی بھی جرم بنا کر پیش کی جاتی ہے ۔ بالکل برعکس بھارتی میڈیا حکومت اور فوج کی زبان میں گاتا ہے ۔ خراب معاشی صورت حال میں من موہن سنگھ کی طرف سے دفاعی اخراجات میں محدود سی کمی پر اشتعال انگیزی ۔ در آں حالیکہ بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان کے پورے میزانیے کے برابر ہے ۔ چند ہفتے قبل کنٹرول لائن پر ہونے والے حادثے کے ہنگام، بھارتی میڈیا نے جنگی ماحول پیدا کردیا اور آج بھی اس کا مجموعی طرز عمل وہی ہے ۔ سامنے کی یہ سچائی برہمن پریس کو دکھائی نہیں دیتی کہ ایک پوری قوم کو غلام بنایا گیا ہے ۔ یہ بھی نہیں کہ پاکستان تو خود سوات اور وزیرستان سے دوچار ہے ۔ کشمیریوں پر وہ کیسے حکم چلا سکتا ہے ۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ جموں کے حادثے کا ذمے دار کون ہے ۔ اغلباً کشمیر کے ناراض نوجوان، جو اب پاکستان تو کیا خود اپنے لیڈروں کی بات بھی نہیں سنتے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے گروہ، جو اپنے مقدّر کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھان چکے ۔ تنگ آمد بجنگ آمد ۔ اگر یہ کشمیری ہیں تو سوچ سمجھ کر انہوں نے موزوں ترین وقت کا انتخاب کیا ہے ۔ یہ پیغام دینے کے لیے:آپ ہمارا سودا نہیں کرسکتے ۔ بیس برس میں یہ پہلا فدائین حملہ ہے اور اس فلسطین کی یاددلاتا ہے ، بظاہر جسے کچل دیاگیاتھا لیکن پھر آگ بھڑک اُٹھی۔ آشکار ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے دکھاوے کا اعتدال بھی ترک کیا اور پھر سے وہ ہندوتوا میں انتہا کی طرف مائل ہے۔ یوسف رضا گیلانی ایسے کمزور وزیر اعظم نے شرم الشیخ میں من موہن سنگھ سے کہاتھا کہ بھارت کو بلوچستان میں تخریبی کارروائیاں ترک کرنی چاہئیں۔ نواز شریف کیا اتنا دم خم بھی نہیں رکھتے؟ احمقوں اور جنونیوں کے سوا سبھی امن کے خواہش مند ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کہ امن بھیک میں نہیں ملتا‘ یہ ہوش مندی سے حاصل کیا جاتا ہے اورخوف کے توازن سے ۔ بھارتی انتظامیہ اور میڈیا پر پاگل پن سوار ہے ۔ دفاعی اعتبار سے پاکستان آج بھی اتنا مضبوط ہے کہ اسے فتح نہیں کیا جاسکتا۔ قبضہ کرنے کا تو سوال ہی کیا ۔ اگر کشمیر کو کچلا نہ جاسکا تو بیس کروڑ انسانوں کو کیسے پامال کیا جاسکتا ہے ؟ فرد ہو یا قوم تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آدمی کا کمزور ترین پہلو، غلبے کی آرزو ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے سامنے صرف ایک راستہ ہے ، امن کا راستہ۔ یاس یگانہ چنگیزی کس بلا کے شاعر تھے اور کتنی آسانی سے بھُلا دئیے گئے۔ نشہ خودی کا چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا