قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے جنہوں نے حق کی نصیحت کی اور صبر کی چیف جسٹس نے سوال کیا ہے کہ منچھر جھیل کی آلودگی سے مرنے والے شہری شہید ہیں یا نہیں۔ اخباری کالموں کا موضوع نہیں ، یہ اہل علم کا منصب ہے۔ وہ لوگ کہاں ہیں‘ قرآن مجید جنہیں الراسخون فی العلمکہتا ہے؟ جن سے رہنمائی طلب کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ اہل علم اور اہل ذکر سے‘ زمین سے نہیں جو آسمان سے زندگی کو دیکھتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: ’’علیکم مجالس بالابرار‘‘ تم پر لازم ہے کہ ابرار کے ہاں جاتے رہا کرو۔ ابرار کون ہیں؟ کتاب میں وضاحت ہے ’’والکاظمین الغیظ‘‘ غصہ پی جانے والے‘ خواہ تنگ دست ہوں، دوسروں کی مدد کرنے والے ۔یذکرون اللہ قیاماً و قعوداً و علیٰ جنوبھم۔ کھڑے اور بیٹھے ہوئے‘ اپنے پہلوئوں کے بل لیٹے ہوئے‘ جو اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا: درجات علم کے ساتھ ہیں اور ہر علم والے کے اوپر ایک اور علم والا ہے۔ فرمایا کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ۔ ملک فکری انتشار میں مبتلا ہوتے ہیں تو اصطلاحوں کا مفہوم بدلنے لگتے ہیں۔ ایک ناقص عدالتی کارروائی میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پا گئے تو انہیں شہید کا درجہ عطا ہوا۔ یوں تو سینکڑوں بے گناہ ان کے دور میں قتل کیے گئے ۔ اس میں مگر رتی برابر بھی شبہ نہیں کہ ڈیرہ غازی خان کے جاگیرداروں کو شکستِ فاش دینے والے ڈاکٹر نذیر احمد شہید اور احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان‘ فخر ایشیا اور قائد عوام کے حکم پر مارے گئے۔ ڈاکٹر نذیر احمد کے قتل کی تو تفتیش ہی نہ ہو سکی ۔ نواب محمد احمد خان قتل کیس میں یہ ہوا کہ حقیقی تفتیش کی بجائے ،فوجی حکمران نے اس شخص کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالنے کے لیے ساری سرکاری قوت صرف کر ڈالی ۔برسوں کی اسیری اور توہین سے دوچار اسفند یار ولی خان کے والد گرامی عبدالولی خان نے جنرل سے کہا تھا: قبر ایک ہے اور آدمی دو۔ججوں کو ہموار کیا گیا اور گواہ سرکاری اہتمام سے لائے گئے۔ فعال طبقات اور عوامی اکثریت نے اس فیصلے کو کبھی تسلیم نہ کیا۔ قرائن یہ تھے اور کم و بیش سبھی متفق ہیں کہ شک کا فائدہ پا کر انہیں بری ہونا تھا۔ دو سوالوں کا جواب البتہ نہیں ملتا: بھٹو کی ذاتی فوج ایف ایس ایف کو کیا پڑی تھی کہ وزیراعظم کا تمسخر اڑانے والے‘ ان کی پارٹی کے باغی رکن کے بوڑھے والد کو قتل کرتی؟ شواہد یہ ہیں کہ انہی نے حکم دیا تھا اور دلیل یہ بھی ہے کہ ایک آدھ نہیں‘ کئی بار احمد رضا پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ ایک بار تو وہ مار ہی ڈالے گئے تھے‘ عین وقت پر ، ایک فوجی گاڑی آ پہنچی اور آخری زخم لگائے نہ جا سکے۔ ثانیاً اگر بھٹو کے حکم پر ایس ایف نے نواب محمد خان کے قتل کا کارنامہ انجام نہ دیا تھا تو اور کس نے؟ چالیس سال گزر چکے اور کسی دوسرے آدمی پر شبہ تک ظاہر نہ کیا جا سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے‘ جنونی احمد رضا کا اختلاف‘ کس بات پر ہوا تھا ؟ اپنے لیڈر کی طرف سے‘ انہوں نے ڈھاکہ میں بلائے گئے‘ قومی اسمبلی کے ا جلاس کے بائیکاٹ سے انکار کردیا تھا۔ اگر یہ اجلاس ہو سکتا تو شیخ مجیب الرحمن وزیراعظم چن لیے جاتے۔ یہ بات مگر نیم پاگل اور ہوسِ اقتدار کے مارے یحییٰ خان اور بھٹو کو گوارا نہیں تھی۔ ملک ٹوٹ گیا اور یہیں سے تاریخ کے اس المناک عہد کا آغاز ہوا‘ جس کی گتھیاں اب تک ہم سلجھا نہیں سکے۔ کوئی نشہ‘ اقتدار کے نشے سے بڑھ کر نہیں۔ آدمیت کی ساری تاریخ‘ غلبے کی اسی تمنا سے خوں رنگ ہے‘ جو اقتدار کے پاگل پن سے جنم لیتی ہے۔ کبھی اس کے حصول اور کبھی اسے برقرار رکھنے کی تمنا میں۔ اپنی حکومت جنرل محمد ضیاء الحق کو بچانا تھی اور بھٹو کو پھر سے حاصل کرنا تھی۔ دو آدمی اور ایک قبر۔ دو فقیر ایک گدڑی میں سو سکتے ہیں‘ ایک محل میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ اس لیے شہید قرار پائیں کہ دہشت گردوں نے بے دردی سے انہیں ہلاک کر ڈالا؛ اگرچہ مجھ ایسے بہت سے لوگوں کی رائے میں انکل سام نے۔ درندگی کا المناک مظاہرہ‘ پوری قوم نے جس کا سوگ منایا۔ مقبول اور محبوب لیڈر یاد رکھے جاتے ہیں اور والہانہ وارفتگی کے ساتھ۔ ان کے لیے گیت لکھے جاتے ہیں اور مدتوں انہیں رویا جاتاہے۔ ملوکیت کی ماری ایک قوم میں یہ رجحان کچھ اور بھی شدت سے کارفرما ہوتا ہے کہ اللہ نہیں‘ وہ بادشاہوں کو نجات دہندہ دیکھتی ہے ۔ قانون کی عملداری نہیں‘ فیاض حکمرانوں کی عنایات میں وہ امید کی کرن ڈھونڈتی ہے ۔ یہاں تک تو قابل فہم مگر شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو بھی شہید قرار پائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح جناب منور حسن نے حکیم اللہ ایسے شخص کو منصبِ شہادت پر براجمان کیا۔ صدیوں سے ملوکیت اور مظالم کا شکار‘ رنج اور ردعمل میں ہم جیتے ہیں۔ اشتعال‘ برہمی اور ناراضی میں زندگی کرتے ہیں۔ اعتدال‘ توازن اور حسنِ فکر سے محروم۔ اگر نفاذ اسلام کے لیے برپا‘ تحریک اسلامی کا منتخب اور تہجد گزار لیڈر ایک قاتل کو شہید کہہ سکتا ہے تو مرتضیٰ اور شاہنواز کیوں نہیں؟ مرتضیٰ بھٹو کے منہ زور کارندے کراچی کے شہریوں سے بھتہ وصول فرمایا کرتے۔ بموں کے دھماکے کیا کرتے۔ سر سے پائوں تک وہ ایک دہشت گرد تھا۔ لندن سے شائع ہونے والی ضخیم کتاب \"The Terrorist Prince\" اس آدمی کی داستان حیات بیان کرتی ہے۔ پی آئی اے کا جہاز اس نے اغوا کرایا‘ درجنوں بے گناہوں کا وہ قاتل تھا۔ سرزمین شام کے پچاس ہزار سے زیادہ شہریوں کو بے دردی سے ذبح کرنے والے حافظ الاسد کا مہمان۔ اس سے پہلے اپنے تیرہ لاکھ ہم وطنوں کو روسیوں کی مدد سے مار ڈالنے والے کمیونسٹ کارندوں کا۔ رہا بے چارہ شاہنواز تو خود اس کی دل گرفتہ بہن‘ بے نظیر بھٹو کا خیال یہ تھا کہ بیوی نے اسے زہر دیا۔ منشیات کی لت میں مبتلا‘ بے وطن شہزادہ بے بسی کی موت مرا۔ ہمدردی اس سے ہونی چاہیے اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے… مگر شہید؟ شہید وہ ہیں‘ جو جان ہتھیلی پر لے کر نکلتے اور اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں۔ جو اقتدار کی کشمکش میں ہلاک ہوئے‘ وہ ہلاک ہوئے۔ ریاست‘ جب ریاست کا کردار ادا نہیں کرتی۔ پولیس اور عدالت جب قانون نافذ نہ کریں۔ انصاف سے جب معاشرہ محروم ہو۔ حکمران جب دولت سمیٹنے اور مزے اڑانے میں مصروف ہوں۔ جب قائم علی شاہ اور پرویز خٹک ایسے وزرائے اعلیٰ مسلط کر دیئے جائیں۔ سیاسی سرگرمیوں کی جب پوری آزادی ہو اور انصاف کا حصول ناممکن نظر آئے تو طوائف الملوکی پھیلتی ہے۔ آج تک ہم یہ سمجھتے آئے تھے کہ ایسے میں جان و مال خطرے میں پڑتے ہیں اور سبھی کے۔ اب اپنے قومی تجربے پہ غور کرتے اور پلٹ کر تاریخ کی طرف دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہی نہیں۔ ہیجان کے اس ماحول میں بہت سے لوگ توازن کھو دیتے ہیں۔ ذہنی توازن کے لیے احساسِ تحفظ درکار ہے۔ خوف سے نجات اور عدل کی ضمانت۔ ایک ذمہ دار شخصیت نے مجھے بتایا : مجلس شوریٰ کے اجلاس میں دو تہائی سے زیادہ نے سید منور حسن کے نقطۂ نظر کو مسترد کردیا۔ امیر العظیم سمیت صرف سات آٹھ ارکان نے ان کی حمایت کی۔ مقبولیت کے لیے فوج سے تصادم کا مشورہ دیا۔ لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ وغیرہ نے بچ نکلنے کا مشورہ دیا۔ المناک یہ ہے کہ غلطی کا ادراک اور اعتراف کرنے کی بجائے‘ پارٹی نے تاویل کی راہ چنی اور بربادی کا راستہ اختیار کر لیا۔ سید صاحب اگر مخلص ہیں تو انہیں مستعفی ہونا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ہونا ہی پڑے۔ جماعت اسلامی اگر زندہ رہنے کی آرزو مند ہے تو اپنا احتساب اسے خود کرنا چاہیے۔ ہوش کے ناخن لو اور زندہ رہو۔ صرف جماعت اسلامی نہیں‘ ہم سب کا حال یہ ہے کہ دوسروں سے انصاف کا مطالبہ کرتے اور اپنے لیے تاویلات تراشتے ہیں ۔دلوں اور دماغوں میں نہیں بستا، اللہ صرف ہمارے ہونٹوں پہ آباد ہے ۔ قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے جنہوں نے حق کی نصیحت کی اور صبر کی