ملک لمیٹڈ کمپنیاں نہیں ہوتے کہ دیوالیہ ہو جائیں۔ افراد نہیں ہوتے کہ مرجائیں۔ ڈوبیں تو وہ لیڈروں کی کم نیتی‘ کم ہمتی اور کم عقلی سے ڈوبتے ہیں۔ اب اگر کیڑے ہی ڈالنا ہوں تو دوسری بات‘ وگرنہ اس صورتِ حال میں‘ ملک جس سے دوچار ہے۔ امریکہ میں وزیراعظم اس سے زیادہ اور کیا کرتے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کی زبان میں کیا کدّو پہ تیر چلاتے۔ جنرل صاحب مرحوم صدر ریگن کی دعوت پر امریکہ گئے تو ایک سینیٹر سے ملاقات کی خواہش کی‘ پاکستان سے جسے خدا واسطے کا بیر تھا۔ نمازِ عصر کا وقت تھا۔ گھر پہ اس نے مدعو کیا تھا۔ داخل ہوتے ہی جائے نماز کی فرمائش کی۔ جائے نماز کہاں؟ بولے: کوئی اجلی چادر ہی لا دیجیے۔ ہمراہی حیران کہ سفر میں عصر اور ظہر ایک ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ جنرل صاحب کو سوجھی کیا۔ سوجھتی ہے۔ حالات جب سازگار ہوں تو بروقت سوجھتی ہے۔ ایک پیمانہ یہ ہے کہ قومیں تبھی بروئے کار آتی ہیں جب ان کا وجود خطرے سے دوچار ہو۔ یہ مگر قائداعظم محمد علی جناحؒ ایسے لیڈروں کا کام ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور نوازشریف ایسے ملاح تبھی کارگر ہوتے ہیں‘ جب ہوا حامی ہو۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں وزیراعظم نے حالات کا رونا رویا۔ ایسا نہ چاہیے تھا کہ آشکار حقیقت کو ملحوظ تو رکھا جاتا ہے۔ بیان کرنا مگر لازم نہیں ہوتا‘ اکثر مفید بھی نہیں۔ میاں صاحب جیسے لیڈر سے مگر کتنی امید کی جا سکتی ہے۔ پڑھتے وہ نہیں‘ ماہرین سے مشورہ بھی کچھ زیادہ نہیں کرتے۔ اس کے باوجود ان کی بدن بولی یہ کہتی ہے کہ کنفیوژن سے اب وہ نکل رہے ہیں۔ اعتماد لوٹ رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس چیز پر سب سے زیادہ زور انہیں دینا چاہیے تھا‘ اسی پر دیا… ڈرون حملوں پر۔ سیاست اور سفارت میں زیادہ اہم شخصیات نہیں‘ حالات ہوتے ہیں۔ اچھے تو ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کی مزاحمت بھی کر گزرتے تھے۔ اچھے تو جنرل محمد ضیاء الحق نے امریکی سفیر کو خیرآباد کے پل پر روک دیا تھا۔ بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی نیو اٹھا دی تھی اور جنرل نے اسے جاری رکھا‘ حتیٰ کہ 1983ء میں تکمیل کو پہنچا دیا۔ اس کے باوجود کہ فوجی حکومت تھی‘ جنرل نے ایک بار دعویٰ کیا کہ متزلزل ایران‘ افغانستان اور بھارت کے درمیان‘ پاکستان امن کا جزیرہ ہے… اور کیا چاہیے؟ شرح نمو 6 سے 7 فیصد تھی۔ مہنگائی قابو میں اور صنعت ترقی پذیر۔ 1987ء میں بھارتی افواج نے پاکستانی سرحدوں کا رُخ کیا۔ کرکٹ کا ایک میچ دیکھنے جنرل محمد ضیاء الحق بھارت گئے تو میچ کے بعد وزیراعظم سے تنہائی میں چند منٹ بات کرنے کی درخواست کی۔ لوٹ کر آئے تو اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اخبار نویسوں سے انہوں نے یہ کہا: ضیاء الحق کے چھکے کی کسی نے داد ہی نہ دی۔ داد کون دیتا‘ کسی کو علم ہی نہ تھا۔ وزیراعظم راجیو گاندھی سے انہوں نے جو کچھ کہا‘ اس کا خلاصہ یہ ہے: پاکستانی سرحدوں پر کھڑی اپنی افواج کو گولہ بارود (Live Ammunition) آپ نے جاری کردیا ہے۔ میں ایک سپاہی ہوں اور جانتا ہوں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ حملے کا فیصلہ۔ افغانستان میں‘ روس کے ساتھ ایک ہولناک جنگ میں ہم الجھے ہیں اور بھارت کے ساتھ تصادم کے ہم متحمل نہیں۔ اگر آپ نے حملہ کیا تو انتہائی اقدام کے سوا ہمارے لیے کوئی چارہ نہ رہے گا۔ یاد رکھیے کہ اگر آپ نے حماقت کا ارتکاب کیا تو کلکتہ اور ممبئی ایسے شہروں کے صرف نام ہی تاریخ میں رہ جائیں گے۔ راجیو گاندھی کی ٹانگیں کانپ اٹھیں۔ واقعی کانپ اٹھیں اور ملک کے لیے امن خرید لیا گیا۔ نہیں مانتے‘ ذہنی مریض نہیں مانتے۔ وہ کہ جن کا اندوختہ نفرت کے سوا کچھ نہیں۔ اُن سے الجھنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ تاریخ کوئی راز اپنے سینے میں چھپا کر نہیں رکھتی۔ قائداعظم کی صداقت شعاری پر بعض ہندو مؤرخین اور لیڈروں کی شہادت سامنے آ چکی اور آتی رہے گی۔ رہ گئے کٹھ ملا اور پاکستان کو دل سے قبول نہ کرنے والے۔ کچھ زیادہ ہی ترقی پسند‘ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ محبت اور نفرت تجزیہ کرنے نہیں دیتی‘ سنتی ہی نہیں‘ سوچے گی کیا‘ سمجھے گی کیا۔ گنجی نہائے گی کیا‘ نچوڑے گی کیا۔ پاک امریکہ تعلقات میں اسلام آباد ایک کمزور فریق ہے۔ ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ قوموں کے مزاج صدیوں میں بنتے ہیں اور آسانی سے بدلتے نہیں۔ ہم ایک انحصار کرنے اور توقعات پالنے والی قوم ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ پرلے درجے کے سہولت پسند۔ اس سے بھی بڑی لعنت یہ کہ ملوکیت اور غلامی کی صدیوں نے احساسِ کمتری اور خود ترحمی عام کردی ہے۔ خود پہ ہم ترس کھاتے ہیں‘ دوسروں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ فرد ہو یا کوئی قوم۔ کامرانی بھی اس کی اپنی ہوتی ہے اور ناکامی بھی۔ مغرب سے جب آپ بھیک مانگنے جائیں گے تو نتیجہ معلوم۔ وزیر خزانہ‘ متقی اور مہذب وزیر خزانہ اسحق ڈار نے فرمایا تھا کہ آئی ایم ایف سے‘ ہم اپنی شرائط پر قرض لیں گے۔ کیا مقروض اپنی شرائط پہ قرض لیا کرتا ہے؟ ذرا سی اخلاقی جرأت بھی ہوتی تو صاف صاف کہہ دیتے۔ اخلاقی جرأت مگر بازار میں نہیں بکتی اور کھرب پتیوں کے دل و دماغ میں آسانی سے اُگ بھی نہیں سکتی۔ چہار سمت اب مہنگائی کا عفریت ہے اور ایک شرمندہ سا وزیر‘ جس کی دولت دبئی میں پڑی ہے اور بچے جنتی ہے ؎ ظلم بچے جَن رہا ہے دن رات عدل کو بھی صاحبِ انصاف ہونا چاہیے امریکہ نہیں اپنے مسائل ہمیں خود حل کرنا ہیں۔ وزیراعظم کے ڈھنڈورچی مجھے معاف کر سکیں تو عرض کروں کہ اس باب میں جمہوریت کا رونا ایک بالکل ہی بے محل بات تھی۔ خود پاکستان میں بھی۔ خود ترحمی کی نہیں‘ لیڈروں سے راہِ عمل دکھانے کی امید رکھی جاتی ہے۔ جی ہاں! مسائل پیچیدہ ہیں اور بہت پیچیدہ۔ جی ہاں! جنرل پرویز مشرف اور جناب آصف علی زرداری کی حکومتیں کوڑے کے ڈھیر چھوڑ گئی ہیں۔ رونے دھونے سے مگر کیا حاصل؟ مسئلہ دہشت گردی ہے۔ وزیراعظم کو یقین ہے کہ مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے۔ مذاکرات فرمائیں مگر منصوبہ بندی کے ساتھ اور ہوش مندوں کی مدد سے۔ بقل بطوروں کے ذریعے نہیں۔ مسئلہ امن و امان ہے اور سلجھ نہیں سکتا‘ جب تک پولیس کو سیاسی اثرات سے پاک نہ کیا جائے۔ کراچی میں صورتِ حال بہتر ہوئی ہے تو اس لیے کہ جنرل رضوان اور ایڈیشنل آئی جی سمیت بہت سے افسر قانون کی حدود میں بروئے کار آنے کے لیے آزاد ہیں۔ ظاہر ہے کہ سول اور فوجی قیادت کی پشت پناہی سے‘ ہم آہنگی سے۔ جرائم پیشہ چنانچہ پسپا ہوتے جا رہے ہیں اور شہری آزاد۔ احتیاط اگر روا رکھی گئی اور عزم اگر برقرار رہا تو بالآخر شہر کو پائیدار امن بھی لازماً نصیب ہوگا۔ پیپلز پارٹی‘ اے این پی اور سنی تحریک نے راہ فرار اختیار کی۔ مقابل صرف ایم کیو ایم رہ گئی۔ مسئلہ ٹیکس وصولی ہے‘ وزیراعظم نے جسے طاقِ نسیاں پہ رکھ چھوڑا ہے۔ ایف بی آر کے لیے اچھے افسر کا انتخاب ہوا ہے مگر کیا وہ پوری طرح با اختیار ہے؟ رانا بلند اختر ایسے آڈیٹر جنرل کو تو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین کو کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ اس ادارے کی تنظیم نو ترجیح کیوں نہیں‘ جس کے افسر 600 ارب روپے سالانہ ہڑپ کر جاتے اور کم از کم 1400 ارب ٹیکس خوروں کو ہڑپ کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ ملک لمیٹڈ کمپنیاں نہیں ہوتے کہ دیوالیہ ہو جائیں۔ افراد نہیں ہوتے کہ مرجائیں۔ ڈوبیں تو وہ لیڈروں کی کم نیتی‘ کم ہمتی اور کم عقلی سے ڈوبتے ہیں۔