فیصلہ سپہ سالار کیا کرتے ہیں۔ سپاہی ان کی پیروی ۔ اب یہ تو آپ ہی بتا ئیے کہ آپ سالاری کے کس مقام پر فائز ہیں ۔ درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے اوّل ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کرتا ہوں ۔ جیسا کہ بعض دوست جانتے ہیں ، گزشتہ اٹھارہ برس سے اس عصر کے صوفی کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں ۔اصول یہ کہ استاد کیسا ہی کامل ہو ، انحصار شاگرد پہ ہوتاہے ۔ اگر یکسوئی اور خلوص کارفرما نہ ہو تو جیسا کہ قرآنِ کریم قرار دیتا ہے ، پتھر پہ برسی بارش رائیگاں ۔ بارہا اپنے بارے میں حسنِ ظن سے کام لیا ۔ محسوس کیا کہ کونپل پھوٹ پڑی ہے ۔بارہا ، بالکل برعکس ،پتھر پہ پانی ۔ کل شام اس دیار میں تھا کہ ایک نکتہ انہوںنے بیان کیا اور امید کا نخل ہرا ہونے لگا۔ وہاں سے مگر نکلا تو پھر وہی ویرانی ۔ سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی نیو یارک سے آئے ہوئے ایک صحافی سے مجھے ملنا تھا۔ حماقت کی حد یہ ہے کہ میں انہیں ایک سیاسی جماعت کا بدیسی لیڈر سمجھا۔ ایک پنج ستارہ ہوٹل میں، ان کے کمرے میں پہنچا تو انکشاف ہوا کہ وہ نیو یارک سے شائع ہونے والے جریدے ، ہفت روزہ اردو ٹائمز کے مدیر ہیں ۔ ماہِ گزشتہ جن سے ایک پیمان ہوا تھا کہ فلاں موضوع پر بات ہوگی ۔ اس اثنا میں میز پر پڑا جریدہ اٹھایا اور سرسری اسے دیکھنے لگا۔ یکایک اس طرح ، جیسے تاریکی میں بجلی چمکے ، راستہ روشن ہو گیا ۔ اس سوال کا حتمی اور مکمل جواب پا لیا ، برسوں سے جو کانٹا بن کر دل میں کھٹک رہا تھا۔ یہ نادرِ روزگار بلّھے شاہ کے چھ عدد مصرعے تھے ، جو وہاں سے پرواز کا آغاز کرتاہے ، جہاں دوسرے شاعروں کی سانس ٹوٹنے لگتی ہے ۔فرمایا: ریاضت کے مہ و سال اور عشروں کے باوجودسب ملّا اور سب پنڈت ہار گئے ا ور سچائی کو پا نہ سکے ۔ اے مسافر !اللہ کی اگر تلاش ہے تو اس کا ایک راستہ ہے کہ اپنے آپ سے ، اپنے نفس سے برسرِ جنگ ہو جا اور برسرِ جنگ ہی رہا کر۔ پانچ برس پہلے کی وہ شام یاد آئی ، جھٹ پٹے کی اداسی میں ، جب گرامی قدر استاد کو میں نے خلافِ معمول متفکّر اور خاموش پایا ۔سوال کیا تو دھیمے لہجے میں یہ کہا: لوگ مناصب کے آرزومند ہوتے ہیں مگریہ نہیں جانتے کہ پچاس برس کیسی جنگ اپنے خلاف میں نے لڑی ہے ۔ اللہ مہربان ہے اور جب اس کی رحمت بروئے کار آئے تو یونہی ٹوٹ کر برستی ہے ۔ اپنی ہمیشہ باقی اور برقرار رہنے و الی تصنیف کشف المحجوب میں ایک واقعہ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ نے لکھا ہے ۔ ایک سوال نے مدتوں سرگرداں کیا ۔ تلاش میں محو سفر تھے کہ تاجروں کے ایک گروہ سے واسطہ انہیں پڑا۔ خربوزے وہ کھاتے اور چھلکے فقیر پہ پھینکتے رہے ۔ عالی ظرفی کے ساتھ آپؒ نے لکھا ہے کہ ضبط سے کام لیا اور یکایک وہ راز کھل گیا ، جس کی آرزو میں وہ گردِ سفر تھے ۔ یہی فرق ہے ۔ یہی فرق ہے ۔ کچھ میرے جیسے کہ ہیرا پا کر کھو دیتے ہیں ۔ پھر وہ کہ راز کو پا لیتے ہیں تو سنبھال رکھتے ہیں ۔ پھر دوسرا موتی ، پھر تیسرا جوہر۔ خواجہ مہر علی شاہؒ نے لکھا ہے : وقفوں وقفوں سے تجلّیئِ برق ئِ عارضی،سالک سنبھال رکھے تو آخر وہ وقت بھی آسکتاہے کہ وہ تجلّی برقِ دائمی میں ڈھلتی ہے ۔ وہ سویرا داخل میں اترتا ہے ، جسے کبھی زوال نہیں ۔ اقبالؔ کے بقول، عبد دیگر، عبدہ چیزے دگر ہو جاتا ہے ۔ پھر دوسرے ہیں ، اقبالؔ جنہیں فقیہ شہر کہتاہے ، لغت ہائے حجازی کے قارون ۔ ایک دن فرمایا : فقر کی دنیابھی عجیب ہے ۔ جو اندر ہے ، اسے باہر سے غرض ہی نہیں ۔ جو باہر ہے ، اسے اندرکا رتّی برابر بھی علم نہیں کہ یہ قول کو عمل میں ڈھالنے اور پوری زندگی کو اسی راہ پر نثار کردینے کا عمل ہے ۔ وہ لوگ جنہوں نے پشاور اور کراچی ،حتیٰ کہ لاہور میں داتا گنج بخش سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کے مزار پر جیتے جاگتے انسانو ں کو چیتھڑوں میں بکھیرا اور اس پر فخر کیا۔ نہیں، علما کے ماننے والوںنے نہیں کہ کتنا ہی سنگین اور سخت ہو ، یہ تو فکر و نظر کا اختلاف ہے ۔ عالمِ دین اگر امام ابن تیمیہ ؒ ایسا سخت گیر بھی ہو تو شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے ذکر میں اس کا لہجہ موم ہو جاتاہے ۔ یہ ان کا ذکر ہے ، جو جہالت کو علم کہتے ہیں ، فرقہ پرستی کو دین ۔ بے گناہوں کے لہو میں تلوار ڈبو کر شریعت کے احکامات رقم کرنے والے ۔ کتاب میں یہ لکھا ہے : جنہوںنے اپنے گروہ الگ بنا لیے ، اے پیغمبرؐ تجھ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ کوئی تعلق نہیں ۔ اختلاف الگ ، مسلمانوں میں کوئی گروہ ایسا نہ گزرا تھا کہ شیخِ بغدادؒ کے جانشین داتا گنج بخشؒ کی شان میں گستاخی کرے ۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی تصوف کے نہیں تھے مگر اپنے چہیتے شاگرد میاں طفیل محمد کو کشف المحجوب کے ترجمے پر مامور کیاتھا۔ علم سبھی کی مشترکہ میراث ہے ۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ نہیں ،ان کا علم سے کوئی تعلق ہے نہ علماء سے ۔ اقتدار کی آرزو میں وحشی ، وہ ہر مقدس، پاکیزہ اور اجلی چیز کو تباہ کرنے پر تلے ہیں ۔ خارجی ، عالمِ اسلام کے اندر سے ابھرنے والے تاتاری ۔ نہیں ، وہ بھی نہیں ۔ چنگیز خان کا لشکر جو کچھ بھی تھا، وہ خود اپنی قوم کے دشمن نہ تھے ۔ وہ کسی کے آلہ ء کار نہ تھے ۔ یہ تو وہ ہیں ، جنہوںنے سوچنے اور سمجھنے ، حتیٰ کہ سننے سے بھی انکار کر دیا ہے اور اس انکار پہ وہ فخر کرتے ہیں ۔ مصائب جب طوفان در طوفان امنڈتے ہیں تو کیونکر سامنا کیاجاتاہے ۔ اللہ کی آخری کتاب رہنمائی کرتی ہے کہ جذبہء جہاد کے ساتھ اور اس جہاد کی شرائط ہیں ۔ علم ، حکمت اور حسنِ کلام۔ سر ہتھیلی پر مگر دل ٹھکانے پر۔ ایسا ہی کوئی منظر اقبالؔ کے تصور میں ہوگا، جب انہوںنے کہا تھا ۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری حیرت سے یہ بھی کہا تھا ۔ عشق کی تیغِ جگر دار اڑالی کس نے علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی ارشاد کیا تھا : یہ معاملے ہیں نازک ، جو تری رضا ہو تو کر، مجھے تو خو ش نہ آیایہ نظامِ خانقاہی ۔ کون سے خانقاہی نظام ؟ وہ کہ جس کا رشتہ ملوکیت اور ملائیت سے جڑے۔ اے کشتہ ء ِ سلطانی و ملائی و پیری ۔پھر وہ سیدنا علی بن عثمانؒ کے مزار کی طرف نگاہ اٹھاتے اور ارشاد کرتے ہیں ۔’’مرقدِ او پیرِ سنجر را حرم ‘‘وہ انہیں مخدومِ امم کہتے ہیں۔ ۔۔ امتوں کا سردار ۔ میں کھینچ کر لایا گیا ہوں ۔ یہ میرا منصب نہیں کہ اس موضوع پر اظہارِ خیال کروں ۔ اتنی سی بات تو مگر ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ جب آہی پڑے توحکمت اور یکسوئی کی انتہا کا مطالبہ ہی نہیں کرتی ، حیات کی نذر مانگتی ہے ۔ زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک اس سے کم پر تو یہ عزت نہیں ملنے والی اتنی سی بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے میں ادھوری کوشش اعترافِ شکست ہوتی ہے۔ جنہیں اپنی زندگیاں اپنے عقائد سے زیادہ عزیز ہو ں ،ان کا سفینہ کنارے پہ ڈوبتا ہے ۔ فیصلہ توآپ عالی مرتبت ہی کر سکتے ہیں ۔ طالبِ علم تو صرف اتنا جانتاہے کہ پہلے خواجہ ، خواجہ حسن بصری ؒ کے سامنے حجاج بن یوسف کا جاہ و جلال ڈھے پڑا تھا۔فیصلہ سپہ سالار کیا کرتے ہیں۔ سپاہی ان کی پیروی ۔ اب یہ تو آپ ہی بتا ئیے کہ آپ سالاری کے کس مقام پر فائز ہیں ۔ درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے (اسلام آباد کے مشائخ کنونشن میں پڑھا گیا)