"HRC" (space) message & send to 7575

تشدّد

اسلامی جمعیت طلبہ سمیت، ہم سب کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہمیں اللہ کے وعدے پر یقین ہے ؟ 
کئی دن سے خیال ذہن پہ سوار تھا کہ تحریکِ انصاف کو جماعتِ اسلامی سے سبق سیکھنے کا مشورہ دیا جائے۔ کراچی میں وہ آگ اور خون کے طوفان سے گزرے ہیں ۔ تحریکِ انصاف کے کارکن کنٹینر لے جانے والوں کی گوشمالی کر رہے تھے تو جماعتِ اسلامی نے کراچی میں احتجاج کیا۔ ایسا پُرامن کہ قابلِ رشک۔ 
کل مگر اذیت ناک خبر آئی ۔ لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے وہ فساد برپا کیا کہ خدا کی پناہ۔ اس پر مستزاد، فرید پراچہ ٹیلی ویژن پر آئے تو تاویل در تاویل ۔ ماننے سے انکار کر دیا کہ ان کے نوجوان ذمہ دار ہیں۔ ٹی وی میزبان کو ڈانٹا کہ انہوںنے فیصلہ کیسے سنا دیا ، جب کہ تحقیق ابھی ہوئی نہیں ۔ وہ بیچارہ فریاد کرتا رہا کہ سارا شہر گواہ ہے ۔ تمام اخبار نویس جمعیت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں مگر آنجناب نے سن کر نہ دیا۔ 
بار بار عرض کرتا ہوں ، غلطی سے نہیں ، انسان غلطی پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں ۔ کس ولولے کے ساتھ عوامی تحریکیں اٹھتی ہیں لیکن بالآخر اپنے ہی تضادات کا شکار ہو کر برباد ہو جاتی ہیں ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کبھی ایک شائستہ تنظیم تھی ۔ لیاقت بلوچ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظمِ اعلیٰ تھے اور پنجاب یونیورسٹی یونین کے صدر بھی۔ رکشہ پر سوار ہو کر جامعہ گئے ۔ کرایے پر اختلاف ہوا تو ڈرائیور نے تھپڑ دے مارا۔ تصور کیجیے ، یونیورسٹی ہوسٹل کے سامنے ایسی جسارت۔ انہوں نے اسے معاف کر دیا ۔ پھر جلد ہی وہ قومی اسمبلی کے ممبر ہو گئے ۔ وزارتِ اطلاعات کے دفتر گئے تو چوکیدار نے دھکّا دیا ''مولوی صاحب! کہاں جاتے ہو؟‘‘ انہوںنے تحمل کا فیصلہ کیا اور اپنا تعارف کرایا۔ خود مجھ سے انہوںنے بیان کیا کہ اس دن کے بعد ، جب جب وہ وزارتِ اطلاعات گئے، اللہ کے فضل سے ہر کام آسانی سے نمٹ گیا۔ 
پنجاب یونیورسٹی میں رفتہ رفتہ اسلامی جمعیت طلبہ اس حال کو پہنچی کہ اس کا نام دہشت کی علامت بن گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ 2007ء میں احتجاجی گرفتاری کے لیے عمران خان پنجاب یونیورسٹی گئے تو جمعیت والوں نے مارا پیٹا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ جامعہ ان کی ریاست ہے ۔ ان کی مرضی کے بغیر یہاں پتہ نہیں ہل سکتا۔ بعدمیں یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ ناظم اعلیٰ نصر اللہ گورایا نے، جو اب گمنامی کی گرد میں گم ہو چکے ، مبینہ طور پر صوبائی حکومت سے ایک کروڑ روپے وصول کیے تھے۔ قاضی حسین احمد کو قلق تھا ۔ اخبار میں مضمون لکھا اور مجرموں کی مذمت کی۔ یہ الگ بات کہ جماعت کے کئی رہنما تاویل پر تُلے رہے ۔ تین دن تک اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن تنقید کرنے والے اخبار نویسوں کو زچ کرتے رہے ۔ پھر ایک شام ناظم اعلیٰ کا فون موصول ہوا کہ وہ غیر مشروط معافی چاہتے ہیں ۔ ان کی خدمت میں عرض کیا کہ ہر واقعے میں ایک سبق ہوتاہے ۔ اپنے کارکنوں کی تربیت کا انہیں اہتمام کرنا چاہیے۔ طاقت گمراہ کرتی ہے اورکامیابیاں غرور میں مبتلا کر دیتی ہیں ۔ تب یہ معلوم نہ تھا کہ وہ خود منصوبہ ساز تھے ۔ 
سیّدنا عمر فاروق ؓمفتوح مسیحی رعایا سے مذاکرات کے لیے بیت المقدس پہنچے ۔ اس سفرکا حوالہ دیتے ہوئے مورخ یہ کہتے ہیں کہ زمین گویا کانپ رہی تھی ۔ دنیا کا سب سے طاقتور حکمران اس طرح شہر میں داخل ہوا کہ غلام اونٹ پر سوار تھا اور نکیل امیر المومنینؓ کے ہاتھ میں تھی۔ عرض کیا گیا کہ لباس بدل لیجئے۔ فرمایا: لباس زمین کی چیز ہے اور رعب آسمان کی۔ کتنے ہی واقعات ذہن میں جگمگا اُٹھے ہیں۔ سواری کے لیے گھوڑ اطلب کیا۔ عربی النّسل ابلق نے سوار کو پہچانا تو اٹکھیلی کی۔ سنبھالا مگر فوراً ہی نیچے اُترے۔ پوچھا گیاتو بتایا کہ جاہلیت کا غرور شہسوار کے جی میں جاگ اٹھا تھا۔ بازارِ عکاذ میں ، جہاں گھڑ سواری کے مقابلے ہوا کرتے ،جوانی میں دو بار اپنے حریفوں کو انہوں نے مات دی تھی ۔کون جانے ، شاید رحمتہ اللعالمینؐ کا وہ فرمان انہیں یاد آیا ہو کہ جس شخص میں تکبر کی ایک رمق بھی ہے ، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ آدمی کی صلاحیت کیا اور کارنامہ کیا۔ جو کچھ ہے ، وہ اللہ کی عطا ہے ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے: ہر حال میں مسلمان صاحبِ نعمت ہے ۔کامران ہو تو شکر ادا کرے گا اور مصیبت میں پڑے تو صبر سے کام لے گا۔ 
اسلامی جمعیت طلبہ کبھی جماعتِ اسلامی کے لیے ایک اعزا ز تھی ، اب بوجھ بن گئی ہے۔ عمران خان والے واقعہ کے بعد، یونیورسٹی طلبہ نے انہیں مسترد کر دیا ۔تعلیمی اداروں میں کپتان کے حق میں ایک بے پناہ لہر اٹھی کہ وہ مظلوم تھا ۔ مخالف طلبہ مگرمنظم نہ تھے ۔ رفتہ رفتہ ، بتدریج اسلامی جمعیت طلبہ نے صورتِ حال پر قابو پالیا کہ وہ مربوط اور موثر تھی ۔اس کامیابی نے زعم کو جنم دیا۔ تحریکِ انصاف کے نوجوان غیر منظم اور جذباتی بلکہ جارح مزاج۔ ان کے طرزِ عمل سے بھی پارٹی کو نقصان پہنچامگر اسلامی جمعیت طلبہ نے توخود کو برباد ہی کر لیا۔
تمام ناکامیاں داخلی ہوتی ہیں ۔ ہم ان کے اسباب خارج میں تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ پیر کے واقعات نے اسلامی جمعیت طلبہ کی کمزوری عیاں کر دی ہے ۔ اسے فکر مند ہونا چاہیے۔ نتیجہ وگرنہ کراچی سے مختلف نہ ہو گا ، جہاں اسی بازوئے شمشیر زن نے مہاجر طلبہ کے لیے راستہ ہموار کیا ، جو بالآخر ایم کیوا یم میں ڈھلی ۔ 
ایم کیو ایم نے بھی تشدد کی راہ اختیار کی۔ وہ تنہا ہو گئے اور ایسے تنہا کہ حیرت ہوتی ہے ۔ ماہِ گزشتہ ان کے کچھ کارکن پولیس تشدد کے شکار ہوئے۔ ایم کیو ایم کی دعوت پر میں کراچی گیا۔ ان کے مقاصد اور ترجیحات سے تو ظاہر ہے کہ مجھے کوئی اتفاق نہ ہو سکتا تھا۔ البتہ عرض کیا کہ شبہات پر گرفتار کیے گئے اسیروںکو اذیت دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اپنی 45سالہ صحافت میں ، مجھے کبھی ایسے شدید ردّعمل سے واسطہ نہ پڑا تھا، جتنا کہ اس تحریر پہ ۔ میں نے اپنے بعض دوستوں کو کھو دیا ۔ اس کا ملال ہے ۔ ایک فوجی افسر کا پیغام خاص طور پر یاد آتاہے ۔ لکھا کہ:
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح 
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے
ممکن ہے ، اسلوب میں خامی ہو مگر کوئی خلش نہیں ۔ نائن زیرو کے دورے سے پہلے اور بعد ،کراچی آپریشن کی میں نے ڈٹ کر حمایت کی ۔ اس موقف پر البتہ آج بھی قائم ہوں کہ شک کی بنیاد پر تشدد کو بروئے کار نہ آنا چاہیے۔ 
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے والا ہر گروہ بالآخر روند ڈالا گیا۔ بنی آدم انصاف کے آرزومند ہیں اور امن کے۔ احتجاج برحق ، اللہ نے مظلوم کو اونچی آواز میں بولنے کا حق دیا ہے ۔ تشدد مگر تباہی لاتاہے ۔ افسوس کہ اکثر لوگ غور نہیں کرتے ۔ کتاب یہ کہتی ہے کہ جو سوچتے نہیں ، وہ بدترین جانور ہیں۔ یہ بھی کہتی ہے کہ مومن وہ ہیں، جو غصہ پی جانے والے ، حکمت سے بات کرنے اور صبر سے کام لینے والے ہیں ۔ اللہ کا وعدہ یہ ہے: تمہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو ۔ اسلامی جمعیت طلبہ سمیت، ہم سب کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہمیں اللہ کے وعدے پر یقین ہے ؟ 
پسِ تحریر: اللہ کا شکر ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں ۔ نادرا کے چیئرمین طارق ملک کی برطرفی کا حکم معطل کر دیا۔ جرم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انتخابی نتائج جانچنے میں انصاف پروہ قائم رہے۔ یہ بات میاں محمد نواز شریف کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہی کہ من مانی کے زمانے گزر گئے ۔ الیکشن میں انہوں نے دھاندلی کی اور اس کا نتیجہ بھگتنا ہوگا۔ عدالت اور میڈیا پہ سواری اب ممکن نہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں