"HRC" (space) message & send to 7575

ہزار دام سے نکلا ہوں ، ایک جنبش میں

مگر یہ نکتہ تو شاید وہ قیامت تک نہ سمجھ سکیں کہ حیات اجتماعی میں انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے اور اہلیت پر انتخاب کی اہمیت کیا ہے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بیان میں ان کی شخصیت اور مزاج جھلک اٹھاہے ۔ وہی شائستگی ، وہی استدلال اور وہی دھیما لہجہ۔ گوجر خاں کے ایک گرد آلود گائوں کا فرزند غیر جذباتی آدمی ہرگز نہیں ، جیسا کہ بظاہر وہ نظر آتاہے ۔ جیساکہ چھ برس پہلے ان کے سپہ سالار بننے پر عرض کیا تھا، ڈھیلا ڈھالا وہ دکھائی دیتا ہے مگر ہے نہیں۔ ایک تنہا آدمی ، جو اپنی دنیا اپنے من میں آباد رکھتا ہے ۔ صرف دوست ، اہلِ خاندان یا رفقائِ کار ہی اس کے تیور پہچانتے ہیں ۔ برہنہ گفتن کا وہ قائل نہیں اور قدرے ملفوف پیرائے میں بات کرتا ہے لیکن شاعروں کی طرح ہرگز نہیں ۔ پوری بات لیکن قدرے انکساراورسادگی کے ساتھ ۔ایک ذہین مگر سادہ آدمی ۔ نصف صدی پہ پھیلی ہوئی عملی زندگی کے ان گنت نشیب و فراز نے انہیں بے حد محتاط بنا دیا مگر مزاج میں تلخی نہ گھل سکی ۔ وہ برصغیر کا روایتی لیڈر نہیں ، جو عملی کم اور جذباتی زیادہ ہوتاہے ۔ دلیل پہ نہیں ، جو افتادِ طبع پہ جیتا ہے۔ اپنی عزتِ نفس کے معاملے میں جنرل کیانی بے حد حساس ہیں ۔ اس سے پہلے کہ کنفیوژن دراز ہو تا ، ایک جھٹکے میں وہ جال انہوںنے نوچ کر پھینک دیا ہے ، جو حاسد اور حریف بُن رہے تھے ۔ آدمی کا مزاج ہی اس کی تقدیر ہوتاہے ۔ ؎ ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں جسے غرور ہو، آئے کرے شکار مجھے تین سال پہلے بھی ملتی جلتی صورتِ حال تھی ، جب نہایت تیزی سے نامقبول ہوتے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جنرل کو توسیع کی پیشکش کی۔جنرل نے انکار کر دیا۔ ملک اور جنرل کے خیر خواہوں نے بے ساختہ امریکی تاریخ کے سب سے بڑے مدبّر ابرہام لنکن کا جملہ دہرایا ’’دریا میں گھوڑے تبدیل نہیں کیے جاتے ‘‘ سگریٹ پہ سگریٹ سلگاتے ، جنرل نے سب کو ایک ہی جواب دیا: مگر میں تو انکار کر چکا۔ یہ داستان پھر کبھی کہ یوسف رضا گیلانی توسیع پہ مصر کیوں تھے اور صدر زرداری کو کس طرح انہوںنے آمادہ کیا ۔قدرے قائل ہو جانے کے بعد جنرل نے اپنے دوستوں سے کہا : اگر پھر سے پیشکش ہوئی تو !دوبارہ پیشکش ہوئی تو جنرل نے اثبات میں سر ہلا دیالیکن پھر صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے اسی کھیل کا آغاز کیا ، جو پچھلے چند ہفتوں سے وزیر اعظم نواز شریف ، ان کے مشیر اور حواری کھیل رہے تھے ۔ جنرل بظاہر ضرورت سے زیادہ غور و فکر کرتا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ فیصلے بہت دیر تک موخر نہیں کیے جاتے۔ تب وہ طے کر لیتاہے اور بروئے کار آتا ہے ۔ 2010ء کے موسمِ گرما میں یہی ہوا تھا ۔ وزیر اعظم کی پیشکش قبول کرلینے کے باوجود ، اخبارات میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ انگریزی اخبارات میں یکے بعد دیگرے پانچ مضامین میں توسیع کی مخالفت کی گئی ۔ معلوم نہیں یہ سوچی سمجھی مہم تھی یا خیال کا توارد۔ بہرحال پاکستان ایک عجیب ملک ہے ۔ روانڈا سے لے کر امریکہ تک دفاعی معاملات پر کہیں بھی اس طرح منہ پھاڑ کر گفتگو نہیں کی جاتی ۔ لاکھوں دفاعی ’’ماہرین ‘‘قومی سلامتی کے معاملات پر اس طرح بات کرتے ہیں ، گویاساری زندگی ملٹری سائنس اور سیاسی علوم کے مطالعے میں گزری ہو ۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک دن جنرل اکُتا گیا۔ اس نے ٹیلی فون کا چونگا اٹھا یا اور وزیراعظم سے کہا : توسیع اگردینی ہے تو براہِ کرم یہ کام جلد از جلد کر ڈالیے ۔ظاہر ہے کہ بھارت کی حلیف انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ پاکستانی فوج کی مخالف ہے ۔ امریکی استعمار اور یورپی یونین پاکستان کو محتاج اور منحصر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ان کی خفیہ ایجنسیاں ، این جی اوزپالنے والے ان کے ادارے اور دانشوروں کی پرورش کرنے والے تھنک ٹینک ، سب کے سب ع کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف تقریریں لکھی اور پھاڑی جاتی رہیں اور شب تین بجے آرمی چیف کی مدّت ملازمت تین سال تک بڑھا دی گئی ۔ بزدل لوگ بہادری کا سوانگ رچائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم اور صدر ایک طرف تو سیاست فرما رہے تھے ۔ دوسری طرف بے سبب وہ خوف زدہ ہوئے ۔ اگر جنرل کو وہ ریٹائر کر تے تو کوئی قیامت برپا نہ ہوتی ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی پاکستانی تاریخ کے سب سے زیادہ مشکل اور ہنگامہ خیز دور میں عالمِ اسلام کی سب سے بڑی فوج کے سپہ سالار رہے ۔ ان سے پہلے وہ تھے ، جنہوںنے مارشل لا لگایا اور اقتدار کے مزے اڑائے یا جنرل موسیٰ خان ، جنرل ٹکا خان اور جنرل عبد الوحید کاکڑ ایسے شرفا ، جن کے لیے اقتدار کی آرزو وحشت نہ بن سکی ۔ اس امتیاز کے علاوہ کہ جنرل کیانی اپنے ہر پیش رو سے زیادہ پڑھنے اور غور و فکر کرنے والا آدمی ہے اوران سب سے زیادہ نرم گفتار۔ اس کے چھ سالہ دور کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک کے بعد اسے دوسرے بحران کا سامنا رہا ۔ اپنی زبان سے شاید وہ کبھی نہ کہے لیکن پیہم اس کا قلق یہ تھا کہ شوکت عزیز سے لے کر نواز شریف تک ، ایک کے بعد دوسرا حکمران مالی بے قاعدگیوں کا خوگر تھا۔ کسی ایک کو بھی قانون کی بالاتری سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور کوئی نہ جانتا تھا کہ قوموں کی ترقی اور استحکام کے لیے امن و امان اور ٹیکس وصولی کس قدر اہم ہے ۔ اداروں کی اہمیت سے کوئی آشنا نہ تھا۔ چھ سالہ دور کی تینوں حکومتوں نے امریکی استعمار کی مزاحمت میں جنرل کی کوئی مدد نہ کی ۔دونوں بار نیٹو افواج کی سپلائی روکنے کا فیصلہ اس نے تنہا کیا ؛ اگرچہ قوم اور سول حکومت کو اس کی مدد کرنا ہی تھی۔ہالبروک ، ہیلری کلنٹن ، مائیکل ملن اور جنرل پیٹریاس ایسے جارح امریکی لیڈروں سے اسے تنہا نمٹنا پڑا۔ خاص طور پر جنرل پیٹریاس کہ کیانی تو انہیں سلیقہ مندی سے سنبھال لیتے مگر موصوف ایسے بدتمیز تھے کہ ایک بار آئی بی کے سابق چیف جاوید نور کے سامنے میز پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئے ۔ پاکستانی افسر نے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر جوتے کا رخ پیٹریا س کی طر ف کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ جنرل سب کے سب احساسِ کمتری کے مارے نہیں ہیں ۔ جنرل کے عہد میں میمو گیٹ اور ایبٹ آباد آپریشن کے دو بڑے افسوس ناک واقعات ہوئے ۔ دونوں پہ وہ سخت صدمے کا شکار تھا۔ اپنا منصب سنبھالنے کے فورا ًبعد اس نے اپنے اہلِ خاندان کو کہا تھا \"Now I belong to Pakistan Army only\" میمو گیٹ کے سانحے میں،عدالتی حکم پر جب اس نے اپنا بیان سپریم کورٹ میں داخل کرایا تو شعبدہ باز گیلانی سمجھ نہ سکا اور اس نے جنرل کے زخموں پہ نمک چھڑکنے کی کوشش کی ۔ کہا کہ جنرل کا بیان غیر آئینی اور غیر قانونی ہے ۔ سخت ردّعمل کے بعد وزیراعظم کو اپنے الفاظ واپس لینا پڑے ۔ ایبٹ آباد کے سانحے پر اس کا دل اور بھی دکھی تھا مگر وہ کیا کرتا۔ ایک لمحے کو اسے خیال آیا کہ پاکستان امریکہ تعلقات جائیں بھاڑ میں لیکن پھر اس کے اندر کا حقیقت پسند اس کے رومان پسند پر غالب آیا ۔ مائیکل ملن سے فقط اس نے یہ کہا : اس طرح کا ایک مزید واقعہ اور پاک امریکہ تعلقات ہوا میں اڑجائیں گے ۔ جنرل جانتا تھا کہ آزاد خارجہ پالیسی صرف معاشی استحکام اور قومی بیداری سے ممکن ہے اور سرے سے اس کا ادراک ہی نہیں ۔ نواز شریف اس جنرل کے باب میں ، جس نے جمہوریت کو جم جانے کا موقعہ دیا ، اوّل دن سے کنفیوژن کا شکار تھے ۔ انہیں توسیع دیں ، ایک بااختیار جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین یا قومی سلامتی کا مشیر ۔ کبھی وہ سوچتے کہ واشنگٹن میں سفیر بناکر دہرے مقاصد حاصل کریں ۔ اپنی انا کو گنّے کا رس پلائیں اور امریکیوں کو اس شخص کے ذریعے سنبھال رکھنے (Handle)کی کوشش کریں ، جو برسوں سے انہیں برت رہا ہے ۔ جلد ہی یہ بات وزیر اعظم کی سمجھ میں آگئی کہ جنرل کیانی جیسا صابر کوئی دوسرا نہیں مگر یہ نکتہ تو شاید وہ قیامت تک نہ سمجھ سکیں کہ حیاتِ اجتماعی میں انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے اور اہلیت پر انتخاب کی اہمیت کیا ہے ۔ پس تحریر: خادم پنجاب نے کل اعلان کیا : کرپشن کبھی برداشت کی ہے نہ کریں گے ، ادھر مولانا فضل الرحمن نے فرمایا کہ سیاست میں سازش نہ چلنے دیں گے۔ ان دوا علانات کے بعد قوم اپنے مستقبل کے بارے میں پوری طرح مطمئن ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں