خود احتسابی! خود احتسابی واحد قرینہ ہے حضور، جسے اختیار کر کے فرد سرخرو ہو سکتاہے اور انسانوں کا ایک اجتماع بھی ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: پروردگار جسے ہدایت دینا چاہے، اس کی آنکھ اپنے آپ پر کھول دیتاہے ۔ صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب راولپنڈی میں دونوں فرقوں کے علمائِ کرام نے جو کارنامہ انجام دیا، اس پر غور کرتے ہوئے ، بالآخر اس کے سوا کچھ نہیں سوجھتا کہ ؎ آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی ٹیلی ویژن کو تفصیل سے گریز ہے اور سبب معلوم ۔ جلوس کی خبر نگاری کرنے والے صحافی دوستوں سے رابطے کی کوشش کی جاتی ۔ جڑواں شہروں میں موبائل سروس مگر آج تیسرے دن بھی معطل ہے اور وجہ آشکار ۔ راولپنڈی میں کرفیو نافذ ہے اور اس قدر سختی کے ساتھ کہ خلاف ورزی کرنے والے ہر شخص کو فوجیوں نے گرفتار کر لیا، جو شہباز شریف کی پولیس ناکام ہونے پر بلائے گئے ۔ حکومتِ پنجاب نے عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔ وزیرِ قانون رانا ثنا ء اللہ نے اعلان کیا کہ کسی مرتکب کومعاف نہ کیا جائے گا۔ دہشت گردی کا قانون ان پر نافذ کر دیا جائے گا۔ ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا نویں اور دسویں محرم قرار سے گزری۔ خفیہ ایجنسیوں نے اپنے فرائض یکسوئی اور عرق ریزی سے ادا کیے اور پولیس نے بھی ۔ خاص طور پر کراچی پولیس نے ۔ ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات سے پوچھا گیا تو منکسر آدمی نے یہ کہا: ہر کہیں ، ہر چیز کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا، ہر کہیں ہرقدم بروقت اٹھایا ۔ اللہ نے کرم کیا اور ہم سرخرو رہے ۔ وہ شاد تھے اور سارا ملک بھی لیکن پھر راولپنڈی کے فوارہ چوک سے وہ خبر آئی کہ سب سکون جاتا رہا۔ گیارہ شہری موت کے گھاٹ اتر گئے اور ستّر زخمی ۔ ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام سے محدود سی معلومات ہی مل سکیں ۔ جلوس کے راستے میں واقع ایک مدرسے میں نمازِ جمعہ کا اجتماع معمول کے بعد بھی جاری رہا ، جس نے ماتم گسار وں کو برہم کر دیا ۔ کون سی ایسی بات انہوں نے کہی ، یہ معلوم نہیں لیکن پھر یہ ہوا کہ جلوس میں شامل جذباتی نوجوانوں نے پولیس سے رائفلیں چھین لیں اورمارکیٹوں کو نذرِ آتش کیا۔ حکم لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔ عدالتی تحقیقات‘ اگر واقعی تحقیقات ہوں تو معلوم ہو جائے گا کہ کون کون قصوروار ہے ۔وزیرِ اعلیٰ سے اس باب میں انصاف کی امید کی جا سکتی ہے ۔اخبار نویس صابر شاکر نے کہ عینی شاہد ہے ، دردمندی کے ساتھ یہ کہا : دوسرے فرقے کا اجتماع نہ ہونا چاہیے تھا لیکن دوسری طرف جلوس کے شرکا تحمل کا مظاہرہ کرتے تو ہرگز یہ حادثہ رونما نہ ہوتا۔ اس نے یہ بھی کہا : اوّل اوّل صورتِ حال پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ اگر جلوس کے منتظمین جذباتی نوجوانوں کو سمجھاتے ، ان کی راہ روکنے کی تدبیر کرتے۔ ع ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا چارہ گر؟ اخبار نویس کو اصرار تھا کہ ٹیلی ویژن پر امن اور محبت کے پھول بکھیرنے والے دراصل سنگ دل تاجر ہیں ۔ اپنے دفاتر اور عبادت گاہوں میں اپنے حامیوں سے وہ ایک لہجے میں بات کرتے ہیں اور برسرِ عام بالکل دوسرے انداز میں۔ اردو اور فارسی شاعری صدیوں سے واعظ کی مذمت کرتی آئی ہے ۔ اس پر انحصار کیجئے تو پرلے درجے کا ریاکار نہیں تووہ مصلحت کیش اور مفاد پرست ضرور ہے ۔ چلیے ، شاعری کو شاعری کہہ کر مسترد کر دیجئے ۔ کہیے کہ شاعر وہ ہیں ، جو خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے ہیں مگر اقبالؔ کا کیا کیجئے ؟ حکیم الامت علّامہ محمد اقبالؔ ، وہ کہ صدیوں کے بعد مسلم برصغیر جس پر متفق ہوا اور امت کا اتحاد بجائے خود ایک مسلّمہ چیز ہے ۔ وہ آدمی کہ جو سنی اور شیعہ نہ تھا‘ وہابی ، بریلوی اور دیو بندی نہیں ۔ جو معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے اوپر اٹھا اور تاریخ نے گواہی دی کہ وہ مسلمانوں کی محبت میں جیا اور مسلمانوں کی محبت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا؛ حتیٰ کہ ایثار اور علم کا استعارہ ہو گیا۔ مولوی صاحب سے وہ کیوں بیزار ہے اور اس قدر بیزار؟ میں جانتا ہوں انجام اس کا جس معرکے میں ملّا ہوں غازی عمر بھر وہ ان کے خلاف شمشیرِ برہنہ کیوں رہا ؟ وہی کیا، صدیوں پہلے امام غزالیؒ اور ابنِ جوزیؒ بھی ، جدید نفسیاتی مطالعوں کے اوّلین پیشرو بلکہ امام ۔ اس کے ساتھ جڑا ہوا ایک سوال یہ ہے اور یہ سوال تاریخ کے بطن سے پھوٹتاہے کہ بالعموم علماء کامران کیوں نہ ہو سکے اور بالعموم صوفیا کیوں ظفر مند ہوئے؟ علماء میں یقینا ایسے تھے ، جو اعلائِ کلمتہ الحق کے لیے اٹھے ۔ جابر شہنشاہوں سے ٹکرائے اور اس طرح ٹکرائے کہ تاریخ کے دوام میں زندہ رہیں گے ۔ ان سے کتنا ہی اختلاف ہو مگرامام خمینی ،مگر سید ابوالاعلیٰ مودودی ۔ ان کا مسلک اور ان کا نقطہ ء نظر تو ہمیں گوارا نہیں مگر کیا انہوںنے استعمار اور آمروں کی ہیبت کو حقیر نہ بنا دیا؟ کیا اپنی ذاتی زندگیوں میں وہ قابلِ رشک نہ تھے ، اجلے اور قابلِ رشک؟ اس کے باوجود آخری تجزیے میں وہ ناکام کیوں رہے ؟ یہ ایک سنگین سوال ہے مگر اس سے بھی زیادہ سنگین یہ حقیقت کہ کوئی اس پر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ ادھر طعنہ زنی کرنے والے مغرب کے مرعوبین ہیں۔اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں ۔ نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے۔ المناک ذہنی اور اخلاقی افلاس میں مبتلا کہ مسولینی پر لکھی گئی اقبالؔ کی نظم یاد آتی ہے ۔ میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتاہے کیوں ہیں سبھی تہذیب کے اوزار تو چھلنی میں چھاج علماء کی روش میں خرابی کہاں ہے ؟ کوئی چیخ کر کہے گا، خدافروشی میں کہ وہ مذہب کے کاروباری ہیں۔ طالبِ علم کا دھیان سیّد منوّر حسن کی طرف جاتاہے ۔ وہ تو نہیں ۔ تہجدگزار ، سادہ اطوار، معمولی پہننے والے ، کمترین وسائل میں بسر کرنے والے ۔ ان سے پوچھا جائے تو فیضؔ کی زبان میں وہ یہ کہہ سکتے ہیں ۔ ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال، منال کا پوچھتے ہو جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں خیال بھٹکتاہے اور حسرت موہانی کے دیار تک جاپہنچتاہے ۔ وہ فقیر شاعر، جسے ہم استعمار کے بندی خانوں میں دیکھتے ہیں یا خانقاہوں کے دروازوں پر۔ ہے مشقِ سخن جاری ، چکی کی مشقّت بھی ۔ اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی ۔ کبھی کبھی گمان ہوتاہے کہ اگرچہ وہ کوئی عظیم صاحبِ علم نہ تھا مگر بھید کو اس نے پا لیا تھا۔ ہمیشہ باقی رہنے والا یہ بیت ورنہ وہ کیسے لکھ پاتا۔ کچھ بھی حاصل نہ ہوا زہد سے نخوت کے سوا شغل بیکار ہیں سب تیری محبت کے سوا اگرچہ فرقہ پرستی سے وہ پاک رہی اور خدمتِ خلق میں اس کا کردار ماہتاب ہے مگر جماعتِ اسلامی سمیت سب مذہبی پارٹیاں زوال کی راہ پر بگٹٹ بھاگ رہی ہیں ۔اپنی کج فکری کے قیدی۔ وفورِ جذبات کے زندانی ۔ تعصبا ت کے اسیر۔ کسی کو فرصت نہیں کہ دم لے اور غور کرے ۔ خود احتسابی! خود احتسابی حضور! یہی واحد قرینہ ہے ، جسے اختیار کر کے فرد سرخرو ہوسکتاہے اور انسانوں کاایک اجتماع بھی ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے : پروردگار جسے ہدایت دینا چاہے، اس کی آنکھ اپنے آپ پر کھول دیتاہے ۔ پسِ تحریر: راولپنڈی میں پولیس نے بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ جانتے سب ہیں ، بولتا کوئی نہیں ۔ پوٹھوہار میں ایک تھانیدار اور ایک پٹواری بھی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی مرضی کے بغیر متعین ہو سکتا ہے اور نہ برقرار۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ راولپنڈی ڈویژن ایک شخص کا یرغمال نہ رہے ؟ ثانیاً سبھی جانتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے چار ممالک پاکستان میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کے ذمہ دار ہیں ۔ متحارب گروہوں کی وہ مالی سرپرستی کرتے ہیں۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ حکومت ان سے بات کرے اور مالی مدد وصول کرنے والوں کو نمونہء عبرت بنا دیا جائے۔ قانون اگر نافذ نہ ہو گا تو فساد کی جڑیں باقی رہیں گی۔