اللہ دیکھتا ہے اور اس کے بندے بھی ۔بولنا بھی چاہوں تو جھوٹ بول نہیں سکتا اور اس کا شکر ہے کہ نہیں بول سکتا۔ طالب علم آسودہ ہو چلا تھا اورنگاہ اس کی شمال پر تھی۔سوات جانا تھا کہ وسیم اختر نے چونکا دیا۔ اعلان یہ کیا تھا کہ کراچی کی گاڑی پٹڑی پر جاچڑھی ہے تو منزل پہ جا پہنچے گی۔ شرجیل میمن اور شاہی سید اس کے ہم خیال تھے ۔ آپ کے گمان کو شہادت مل جائے، تو آپ مطمئن ہوجاتے ہیں۔ ندی کے پر سکون پانی میں مگر وسیم اختر نے پتھر پھینکا اور اچھل اچھل کر لہریں کناروں سے ٹکرانے لگیں۔ اس مفہوم کا جملہ انہوں نے کہا کہ تم سے لوگ انصاف کی توقع رکھتے ہیں …! ان کا موقف یہ تھا کہ کراچی میں جاری کارروائی ایسی منصفانہ ہرگز نہیں کہ ڈونگرے برسائے جائیں۔ دلیل یہ دی کہ ایم کیوایم کے زیادہ لوگ پکڑے جارہے ہیں اور ان میں سے بعض پر تشدد کیا جاتا ہے، عرض کیا : بڑی پارٹی ہے ،زیادہ ہی پکڑے جائیں گے۔ کہا: بالکل ٹھیک مگر تشدد ؟آئو، اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ ایسی ایسی کہانیا ں ہیں کہ کلیجہ پھٹ جائے۔ اصرار کیا کہ آئو ، دیکھو ،سنو اور انصاف کرو۔ عرض کیا: بالکل ،مگر سب کی سن کر۔ظاہر ہے کہ فقط ایک فریق کا موقف پوری تصویر نہیں بنا تا۔ کہا: بالکل ،ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں ۔نائن زیرو آنے کی۔ کیا اس دعوت کو میں ٹھکرا دیتا ؟ قرآن کریم کی آیت کریمہ، تب مجھے یاد نہ تھی بعد میں یاد آئی۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے۔ انصاف کرو کہ یہی تقویٰ ہے۔ اس وقت عالی مرتبت ؐکا قول مجھے یاد نہ تھا ،بعد میں یاد آیا: شرک کے بعد جھوٹی گواہی سب سے بڑا گنا ہ ہے ۔ ایم کیوایم کا میں مخالف ہوں ۔اللہ کے آخری رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے عصبیت پر آواز دی ، وہ ہم میں سے نہیں۔ ایم کیوایم کی بنیاد گروہی اور لسانی ہے۔ اچھا! توباقیوں کی ؟ آخر کار یہ سوال مجھے خود سے پوچھنا پڑا اور اس کا جواب اذیت ناک تھا۔ جمعیت علماء اسلام ؟ جمعیت اہل حدیث ؟ساجد نقوی کی تحریک اسلامی ؟قرآن کریم قرار دیتا ہے کہ جنہوں نے اپنے گروہ الگ بنالیے، ختم المرسلین ؐسے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ فقہ کی بات نہیں ،اختلاف کا اس میں جواز ہے مگر فقہی اختلاف کی بنیاد پر سیاسی جماعت کیسے تشکیل پاسکتی ہے؟ جماعت اسلامی ؟ سید ابوالاعلیٰ مودودی ، پیپلزپارٹی ؟ بھٹو ازم، نون لیگ ؟ شریف خاندان۔ شہبازشریف کی صحت ،خطرے سے دو چار ہے ،کیا اسی لیے حمزہ شہباز ڈپٹی چیف منسٹر ہوگئے ؟ ممکن ہے کہ یہ اطلاع غلط ہو۔ ممنون حسین مگر منصب صدارت پر کیسے براجمان کردیئے گئے۔ امریکی سفیر کو خط لکھا کہ آکر مجھے ملیے ۔ سیکرٹری خارجہ جلیل عباس کو اس نے فون کیا کہ کیا کروں ؟ ملتا ہوں تو پاکستان کا دفتر خارجہ یہ کہے گا کہ ضابطوں سے انحراف کیا ( سفارت کی شریعت میں جو گناہ کبیرہ ہے۔) صدر پاکستان پر اعتراض کی جسارت سیکرٹری خارجہ کیسے کرسکتے ۔ان کے پرنسپل سیکرٹری سے مگر یہ کہا کہ اللہ کے بندے ، تمہارا فرض ہے ،جتلانا اور یاد دہانی کرا دینا ۔ وہ بھی ایک ہی ستم ظریف ہے ۔وسیع و عریض خاندان کے ساتھ عمرہ پر روانہ ہونے سے پہلے سعودی سفیر کو خط لکھا کہ جناب صدر ، حجاز جاتے ہیں، از راہ کرم پروٹوکول منصبِ جلیلہ کے مطابق ہو۔ جواب ملا : پاکستان ایک برادر ملک ہے ،بڑے کیا ، کم بڑوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ کب کوتاہی سرزد ہوئی کہ یاد دہانی ہے۔ مقصود یہ نہیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہے؛ چنانچہ ایم کیوایم سے نرمی کی جائے ۔ کب میں نے نرمی کی۔سوشل میڈیاپر سرخ سگنل لہرانے لگے ۔ابھی تو کوئی رائے میں نے قائم ہی نہیں کی ۔صرف ایم کیوایم کا موقف سنا اور ان سے یہ کہا،میں خطا کار ہوں ،آپ کے پاس بہت پہلے مجھے آنا چاہیے تھا۔ آپ بلاتے اور میں انکار کرتا رہا۔ وہ منجھے ہوئے لوگ ہیں ۔طوفانوں کے پالے ہوئے۔ وہ چپ رہے ،وہ ہنس دیے اور چہروں پر لکھا تھا؛ عمل دیکھتے ہیں ہم، قول نہیں، کوئی دن میں اندازہ ہوجائے گا کہ تم ریا کار ہویا واقعی انصاف پسند۔ جس امتحان سے میں گزرا ہوں، اسے بیان کرنے کے لیے ٹالسٹائی ، گورکی ،یاہیمنگوئے کا قلم چاہیے اور مہلت چاہیے۔ جیسا کہ عرض کیا ؛ جن پر الزام ہے ان کا نقطہ نظر اتنی ہی تفصیل سے سن لینے کی ۔پھر مہلت جانچنے کی ۔ بھاگنے کا اب کوئی سوال ہی نہیں۔ ایک عجیب و غریب آدمی کراچی میں رہتا ہے۔ طارق محسن اس کا نام ہے۔ بارہ برس ہوتے ہیں ،اسلام آباد میں ایک نکتہ اس نے سمجھایا تھا؛ بلندیوں پر کھڑے ہوکر جو روشنیوں میں نہانے کا آرزو مند ہو، اپنا ملبوس وہ اُجلا اور اپنا باطن استوارر کھے ۔ درویش یہ کہتے ہیں کہ دعا پڑھا کرو :اے عیبوں کے ڈھانپنے والے… خطاکار نے پڑھا ’’ اے اللہ ،ہمارے سب کاموں کا انجام اچھا کر،دنیا میں رسوائی سے اور آخرت میں عذاب سے محفوظ رکھ‘‘پھر حافظے پر زور دینا شروع کیا۔ ایک کمرہ ہے تقریباً چودہ فٹ چوڑا ، تقریباً سولہ فٹ لمبا اور اس میں پانچ زخمی فرش پر پڑے ہیں۔ چار کی کہانی لکھی جاسکتی ہے پانچویں کی نہیں۔بے باکی گوارا ہوجاتی ہے ، بے حیائی نہیں ۔جو سلوک اس کے ساتھ ہوا، وہ ر قم نہیں ہو سکتا۔ کس نے کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس ایک سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے میں اسلام آباد سے آیا تھا۔ ان کا جواب یہ تھا: ہم کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے، حالات پہلے ہی بہت خراب ہیں۔پہلے ہی بدامنی بہت ہے ۔پہلے ہی بے یقینی بے حساب ہے ۔آپ خود دیکھ لیجیے ۔ خود فیصلہ کیجیے۔ دوپہر ایک بجے سے شام چھ بجے تک پانچ گھنٹے کی بریفنگ۔ اندازہ تھا کہ یکسوئی درکار ہے اور ریاضت بھی۔ اندازہ تھا کہ ناخوشگوار منظر سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ دو نکات بالکل آشکار تھے ۔ 26 برس سے میں ان کی مخالفت میں لکھ رہا ہوں اور رتی برابر رعایت بھی کبھی میں نے انہیں دی نہیں۔ثانیاً وہ ابتلاء میں ہیں اور ان کے دل دکھے ہوئے ۔ اکثر اندازے غلط نکلے ۔معلوم تھا کہ وہ منظم لوگ ہیں مگر اس قدر منظم ؟ معلوم تھا کہ وہ ڈسپلن کے سانچے میں ڈھلے ہیں، مگر اس قدر ؟طے شدہ کہ وہ ریاضت کرتے ہیں ،مگر اتنی ریاضت ؟ آشکار تھا کہ ہر ایک ان میں سے جواب دہ ہے مگر اس قدر جواب دہ ؟ وسیم اختر نے کہا : بھائی ! یہ پولیس کی نوکری ہے ،فون رات ڈھائی بجے بھی آجاتا ہے۔اپنی پارٹی سے ، اپنے لیڈر سے مگر ذرا سی شکایت بھی اسے نہیں تھی ،اسے ،نہ اس کے زیادہ ذمہ دار اور اہم ساتھی حیدر عباس رضوی کو ، جو اس سے کم بے باک اور اس سے زیادہ فصیح ہے۔ ایک سیاسی پارٹی نہیں ایم کیوایم ایک حکومت کی طرح چلائی جاتی ہے ۔کراچی میں کوئی بھی حکمران ہو ،ایم کیوایم ایک متوازی حکومت ہے ۔سارا دن اس کے ہزاروں کارکن اور سینکڑوں لیڈر سرگرم رہتے ہیں۔ ہمہ وقت فرائض کی انجام دہی میں مصروف۔ ہر روز ان میں سے ہر ایک کو جواب دینا ہوتا ہے۔ دوپہر ایک بجے صوبائی اسمبلی کے ایک ممبر سلیپنگ سوٹ میں ملبوس تھے ،برسرکار، ’’ ان کی نائٹ تھی ‘‘ ۔وہ ایک ذراسا مسکرائے ،کسل مندی ابھی تمام نہ ہوئی تھی۔ سارا دن نائن زیرو پر سائل آتے ہیں۔ فقط مہاجرنہیں۔سرائیکی ، پنجابی ، پٹھان ، ہزارہ وال ، کوہستانی ، چترالی ، سندھی ، بلوچی ، سبھی ۔ ان میں سے ہر ایک سے کوئی بات کرتا ہے،سنتا ہے اور سمجھتا ہے ، پھر سمجھاتا ہے ۔اب کسی کو اچھا لگے یا بُرا، اپنی رائے میں نے بدل لی ہے۔ ایم کیوایم کی عمر پوری نہیں ہوئی ۔اس کی بساط لپیٹی نہیں جاسکتی۔ ابھی وہ جیتی رہے گی ۔ہزاروں اس کے لیے لڑنے مرنے پر آمادہ ہیں ۔حال ہی نہیں ،اپنا مستقبل بھی انہوں نے اس سے وابستہ کرلیا ہے ۔ تقریباً ڈیڑھ سو خواتین ۔بالکل عام خواتین اور بچے ایک بڑے ہال میں جمع تھے ۔میرے بس میں ہوتا تو سبھی کی کہانیاں سنتا ۔چھ سات کی سن سکا اور میں نے خود کو روتے ہوئے پایا۔ لاپتہ لڑکے کا نام اویس تھا اور یہی میرے سب سے چھوٹے بیٹے کا ،جس کا خیال ہے کہ اس کے باپ کو اس کی کوئی خاص پروا نہیں ،حالانکہ ہر نماز کے بعد میں اس کے لیے دعا مانگتا ہوں اور ظاہر ہے باقیوں کے لیے بھی۔ میں نے اپنے آنسو پونچھے اور حیدر رضوی سے یہ کہا :بس جناب ۔وہ بھی رویا اور پھر سارا مجمع چیخ چیخ کر رونے لگا ۔ منہ ہاتھ دھوئے اور جوس کا ایک گلاس حلق میں انڈیلنے کے بعد میں نے مائیکرو فون پر ان سے بات کی جو ویڈیو پر محفوظ ہے۔ میرے سرکار ؐکا وہی فرمان : شرک کے بعد جھوٹی گواہی سب سے بڑا گنا ہ ہے۔ گواہی ؟سنبھل تو جانے دیجیے حضور ،حواس ٹھکانے تو آنے دیجیے ۔ بلندی پر میں کھڑا ہوں ۔ روشنی میں نہایا ہوا ۔اللہ دیکھتا ہے اور اس کے بندے بھی ۔ بولنا چاہوں تو جھوٹ بول نہیں سکتا اور اس کا شکر ہے کہ نہیں بول سکتا۔