اپنے اپنے نعروں کے سب قیدی۔ عالمِ اسلام کے آخری فکری مجدّد اقبالؔ نے یہ کہا تھا: براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چُھپ چُھپ کے سینوںمیں بنا لیتی ہے تصویریں سفر درپیش، مصروفیت بے پناہ، اس حال میں کھانے کا انتظار ۔ کوفت ہونے لگی تو نیچے اترا ، یاد دہانی کرائی۔ معلوم ہوا، گیس غائب۔ بتایا کہ کسی کو بازار بھیجا ہے، چپاتیاں خرید نے کے لیے۔ باورچی خانہ گیس سے محروم ہے تو تنور کیوں نہ ہوگا؟ ممکن ہے، وہ لکڑی جلاتا ہو۔ ٹائن بی نے کہاتھا: برصغیر میں پچھلے دس ہزارسال ایک ساتھ بروئے کار رہتے ہیں ۔ طالبِ علم کو عمران خان اور سیّد منوّر حسن یا د آئے، امریکہ سے نجات ضروری ہے مگر کیا اس سے پہلے چولہے کی گیس یا لکڑی کی کوشش نہ کی جائے؟ جمشید دستی ، جنہوںنے کہا کہ امریکی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ جمشید دستی تو خیر، مگر 1971ء میں فخرِ ایشیا، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی مطالبہ کیا تھا۔ پھر وہ دن طلوع ہوا جب ٹوٹے ہوئے ملک کے ایک حصے کا اقتدار سنبھالنے کے لیے ، نئے پاکستان کا نیا لیڈر ، نیویارک سے اسلام آباد روانہ ہونے سے پہلے واشنگٹن گیا۔ صدر نکسن سے ملاقات کے لیے، آشیر باد کے لیے۔ ہمہ جہتی خطرناک بحران میں، باقی ماندہ وطن کا وجود بھی اب خطرے سے دوچار تھا۔ اب اسے ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا تھا۔ احتیاط، توازن، اعتدال اور حکمت کا۔ باور کیا جاتا ہے کہ بھٹو بھارت دشمن تھے۔ ایک قوم پرست جو 1965ء کے معرکے میں حبّ وطن کی علامت بن کے ابھرے ۔ 1970ء کی انتخابی مہم کے بعد جو بھارتی وزیراعظم کا مذاق اڑایا کرتے: ’’مائی اندرا میں آرہا ہوں‘‘ وہ آئے مگر شملہ میں ، اندرا کی خدمت میں دلائل پیش کرنے کے لیے: اگر وہ90 ہزار پاکستانی قیدیوں کو رہا نہ کریں گی تو برصغیر ہیجان کا شکار رہے گا۔ حیرت انگیز چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، وہ اپنے مشن سے کامیاب لوٹے ۔ دوسری چیزوں کے علاوہ، اس طوفان میں بھٹو کی کامرانی کا ایک سبب یہ تھا کہ لاہور کے ہوائی اڈے پر جماعتِ اسلامی کے نئے امیر میاں طفیل محمد سمیت ملک کے تمام اہم لیڈروں نے انہیں الوداع کہا تھا۔ بھٹو کی پشت پر ان کی پوری قوم کھڑی تھی، شملہ میں وہ اکیلے نہ تھے ۔ شملہ سمجھوتہ نشر ہوا تو لاہور کے ٹائون ہال میں چودھری ظہور الٰہی مرحوم کو ایک تقریب سے خطاب کرنا تھا، پہلے سے جس کا وقت مقرر تھا، موضوع مگر بدلنا پڑا۔ معاہدے کو حزبِ اختلاف نے مسترد کر دیا اور اس کے حامی شعلۂ جوالہ تھے۔ دوسرے تو کیا، خود اپنے گھر کو پھونک دینے پر آمادہ۔ پاکستانی وزیراعظم کو انہوں نے غدّار کہا اور سمجھوتے کو نفر ت سے اٹھا پھینکا۔ ایک نوجوان رپورٹر نے چھوٹے سے اخبار کے لیے اپنے تجزیے میں لکھا: چودھری ظہور الٰہی کو خود ان کے مدّاحوں اور حامیوں نے مسترد کر دیا۔ بیالیس برس کی گرد جھاڑ کر، بوڑھا ہوتا ہوا یہ اخبار نویس اب یہ سوچتا ہے: بدترین حالات میں اس سے بہتر معاہدہ ممکن ہی نہ تھا۔ ایک دوسرا سوال مگر زیادہ پریشان کرتا ہے: بھٹو کو بھارت کے خلاف جذبات کی آگ بھڑکانے کی ضرورت کیا تھی؟ وہ آگ جس میں اس کا اپنا وطن جلا، دشمن نہیں۔ اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے: مقبولیت کے لیے، حصولِ اقتدار کے لیے۔ عمران خان کی طرح بھٹو نے بھی اقتدار چاہا مگر جمشید دستی اور سیّد منوّر حسن کیا ؟ رہے مولانا فضل الرحمن جن کے نزدیک امریکہ کا مقتول کتا بھی شہید کہلائے گا، تو ان سے سوال یہ ہے کہ ’’کتا شہید‘‘؟ اپنے حلقۂ انتخاب میں دستی کتنے ہی مقبول ہوں ، زیادہ سے زیادہ وفاقی وزیر بن سکتے ہیں ، وہ بھی تب کہ قسمت ان پر مہربان ہو ۔ اس پارٹی پہ نامہربا ن ، جو انہیں منصب سونپے۔ ذوالفقار عرف حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دینے والے سیّد منوّر حسن! صاف ستھرے الیکشن کے بعد جب جماعتِ اسلامی کی امارت انہوں نے سنبھالی تو اس ناچیز نے عرض کیا تھا: سچ بولنے والے مگر کڑھنے والے، کڑوے منوّر حسن۔ اپنے الفاظ میں واپس لیتا ہوں، مودبانہ معذرت: بغیر سوچے سمجھے سچ بولنے والے ۔ انیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں برصغیر کی تاریخ کے سب سے بڑے خطیب سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری نے کالج کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : بابو لوگو! قرآن پڑھا کرو، سید احمد شہید نہیں تو اقبالؔ کی طرح۔ اس نے پڑھا تو ہندوستان کے بت کدے میں اللہ اکبر کی صدا ہو گیا۔ انگریزی میں کہتے ہیں: Every body is entitled to his opinion۔ ہر شخص کو رائے کا حق ہے ۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہٗ کا ارشاد یہ ہے : ہر شخص کا اپنا سچ اور ہر شخص اپنے سچ کا ذمہ دار ہے ۔ سید صاحب اللہ کے پاس چلے گئے ۔ سادہ اطوار، نیک طینت مگر آخری درجے کے سادہ لوح۔ اگر انہوںنے تاریخ کا مطالعہ کرنے کی ذرا سی زحمت بھی کی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ سیّد احمد شہید کے مقابلے میں داڑھی منڈے اقبالؔ کہیں زیادہ انہماک سے قرآن پڑھا کرتے اور بہت دیر تک ۔ سید احمد شہید سے کہیں زیادہ وہ عربی جانتے تھے ۔ اس سے بھی زیادہ مشرق اور مغرب کی تہذیبوں کو ۔ 1938ء میں اقبالؔ کی وفات کے اگلے ہی دن 37سالہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا تھا : قرآنِ کریم ان کے لیے شاہ کلید تھا ــ Master Key ۔ ہر مسئلے کا حل وہ اللہ کی کتاب میں تلاش کرتے تھے ۔ 1964ء میں فوت ہونے والے ان کے خادم علی بخش اقبال منزل کے زائرین کو بتایا کرتے کہ صبح کی طویل تلاوت کے علاوہ دن میں کئی بار، پانچ سات دفعہ سے لے کر دس گیارہ بارتک ! اس کے اوراق میں وہ کھوئے رہتے ؛حتیٰ کہ چہرے پر سکینت اترنے لگتی ۔ سیّد منوّر حسن عطاء اللہ شاہ بخاری سے کتنے مختلف ہیں؟ ذوالفقار محسود کو شہید قرار دیتے ہوئے الطاف حسین کو انہوں نے قرآنِ کریم کے مطالعے کا مشورہ دیا۔ بالکل بجا، بالکل بجا، بالکل بجا۔ مؤذن مرحبا، بروقت بولا تری آواز مکّے اور مدینے طالبِ علم کچھ دیر سوچتا رہا ۔ شہید کے محاسن بھی مگر کتاب نے کیا شہید کی تعریف بھی متعین کی ہے؟ قرآنِ کریم سے پوچھوتو وہ لازماً بتاتا ہے:’’ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات۔۔۔‘‘ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ کہو۔ شہید وہ ہے، جو اللہ کی راہ میں جان دے ۔ ذوالفقار علی بھٹو ؟ بے نظیر بھٹو اور حکیم اللہ محسود؟ گستاخی معاف ، سوال یہ ہے کہ کیا وہ سب اللہ کی راہ میں مارے گئے یا اقتدار کی جنگ میں ؟ عرب شہزادے اور شاعرامراء القیس کی طرح ؟ تفاخر پسند ، نرگسیت کا مارا ہوا، جاہلیت کا فرزند مگر یہ شعور تو اسے تھا کہ وہ نام و نمود اور حکومت کے لیے برسرِجنگ ہے ۔کم از کم وہ ریاکار نہ تھا۔ قرآنِ کریم سے پوچھو تو اصول کا ایک اور چراغ بھی وہ جلاتا ہے:’’و قولوا قولا سدیدا‘‘(ہمیشہ پختہ بات کیا کرو۔) یہ بھی کہتا ہے کہ زندگی دلیل سے ہے اور موت دلیل سے محرومی ۔ ایک منوّر ارشاد یہ ہے: اللہ کے بندے زمین پر نرم روی سے چلتے ہیں ۔ شاید تاریخ کے مطالعے کا ایک زاویہ یہ بھی ہو سکتاہے : کس طرح لیڈر لوگ اپنے نعروں کے قیدی ہو جاتے ہیں ۔ بھٹو بھارت کے مخالف نہ تھے اورنواز شریف امریکی تاکید پر بھارت سے مراسم کی بہتری کے لیے بے تاب ۔ طالبان اسلام کے علم بردار ہیں مگر اسلام سے یکسر ہی نا آشنا۔ اپنے اپنے نعروں کے سب قیدی ۔ عالمِ اسلام کے آخری فکری مجدّد اقبالؔ نے یہ کہا تھا: براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چُھپ چُھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں