’’ہارون خواجہ کے گھر سے میں شادمان اٹھا۔ پھر قرآن کریم کی سورۃ یاد آئی۔توڑدینے والے امتحانوں میں کامل سرخروئی کے بعد جو سرکارؐ پہ کمال خوشخبری بن کے اُتری تھی۔ سرکارؐ کے لئے‘ سرکار کے خوش بخت ہم نفسوں کیلئے۔ ’’(اے نبیؐ) کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لئے کھول نہیں دیا اور تم پر سے وہ بھاری بوجھ اُتار دیا جو تمہاری کمر توڑے ڈال رہا تھا اور تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کر دیا پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔‘‘ شعبۂ حادثات کے کسی ڈاکٹر کی سی تیزی سے ہارون خواجہ نے دراز میں سے کتاب نکالی اور کہا ’’یہ اس میں لکھا ہے‘‘۔ پھر دوسری اور تیسری بار۔ حیران کن معلومات سے زیادہ‘ مجھے ان کی برق رفتاری نے پریشان کیا۔ ٹریفک کے کسی پُراعتماد کانسٹیبل یا آگ بجھانے والے کی طرح ان کی رفتار حیرت انگیز تھی۔ بار بار وہ قرآن کریم کا حوالہ دیتے اور پھر کسی مغربی ملک میں تازہ ترین تجربے، مطالعے یا ادارے کا… ’’اس قدر کٹر مذہبی آدمی‘‘ میں نے سوچا۔ اس کے ساتھ نباہ کیونکر ہوگا۔ دور، بہت دور‘ صحرا کنارے کوٹ ادّو میں سیلابی پانیوں میں ایک گائوں انہوں نے آباد کیا تھا۔ خود اپنے اور دوستوں کے سرمایے سے۔ سو فیصد مکینوں کے لئے روزگار کا بندوبست بھی۔ پانچ گھنٹے پر پھیلی بریفنگ۔ تعلیمی نظام میں خرابی کیا ہے اور کیونکر دور کی جا سکتی ہے؟ پنجاب میں ایک تہائی سکول اگر فرضی ہیں تو سبب کیا ہے؟ ہزاروں اساتذہ کی تنخواہیں کون ہڑپ کر جاتا ہے؟ افسر شاہی نالائق ہے یا ملوث؟ اب ایک اور صاحب اٹھے۔ بجلی کا بحران کس طرح سنگین ہوا۔ حل کیا ہے اور اس حل کو نافذ کرنے کا طریق کیا؟ اعدادو شمار کا ناقابل فہم گورکھ دھندا۔ ابھی ایک نکتے پر غور جاری تھا کہ دوسرا اتنا ہی اہم پہلو۔ یہ سب کچھ آدمی یاد کیسے رکھے؟ توجہ اور ا عتماد بحال رکھنے کی کوشش کی لیکن میں جانتا تھا کہ دیر تک انہماک برقرار نہ رہ سکے گا۔ گیارہ برس ہوتے ہیں‘ گوجر خان میں پروفیسر احمد رفیق اختر کا لیکچر جاری تھا۔ افتخار عارف نے سرگوشی کی: ہمارے بس کا نہیں بھائی‘ علم کا دریا بہتا ہے تو نگاہ خیرہ ہو جاتی ہے۔ کراچی کے جمیل یوسف کو غالباً ہماری حالت کا اندازہ تھا۔ ان کا موضوع‘ اگرچہ سب سے زیادہ تلخ اور تکلیف دہ تھا۔ کراچی میں دہشت گردی کی تصویر کشی۔ سامعین کو خوف زدہ پایا تو رکے اور یہ کہا: دہشت گرد ایسے بھی با کمال نہیں۔ ڈیڑھ دو سو کی گرفتاری ایک ’’کھوجے‘‘ کی وجہ سے ممکن ہوئی اور وہ ’’کھوجہ‘‘ میں ہوں۔ میں نے سکھ کا سانس لیا۔ کم از کم ایک مردِ مہربان تو تھا، ہم ایسے ذہنی محتاجوں کا‘ جسے خیال تھا۔ عمران خان ’’دنیا‘‘ کے دفتر سے رخصت ہونے لگے تو میں نے ان سے کہا: ہارون خواجہ کی بات ذرا توجہ سے سننا، وہ دوسروں جیسا نہیں۔ قومی مسائل پر ترقی یافتہ ممالک میں بھی شاذ کسی نے اس قدر عرق ریزی کی ہوگی۔ حساس بھی ایسے لوگ بہت ہوتے ہیں۔ ملک جس طرح پاتال کی طرف روانہ ہے‘ اضطراب اس میں فطری ہے۔ تباہی کے عشروں سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ گرانی، بدامنی اور معیشت کی بربادی تو الگ‘ جنرلوں اور تاجروں کی حکمرانی کا نتیجہ اور کیا ہوتا۔ ایسے بدبختوں سے ہمارا واسطہ ہے‘ جنہیں یہ پروا بھی نہیں کہ ملک کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ 1857ء میں دلّی کو خیرباد کہہ دینے والے میر مہدی کا پہلا سندیسہ، اسد اللہ خاں غالب کو موصول ہوا تو جواب میں لکھا: ’’تمہارے خط نے میرے ساتھ وہ کیا جو پیرہن نے یعقوبؑ کے ساتھ کیا تھا۔‘‘ اگر کسی کا دل پتھر نہیں تو اخبار کے دفتر میں موصول ہونے والا ہر دوسرا کالم اور ہر تیسری خبر‘ میری مہدی کا خط ہو گئی ہے۔ فریاد اور فریاد اور فریاد۔ حکمرانوں کا اندوختہ فقط وعدے ہیں، خوش کن خواب اور نعرے ہیں۔ خوشامدیوں کے ٹولے ہیں‘ ہر شام جو ٹی وی پر نمودار ہوتے اور دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ملک میں ڈھنگ کا مزاح لکھنے والے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ چاروں طرف چڑچڑے پن کی حکمرانی ہے۔ ہارون خواجہ سے مل کر مایوسی تمام ہو گئی۔ کچھ لوگ تو باقی ہیں‘ جن کے حواس اس طوفان میں سلامت ہیں۔ دو بڑی بڑی فائلیں وہ اٹھا لائے اور بتانا شروع کیا: یہ ہے معیشت کی بحالی کا منصوبہ۔ یہ ہے بجلی پیدا کرنے کے ماہرین کا مرتب کیا ہوا خاکہ۔ گیس کے لئے برسوں کی عرق ریزی کا حاصل یہ ہے۔ صحت کے مسائل حل کرنے کے لئے ایک منصوبہ ہم شروع کر چکے۔ جس موبائل یونٹ پر حکومت پنجاب 7 کروڑ لُٹاتی ہے، وہ ہم نے پچاس لاکھ روپے میں بنایا اور خوش اسلوبی سے بروئے کار ہے۔ ادھر سوال کیا‘ ادھر ٹھک سے جواب بتایا: مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے وابستگی کے ماہ و سال اور بعد کے ایام انہوں نے تحقیق میں گزارے اور مسلسل تحقیق میں۔ حسن اتفاق یہ کہ ایک کے بعد دوسرا مخلص دوست ملتا رہا۔ لوگ آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا۔ منصوبہ بندی مکمل ہوگئی۔اک چراغ اور چراغ‘ اور چراغ اور چراغ۔ اب نفاذ کا مرحلہ ہے۔ آئندہ الیکشن میں سیاسی تبدیلی اگر متشّکل ہو سکی۔ اگر ایوان اقتدار تک معقول لوگ رسائی پا سکے تو فوراً ہی آغازِ کار ممکن ہوگا۔ پھر انہوں نے وہ جملہ کہا، جو ہمیشہ کہتے ہیں: کوئی ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں‘ جس کا حل موجود نہ ہو‘ بس نیک نیتی درکار ہے۔ ہارون خواجہ کے گھر سے میں شادمان اٹھا۔ پھر قرآنِ کریم کی سورۃ یاد آئی۔توڑدینے والے امتحانوں میں کامل سرخروئی کے بعد جو سرکارؐ پہ کمال خوشخبری بن کے اُتری تھی۔ سرکارؐ کے لئے‘ سرکار کے خوش بخت ہم نفسوں کیلئے۔ ’’(اے نبیؐ) کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لئے کھول نہیں دیا اور تم پر سے وہ بھاری بوجھ اُتار دیا جو تمہاری کمر توڑے ڈال رہا تھا اور تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کر دیا پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔‘‘ (12 ستمبر 2012ء کو لکھا گیا۔ کپتان کا کمال یہ ہے کہ ہارون خواجہ ایسے ہر مردِ کار سے اس نے گریز کیا اور ہر نابکار کو اب تک سینے سے لگا رکھا ہے)