غلامی کا ورثہ ! ملک کو ہم نے لیڈروں پہ چھوڑ رکھا ہے ۔ بیچارے لیڈر ، جو خود رہنمائی کے محتاج ہیں ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ معاشرے اقوام کی بیداری سے سرخرو ہوتے ہیں، لیڈروں پر انحصار سے نہیں... اور وہ بھی ایسے لیڈر۔ ادنیٰ خواہشات کے مارے ہوئے ؎
امید کیا ہے سیاست کے پیشوائوں سے
یہ خاک باز ہیں، رکھتے ہیں خاک سے پیوند
دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، حلیف بھی پریشان ہیں ۔ صدر اور وزیراعظم کے انتخاب میں اعجاز الحق نے نون لیگ کی حمایت کی۔ بہاولنگر سے منتخب ہونے و الے ان کے تین صوبائی ارکان نے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو ووٹ دیا۔ ایوان میں وہ سرکاری بنچوں پر بیٹھتے ہیں ۔ اس کے سوا اور کیا چاہیے؟ حمزہ شہباز نے ، جو عملاً صوبے کے معاملات چلا رہے ہیں ، پچھلے دنوں ضیا لیگ کے تینوں ارکان کو طلب کیا ۔ افسر شاہی پہلے سے دبائو ڈال رہی تھی ۔ بلدیاتی الیکشن کے لیے حلقہ بندیوں اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ نون لیگ میں شامل ہو جائیں ۔ حمزہ شہباز نے کہا: تاکہ آپ اقتدار کا لطف اٹھائیںاور ہم بھی ۔
اقتدار انبساط کے لیے نہیں ہوتا۔ جس آدمی کا کوئی ضمیر ہو ،روزِ قیامت جسے اللہ کو حساب دینا ہے، اس کے لیے یہ ایک امانت اورذمہ داری ہے ۔ان لوگوں کو یہ بات کون سمجھائے۔ کسی دوسرے جمہوری ملک میں کیا یہ تماشہ ممکن ہے کہ خاموشی کے ساتھ بیٹے کے حق میں باپ دستبردار ہوجائے ۔ ادھر مرکز کے بارے میں شہباز شریف یہ کہتے ہیں کہ بڑے بھائی چونکہ پندرہ سال اقتدار سے الگ رہے اور ان کے بقول کانوں کے کچے ہیں ؛چنانچہ مرکز
میں ان کی مداخلت ضروری ہے ۔ کہا جاتاہے کہ افسر شاہی کے انتخاب میں ان کا عمل دخل وزیراعظم سے زیادہ ہے ۔ اگر وزرا کے پرسنل سیکرٹریوں تک کو کسی اور نے چننا ہو تو کاروبارِ حکومت پر وزیراعظم کی گرفت کتنی ہوگی ۔ اسلام آباد اور لاہور میں یہ سوال سرگوشیوں میں پوچھا جاتاہے ۔ کوئی دن جاتاہے کہ میڈیا پر زیرِ بحث آئے گا۔ تب نون لیگ کے پاس کیا جواب ہوگا، جس کے وزرا اور ارکانِ اسمبلی اب ٹی وی مذاکروں سے فرار کی راہ اختیار کرنے لگے ہیں ۔ حکومت کے حامی دانشوروں کا کہنا ہے کہ تعلقاتِ عامہ کے باب میں کمزوری ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے مقابلے میں اخبار نویسوں کا روّیہ کہیں زیادہ نرم ہے۔ میڈیا میں وہی احساس کارفرماہے ، جو معاشرے کے دوسرے فعال طبقات میں ۔ یہ کہ متبادل کیا ہے ۔ منتخب حکومت کو کامیاب ہونا چاہیے مگر یہ ادراک خود سرکار میں بھی کارفرما ہو۔
پختون خوا میں تحریکِ انصاف کا حال قدرے بہتر ہے مگر ڈھب پہ وہ بھی نہیں ۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور جہانگیر ترین کی مدد سے ایک گروپ تشکیل پا چکا ہے ۔ خفیہ طور پر مگر منصوبہ بندی کے ساتھ جو عمران خان کی مزاحمت کر رہا ہے ۔ جیسا کہ اسی کالم میں عرض کیا تھا، ان لوگوں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ ڈاکٹر شعیب سڈل کو محتسب نہ بننے دیا جائے۔ کپتان کی بہترین کوششوں کے باوجود یہ لوگ اپنے منصوبے میں کامیاب رہے ۔ پارٹی کے ایک ممتاز عہدیدار نے حسرت کے ساتھ کہا : ڈاکٹر صاحب اگرحکومت کا حصہ بن جاتے تو اس کا مرتبہ بلند اور بہتر ہو جاتا۔ کارکردگی اور نیک نامی میں اضافہ ہوتا۔ جہانگیر ترین ،پرویز خٹک گروپ مگر تُلا ہوا ہے کہ اقتدار پہ اس کی گرفت قائم رہے ۔ وہی اقتدار کے انبساط کا مسئلہ۔ وہی احساسِ کمتری ، وہی عدمِ تحفظ۔ وہ جو ادراک نہیں رکھتے کہ حکمران اپنے کارناموں سے یاد رکھے جاتے ہیں، اختیارات کے ارتکاز سے نہیں ۔
قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے بعض شعبوں میں صورتِ حال بہتر بنانے کی اپنی سی کوشش کی ہے ۔ دہشت گردی کا دبائو نہ ہوتا تو اس فرق کو محسوس کیا جاتا ۔ پٹواری کا بہت پرانا اور پیچیدہ مسئلہ انہوںنے حل کردیا ۔ اب اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے دفتر میں موجود رہے ۔ اب وہ اپنے ساتھ منشی نہیں رکھ سکتا۔ خود کو خطرے میں ڈال کر ہی وہ رشوت لے سکتاہے ۔ رجسٹری اور انتقالِ اراضی کے عمل کی ڈی سی او نگرانی کرتے ہیں ۔ اب صرف غیر معمولی طور پر خوف زدہ لوگ ہی پٹواری کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں بھی صورتِ حال بہتر بنانے کی تدابیر کی جا رہی ہیں۔ سرکاری علاج گاہوں میں بہت سے مریض اب مفت دوا پاتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں نگرانی کا نیا نظام تشکیل دینے کے لیے ریاضت جاری ہے کہ افسر شاہی رکاوٹ ہے ۔ المناک انکشاف یہ ہواہے کہ اساتذہ کی اکثریت سکولوں اور کالجوں کا رخ ہی نہ کرتی تھی ۔ بہت سے دوسرے پیشوں میں مصروف تھے اور بعض تو جرائم میں ملوّث ۔ ایسے سماج میں، جہاں پولیس کی ہمت ٹوٹ چکی تھی ، قانون نافذ کرنا دشوار تھا۔ قدرے تاخیر کے ساتھ ہی سہی، بہترین انسپکٹر جنرل چنا گیا۔ مدتوں بعد شاید یہ پہلی بار ہواہے کہ پولیس کو سیاسی رسوخ سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ارکانِ اسمبلی اور وزرا کو بتا دیا گیا کہ وہ سفارش سے گریز کریں ۔ بتدریج اس کے بہتر اثرات مرتب ہوں گے ۔
ڈاکٹر شعیب سڈل اگر حکومت کا حصہ بن جاتے تو پولیس اور سپیشل برانچ کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ۔ ناصر درّانی اُجلے ضرور ہیں مگر ڈاکٹر شعیب سڈل ان شعبوں میں بے پناہ مہارت رکھتے ہیں ۔ یہی نہیں ، افسر شاہی کو راہِ راست پر رکھنے اور ٹیکس وصولی میں بھی ان سے مدد لی جا سکتی ۔ انسدادِ جرائم میں ان کی مہارت کا تمام دنیا میں احترام کیا جاتاہے ۔ جاپانی پولیس ان سے استفادہ کرتی رہی ہے کہ سویز کے اس پار ، جرمیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے و الے وہ پہلے افسر تھے ۔ حال ہی میں وہ کٹھمنڈو میں دولتِ مشترکہ کے تحت منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں خاص طور پر مدعو کیے گئے ؛حالانکہ اب وہ کسی سرکاری منصب پر نہیں ۔ ان سے درخواست کی گئی کہ وہ دوروزہ سیمینار کے ایک اجلاس کی صدارت کریں ۔
کہا جاتاہے کہ پختون خوا میں ڈاکٹر شعیب سڈل کی راہ روکنے میں ، جہانگیر ترین کا کردار سب سے زیادہ ہے ۔ وہی ہیں ، جنہوںنے پرویز خٹک کو وسائل کے بے دریغ استعمال سے سیکرٹری جنرل بننے کی راہ دکھائی ۔ وزیرِ اعلیٰ بن جانے کے باوجود ، وہ اس عہدے پر قابض رہے ، تا آنکہ عمران خان نے ان کے شریکِ کار جہانگیر ترین کو قبول کرلیا۔
تحریکِ انصاف کا بنیادی مسئلہ اس کی تنظیم ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اعتراف کے باوجود ذرا سی توجہ بھی نہیں ۔ کتنے ہی منصب داروں کے بارے میں سنگین شکایات ہیں ۔ ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کی کوئی تدبیر نہیں۔ کیا یہ فرار کا روّیہ نہیں ؟ اس میدان میں عمران خان ہار گئے ہیں ؎
گریز کشمکشِ زندگی سے مردوں کا
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست
اب ایک زیادہ متحرک آدمی اعظم سواتی کو صوبے کی صدارت سونپی گئی ہے ۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تبدیلی کس قدر نتیجہ خیز ہوگی ۔ وثوق سے البتہ یہ کہا جا سکتاہے کہ وہ پارٹی کو فعال تر بنانے کی اپنی سی کوشش لازماً کریں گے ۔
غلامی کا ورثہ ! ملک کو ہم نے لیڈروں پہ چھوڑ رکھا ہے ۔ بیچارے لیڈر ، جو خود رہنمائی کے محتاج ہیں ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ معاشرے اقوام کی بیداری سے سرخرو ہوتے ہیں، لیڈروں پر انحصار سے نہیں... اور وہ بھی ایسے لیڈر۔ ادنیٰ خواہشات کے مارے ہوئے ؎
امید کیا ہے سیاست کے پیشوائوں سے
یہ خاک باز ہیں، رکھتے ہیں خاک سے پیوند