اور میر تقی میرؔ یہ بات جان گئے تھے ۔ موت اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر حسبِ عادت آنکھ کھلتے ہی فون کھولا۔ میاں محمد خالد حسین اور طارق چوہدری کے ٹیلی فون ! خدا خیر کرے ۔ سحر نہیں ،ہم بھائی ایک دوسرے سے شام کے وقت بات کیا کرتے ہیں… حادثہ ہو گیا اور ایسا حادثہ کہ عرب شاعر امرائو القیس کے بقول : یقین ہی آتا نہیں۔ طارق چوہدری کا بیٹا محمد طلحہ آج صبح دنیا سے چلا گیا۔ اس قدر اچانک! عید پر بڑے ڈاکٹروں کی چھٹیاں ! موت زندگی کی تاک میں رہتی ہے ۔ کل شام طبیعت ماند تھی ۔برسوں سے معمول یہ ہے کہ عید کی شام گجّر خان حاضر ہوتا ہوں ۔ فاروق گیلانی کے بچوں سے بھی ملنے نہ جا سکا۔ پروفیسر صاحب کے ہاں بھی نہیں ۔ خود کو ملامت کی اور یاد دلایا کہ یہ دونوں کام آج بہرحال نمٹا نا ہیں ۔اس خبر نے لیکن سب کچھ بھلا دیا۔ بس اتنا یاد رہا کہ میرا بھائی اب اکیلا ہے ۔ اس کے سارے خواب اچک لیے گئے اور کارگہ حیات میں اسے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ اتنے میں طارق کا فون دوبارہ آیا ’’میرا سب سے شاندار بیٹا…‘‘ ہمیشہ کی طرح غالبؔ یاد آئے اور آتے ہی رہے ۔ خود کو مگر یاد دلایا کہ حواس سلامت رکھنا ہوتے ہیں ۔ ہاں! اے فلکِ پیر جواں تھا ابھی عارف کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور جاتے ہوئے کہتے ہو، قیامت کو ملیں گے کیا خوب، قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور طلحہ کو جو بھی دیکھتا ، حیرت ہوتی کہ بیٹے اس قدر فرماں بردار بھی ہوتے ہیں ۔ باپ نے کہا: امریکہ چلے جائو ۔ چلا گیا ، کچھ دن میں لوٹ آیا کہ جی نہیں لگتا۔ طارق اس بات کا ذکر کرتا تو جھوم سا اٹھتا : طلحہ نے مجھے کہا ’’پاکستان دنیا کا سب سے اچھا ملک ہے‘‘ کہا : وکیل بن جائو ۔ وکیل بن گیا اور جمیل گل سے منسلک ہو کر قانون گوئی کے آداب سیکھنے لگا۔ کئی سال بیت گئے ۔ ایک دن باپ نے کہا: وکالت اس لڑکے کو راس نہیں ۔ اب کاروبار کا منصوبہ تھا اور تقریباً مکمل ۔ برصغیر کے دو امراض ہیں۔ احساسِ کمتری اور خود ترحمی۔ تما م ترمسائل اور الجھنوں کو آدمی خارج میں دیکھتا ہے۔ طلحہ ان میں سے ایک تھا، جسے دیکھ کر احساس ہوتا کہ آزاد آدمی کیا ہوتاہے ۔ شگفتہ مزاج ، جنگل میں اُگے ، پھولوں سے لدے کسی شجر کی طرح بے نیاز۔ آزاد لوگ دنیا کے اس خطے میں بہت کم ہوتے ہیں۔ طارق کا خیال یہ تھا کہ اب وہ کاروبار جمالے اور سیاست کرے ۔ جو کچھ زندگی سے میں نے سیکھا ہے ، اسے سکھادوں ۔ کسے اب وہ سکھائے گا؟ چالیس برس ہوتے ہیں ، جب طارق چوہدری نے میدانِ سیاست میں قدم رکھا۔ ’’ینگ پاکستانیز‘‘ کی تعمیر و تشکیل کی، جاوید ہاشمی جس کے پلیٹ فارم سے ابھر کر چمکے۔ دوبار سینٹ کا الیکشن لڑا اور جیتا۔ پہلی بار دوہزار روپے خرچ کیے۔ دوسری بار میں نے پوچھا ہی نہیں ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کی تائید بھی پہلی بار شامل تھی۔ عالم مگر یہ تھا کہ جب بھی سینٹ سے واک آئوٹ ہوتا تو جنرل صاحب پوچھتے : ایک تو طارق صاحب ہوں گے اور کون کون ؟ خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر کو جنرل صاحب نے قومی اسمبلی کا سپیکر بنانے کا تہیہ کر رکھا تھا مگر طارق جنرل صاحب کی مرسڈیز لے کر نکلا اور فخرِ امام کے حق میں تحریک اٹھا کر کامیاب بنا دی ۔ جسارت ایسی کہ لاہور کے گورنر ہائوس میں جنرل غلام جیلانی خان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا : صدر صاحب! جب تک یہ صاحب موجود ہیں ، کرپشن ختم ہو نہیں سکتی۔ نواز شریف اور مرتضیٰ بھٹو سمیت ، جس کسی نے دھمکی دی ، اسے چٹا جواب دیا۔ امریکی سفارت کار نے ملنا چاہا تو کہا: میرا جی آمادہ نہیں ، تم لوگوں سے بات کرنے کو ۔ 1988ء میں بے نظیر نے وزارت کی پیشکش کی کہ وزارتِ عظمیٰ کے حصول میں اس کا کردار بھی تھا۔ صدر غلام اسحٰق خان کو ، جو انہیں عزیز رکھتے ، دلیل یہ دی تھی کہ اکثریت جس کی ہے ، حق بھی اسی کا ہے ۔ وزارت کی پیشکش ہنس کر ٹال دی۔ ایک نہیں ، کئی بار ، کئی وزرائے اعظم کو۔ سیاست کا فہم ایسا کہ باید و شاید۔ خود اپنی نگاہ سے ، زمانے اور زندگی کو دیکھنے والا آدمی ۔ اگر اس کا فرزند آزاد منش اٹھا تو اس پر تعجب کیا۔ اب وہ غلام محمد آباد کے ایک قبرستان کی مٹی اوڑھے سو رہا ہے۔ زندگی میں پہلی بار طارق چوہدری کو میں نے ٹوٹا ہوا پایا۔ پیکر سلامت، دل شکستہ۔ یہ وہی تھا، جس نے فیصل آباد میں اس جلسے کو کامیاب بنایا ، جس کے بعد لاہو رمیں 30اکتوبر 2011ء کو تحریکِ انصاف کا تاریخ ساز اجتماع ممکن ہو سکا۔ جس کے بعد جہانگیر ترین اور اسد عمر ایسے لوگ ازراہِ کرم اس پارٹی کا حصہ بننے پر آمادہ ہو گئے، جسے طارق چوہدری اور فوزیہ قصوری ایسوں نے اپنے لہو سے سینچا تھا ۔ اسد عمر اچھے آدمی ہیں، امید پرست ہیں لیکن پارٹی کے بارے میں یوںبات کرتے ہیں جیسے ان کے گھر میں بنی ہو ۔ تعجب کی کوئی بات نہیں کہ کارکن تو بہت تھے مگر اعجاز چوہدری کے سوا پارٹی کا کوئی قابلِ ذکر لیڈر جنازے میں شریک نہ ہوا؛درآں حالیکہ چھٹی کا دن تھا۔ کسی ایک کا کیا ذکر ، تما م سیاسی پارٹیوں میں اصول یہ ہے کہ جسے پیا چاہے ، وہی سہاگن۔ سیف اللہ نیازی ، اسد عمر اور جہانگیر ترین سہاگن ہیں ۔اسد عمر پارٹی کے باپ بن گئے اور شیریں مزاری والدہ ماجدہ۔ بعض نے ڈٹ کر بد عنوانی کی اور پارٹی کی فصل برباد کر دی ۔ عمران خان کو مگر انگریزی اصطلاحات میں بات کرنے والے لوگ ہی پسند ہیں ۔ سیاست پہ لعنت بھیجئے۔ کل عید تھی ، طلحہ کی آج سالگرہ تھی ۔ ہر روز بارہ کلومیٹر پیدل چلنے والا ، کڑی کمان کی طرح استوار اور کبھی سہارا تلاش نہ کرنے و الا اس کا غم زدہ باپ مضبوط قدموں سے تنہا چلتا رہا۔ فرزند کے جنازے میں بھی تنہا ۔ اس کے چہرے پر لکھا تھا ’’لنگر انداز ہوں میں آج بھی طوفانوں میں‘‘ طارق پیرزادہ نے میرابازو چھوا اور اقبالؔ کی رباعی پڑھی ۔ سحر می گفت بلبل باغباں را دریں گِل جز نہالِ غم نہ نگیرد بہ پیری می رسد خارِ بیاباں ولے گُل چوں جواں گردد بمیرد سحر بلبل نے باغباں سے کہا : اس مٹی میں غم کے سوا کوئی شجر بارورنہیں ہوتا۔ بیاباں کے خار پیری کو پہنچتے ہیں ۔ پھول ادھر جوان ہوا، ادھر موت نے اچک لیا۔ یہ اقبالؔ اور غالبؔ کا فرق ہے ۔ ادب کے طالبِ علم تو کیا، بڑے بڑے دانشور بھی اس فرق کو سمجھ نہ سکے۔ غالبؔ حرف و بیان کے شعبدہ گر ہیں ۔ انسانی مسرّتوں اور غموں کے مصوّر ۔ اقبال فطرت کے ابدی قوانین کا شعور رکھتے اور پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں بات کرتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ خدا کی کائنات میں زیاں بہت ہے ۔ پامال راستوں پر انسانی ذہانتیں برباد ہوتیں اور عقلیں گردِ راہ ہو جاتی ہیں ۔ غالبؔ حسنِ بیاں کی انتہا ہے ۔ اقبالؔ حسنِ بیاں ہی نہیں ، حسنِ صداقت بھی ہے ۔ ادیب اور شاعر زندگی کے رہنما نہیں ہوتے بلکہ اقبالؔ ایسے حیات کے رازدان۔ جو جانتے تھے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے ۔ انسان اور حیات کا ۔ زندگی کے سب نشیب و فراز، سب خدوخال، سب تیور ، اسی کی مرضی اور منشا سے تشکیل پاتے ہیں۔ ’’اگر میں نہ چاہوں تو تم چاہ بھی نہیں سکتے‘‘ ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر ہلتا نہیں ۔ روزِ ازل جس نے فرشتوں سے کہا تھا : میں جانتا ہوں اور تم جانتے نہیں… اور میر تقی میرؔ یہ بات جان گئے تھے ۔ موت اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر