بے شک قدرت مہلت دیتی ہے مگر محدود مہلت۔ وقت کا فرمان جو نہیں پڑھتے ، انہیں وہ روند کر گزر جاتاہے ۔ لاہور کے شاعر نے یہ کہا تھا ؎ بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے آنے والے کل میں کیا لکھا ہے ، وہ صرف علاّم الغیوب جانتا ہے ۔ وہ جو نہاں خانۂ دل میں پلتی آرزوئوں اور تاریک غاروں میں چلتی چیونٹیوں کی صدا سنتاہے ۔ ہم فقط اپنے محدود علم اور دانا لوگوں کے مشورے سے رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جیسا کہ ہمیشہ عرض کرتا ہوں ، انسانی اندازے درست ہوتے ہیں اور نادرست بھی ۔ قرآنِ کریم کی ایک آیت مگر یہ قرار دیتی ہے کہ گاہے گمان سچا ہو تاہے ۔ فقط معمول کی عبادت نہیں ، اصحابِ رسولؓ کا شعار یہ تھا کہ اٹھتے بیٹھتے اور پہلوئوں کے بل لیٹے ہوئے وہ مالک کو یاد کیا کرتے ، جس کی رحمت بے حد و حساب ہے ۔ ان میں سے ایک خوش بخت مصروف تھا کہ سرکارؐ تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا پڑھتے ہو۔ عرض کیا: یا رسول اللہ ؐ: لا حول ولا قوۃ الّا باللہ۔ فرمایا: پڑھو ، یہ دنیا اور آخرت کی 99مصیبتوں کا علاج ہے اور سب سے چھوٹی مصیبت غم ہے (کہ اکثر باطل ہوتاہے یا عارضی)۔ اس کے ساتھ ہی کتاب مگر حکم لگاتی ہے کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے ، جس کی انہوں نے کوشش کی۔ جنرل بخت خان اصرار کرتا رہا اور بہادر شاہ ظفر کا جی آمادہ بھی تھا کہ انگریز کے خلاف میدان میں نکلے ۔ مزاحمت کا پھل پکنے کو تھا اور جذبات جوالہ تھے مگر بادشاہ تذبذب کا شکار رہا ۔ وہ جنگ ہار دی گئی ، جس کے بعد غلامی کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہونا تھا ۔ برصغیر آزادی کا ولولہ پہلے ہی کھو چکا تھا، زیادہ صحیح الفاظ میں اس کے امراء۔بہادر شاہ ظفر کی ملکہ انگریزوں کے ساتھ سازباز میں مصروف تھی اور کئی دوسرے بھی ۔ چوہدری نثار علی خان سے کبھی رسم و راہ تھی۔ ایک دن ان سے عرض کیا کہ مسلم برصغیر کی اشرافیہ دنیا کی بدترین اشرافیہ ہے ۔ بعد میں لاہور کے ایک بزرگ کالم نگار نے ’’بدمعاشیہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی۔ اچھی ہے مگر یہ بدمعاش بھی کہاں ہیں ، اصل میں بھک منگے ۔ چوہدری نثار نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور بولے : عربوں کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے ۔ میں ٹھٹک گیا۔ بات ان کی درست تھی ۔ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا؛اگرچہ ملائشیا کے مہاتیر محمد کا استثنیٰ واضح ہے ۔ ترک جانباز بھی ، بدترین حالات میں جنہوں نے پہل قدمی اور حکمت کو آمیز کیا ؛حتیٰ کہ فلاح پا لی۔ چوہدری نثار کا ذکر بے سبب نہیں ۔ چار برس ہوتے ہیں ، مجھ ناچیز کو انہوںنے عزت بخشی ۔ وزیر اعلیٰ شہبا ز شریف کے ساتھ غریب خانے پر تشریف لائے ۔ جم کر گفتگو نہ ہو سکی مگر چند باتیں ان کی خدمت میں عرض کیں ۔ ایک ہفتہ پہلے ہی عمران خان سے ان کا بگاڑ ہوا تھا اور اسی گھر پہ۔ کپتان نے یہ کہا کہ وزیر بننے کے بعد ان کا روّیہ بدل جاتاہے ۔ فون سنتے ہیں ، نہ پیغام کا جواب۔ مؤدبانہ ان سے کہا کہ سیاست میں اس قدر تلخی زیبا نہیں ۔ آپ کا پرانا دوست ہے ، کم از کم سلسلہ ء جنبانی تو رہے ۔ کوئی جواب نہ دیا۔ وہ بھی کپتان سے کم جذباتی نہیں ۔ کل ایک تقریب میں وزیر اطلاعات پرویز رشید سے ملاقات ہوئی تو یہ گزارش کی : کتنا اچھا ہوتا کہ شہباز شریف، چوہدری نثار، عمران خان اور سید منور حسن ، دونوں طرف کے علما کی معیت میں راولپنڈی کے شہدا ، برباد تاجروں کے گھروں اور امام بارگاہوں میں جاتے۔ اشتعال کی آگ شاید ٹھنڈی ہونے لگتی۔ آسودگیٔ سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ دامن کو ٹک ہلا کہ بجھی ہے دلوں کی آگ مایوس یہ ناچیز ہرگز نہیں مگر اس کا احساس یہ ہے کہ ساری سیاسی قیادت ناکام ہو چکی ۔ جماعتِ اسلامی ، ایم کیو ایم ، اے این پی، جمعیت علمائِ اسلام اور علاقائی پارٹیوں کا ذکر ہی کیا۔ نون لیگ کا حال اب یہ ہے کہ اس کا لیڈر کنفیوژن کا شکار ہی نہیں بلکہ اس دلدل میں محو ِ استراحت ہے ۔ بے مہار اور بے سمت، وہ راہِ فرار پہ گامزن ہے اور پارٹی کا عالم یہ ہے کہ جرأت مندی کے ساتھ ڈھنگ کا مشورہ دینے والا بھی کوئی نہیں ۔ پیپلز پارٹی پٹ چکی۔پنجاب میں تحلیل، اندرونِ سندھ کا سفرکرنے والے خبر لاتے ہیں کہ پینتالیس برس کے بعد آخر کار دیہی آبادیاں بھی پیپلز پارٹی سے بیزار۔ جناب آصف علی زرداری اوران کے نعرہ باز رفقائے کرام سے ، خاکروبوں تک کی نوکریاں ، جنہوںنے بیچ ڈالیں ۔ کوئی اگر متبادل ہوتا تو منہ کے بل وہ جا گرتی ۔ اگر کچھ ہے تو فنکشنل لیگ۔ نون لیگ پنجابیوں کی پارٹی سمجھی جاتی ہے ۔ تحریکِ انصاف کی قیادت سندھ کے لیے وقت ہی نہ نکال سکی۔ ساری توانائی پارٹی الیکشن میں لٹا دی ۔ انتخابی مہم کے لیے فرصت تھی اور نہ امیدواروں کے انتخاب کی ۔ موسلادھار بارش جب برسنے لگی تو یاد آیا کہ چھت میں سوراخ ہیں۔ وہ سوراخ ابھی تک برقرار ہیں ۔ سیف اللہ نیازی ، عامر کیانی اور صداقت عباسی جیسے ’’رہنما‘‘، جن کی موجودگی میں جماعت کو کسی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں ۔ پختون خوا اسمبلی کے سپیکر اب مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں ۔ جب یہ عرض کیا تھا کہ مخالفت بجا مگر عمران خان کو ان کی تحقیر سے باز رہنا چاہیے تو ان کا ارشاد یہ تھا کہ اس کے بغیر اچھی نیند انہیں نصیب نہیں ہوتی ۔ سوجائیے جناب، اپنے نصیب کو ساتھ لے کر ، سیاست آپ کے بس کا روگ نہیں ۔ پھر آپ کے ساتھ وہ ہیں ، جو ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کو نصیب ہوئے تھے ۔ بار بار ان سے زخم کھا کر بھی انہی پر انحصار ہے۔ اللہ آپ پر رحم کرے مگر کیوں کرے ؟ بہت دکھ کے ساتھ میں یہ کہتا ہوں کہ عمران خان اپنی بازی کھیل چکے ۔ عالمی کپ، شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی سمیت، سب کارناموں کی دادوہ وصول کر چکے ۔ اپنی شخصیت کا جادو بھی ۔ اب وہ کیا بیچیں گے ؟ ایک امکان باقی ہے کہ پارٹی کی تنظیمِ نو کریں اور جرائم پیشہ لوگوں سے نجات پا لیں مگر اس بیمار شاعر کی طرح ، اپنے قاتل کے ساتھ جسے محبت ہو جاتی ہے ،ان کے لیے یہ جگر کے ٹکڑے ہیں ۔ دوسروں کا احتساب کرنے والا اپنا احتساب نہیں کرسکتا ؎ ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا اپنی فطرت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کرنہ سکا کامیابیوں سے پیدا ہونے والا اعتماد گمراہ کرتاہے ۔ لیڈر جب خوشامدیوں میں گھر جائے تو نتیجہ معلوم۔ چوہدری نثار علی خان کے بارے میں سبھی کا خیال یہ تھا کہ سیاسی حرکیات کے بے بدل عالم ہیں ۔ ایک بات مگر وہ بھول گئے کہ ساری سیاست کا مدّعا عوامی خواہشات کا ادراک ہوا کرتاہے ۔ پرسوں وہ بروئے کار آئے تو امید تھی کہ راولپنڈی کے فساد پر بات کریں گے۔ صورتِ حال پیچیدہ تھی مگر ایسی بھی پیچیدہ نہیں ۔ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ کوئی مجرم بچ نہ پائے گا۔ اتنے دنوں میں تحقیقات نمٹا دی جائیں گی ۔ پولیس ، انتظامیہ اور شر پسندوں کا علاج ہو گا۔ افسوس کہ شعبدہ بازی کی راہ انہوںنے اختیار کی۔ توجہ بٹانے کے لیے جنرل پرویز مشرف کا کھاتہ کھولا ۔ ایف آئی اے کے افسروںکوحکم دیا کہ ادھوری رپور ٹ کو مکمل بنا کر پیش کریں ۔ اسپرین سے انہوںنے ٹائی فائیڈ کا علاج کرنے کی کوشش کی ۔ ایک ایک ہوش مند آدمی سے پوچھا ہے ۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ ملک کا موجودہ سیاسی منظر نامہ تادیر برقرار نہیں رہ سکتا۔ حجاج بن یوسف نے باالفاظِ دیگر کہا تھا: گردنوں کی فصل پک چکی۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ کچھ ہوش مند لوگ جمع ہوں اور ایک نئی سیاسی پارٹی کے لیے صلاح مشورے کا آغاز کریں ؟ بے شک قدرت مہلت دیتی ہے مگر محدود مہلت۔ وقت کا فرمان جو نہیں پڑھتے، انہیں وہ روند کر گزر جاتاہے ۔ لاہور کے شاعر نے یہ کہا تھا ؎ بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے