"HRC" (space) message & send to 7575

ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں

نئی سیاسی تشکیل کے لیے‘ غورو فکر کا آغاز ہے۔ اہم شخصیات کے باہم رابطے۔ خیال یہ ہے کہ آئندہ چند برس میں‘ ہم سوئے منزل روا نہ ہوں گے۔ بنیاد مضبوط اور پائیدار ہونی چاہیے۔ 
 
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی 
لا کے رکھیو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے 
ایک معلوم اور معروف راستہ ہوتا ہے‘ منزل کا۔ وہ مشکل اور دراز ہو سکتا ہے مگر ساحلِ مراد سے ہمکنار کرتا ہے۔ ترکوں کی طرح‘ ملائیشیا کی طرح۔ مسافر کو لازم یہ ہے کہ آغاز سفر سے پہلے اس راہ کا کھوج لگانے کی کوشش کرے۔ اگر نہیں تو بھٹکتا رہے گا۔ جنگلوں کے درخت اور صحرا کے ٹیلے نہیں صرف ستارے ہی رہنما ہو سکتے ہیں۔ 
نیم حکیم خطرہ جان‘ نیم ملّا خطرہ ایمان اور ناقص رہنما؟... پنجابی کا محاورہ یہ ہے: مایوس آدمی کو بھیجا جائے تو وہ موت کی خبر لاتا ہے۔ قوموں کی رہنمائی‘ ذہنی طور پر الجھے ہوئے‘ مایوس لوگوں کا کام نہیں۔ ٹی وی کھولو اور ٹاک شو میں ان لوگوں کو سنو جو لیڈروں کے غلام ہیں یا ادنیٰ مفادات کے اسیر ہیں۔ اپنی پارٹیوں اور رہنمائوں میں جنہیں ایک ذرا سی خامی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ فقرے بازی اور الزام تراشی۔ حریف سیاسی گروہ اگر نہیں تو بے چہرہ اسٹیبلشمنٹ یا عالمی طاقتیں! اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ جب الجھ جائو تو اہلِ علم سے سوال کرو‘ اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو۔ دعوے دار بہت تھے‘ حتیٰ کہ کارِ تجدید کے۔ مسلم برصغیر کے مستقبل کا تعین مگر اقبالؔ نے کیا تھا۔ لیڈر بھی انہی نے تجویز کیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح‘ جن پر قوم بالآخر متفق ہوئی۔ آزادی پائی اور ملک حاصل کر لیا۔ 
اس کے بعد کیا ہوا؟ اقتدار کی ہوس اور جوڑ توڑ۔ ان بنیادی اصولوں سے انحراف‘ جن کے بل پر قوموں کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی‘ اداروں کی تشکیل‘ ایک قومی اتفاق رائے کا حصول۔ صاف ستھرے الیکشن‘ معاشرے کے اجتماعی مزاج سے ہم آہنگ منظم اور جدید جمہوری سیاسی پارٹیاں۔ پارلیمنٹ‘ سیاسی رسوخ سے آزاد پولیس‘ عدل کی توفیق رکھنے والی عدالت۔ امن کا حصول‘ سیاسی استحکام۔ اس کے نتیجے میں معیشت کا فروغ‘ جدید ٹیکنالوجی‘ ہر شہری کے لیے اس کی صلاحیت کے مطابق حصولِ تعلیم کے مواقع اور تعلیم کی سہولت۔ مضبوط معیشت ایک نظام کی تشکیل سے پھوٹتی ہے۔ وہی مضبوط دفاع کی اور آزاد خارجہ پالیسی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ جنرلوں اور لوٹ مار کرنے والے تاجروں کی قیادت میں نہیں۔ ملّا اور ملحد کے ساتھ نہیں۔ ایک فرقہ پرست اور تنگ نظر جو اللہ کے نام پر جوش و جنون پیدا کرتا ہے۔ دوسرا زندگی کی سب بنیادی صداقتوں کا نامحرم۔ 
سایۂ ابر گریزاں سے مجھے کیا لینا 
ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں 
مذہبی تحریکیں نامراد ہوئیں‘ سوشلزم کے علمبردار بھی۔ حبِ وطن اور قوم پرستی کے نعرے بیچنے والے بھی۔ پیچھے پلٹ کر دیکھو تو صرف دو چراغ روشن ہیں۔ 
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں 
جس طرح تارے چمکتے ہیں‘ اندھیری رات میں 
قائداعظم کا ہر فیصلہ درست نہ تھا۔ فکرِ اقبال میں تضادات بھی ہیں۔ تاریخ کے دوام میں کامرانی کی خیرہ کن مثال، وہ اس لیے رہیں گے کہ اپنی ذات نہیں‘ ایک اعلیٰ مقصد کی طرف انہوں نے دعوت دی۔ قوم کے ساتھ پوری طرح وہ مخلص تھے۔ اعتدال کے خوگر۔ قدیم الو ہی اقدار و روایات کے امین لیکن عصرِ حاضر کے تقاضوں سے بھی آشنا۔ 
آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ غلامی کے تاریک دور میں جو لوگ حتی الوسع رہنمائی کر سکے، جن کی جدوجہد ثمربار ہوئی‘ ان میں نمایاں وہ ہیں‘ جنہوں نے مغرب سے سیکھا مگر اللہ پہ جن کا بھروسہ تھا۔ سرسید احمد خاں‘ مولانا محمد علی جوہر‘ اقبال اور قائداعظم۔ ابوالکلام‘ عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا حسین احمد کو جلیل القدر کہا گیا۔ ان کی پیروی میں مگر قوم کیا قدیم قبائلی زمانوں میں زندہ رہتی؟ تاریخ کا مشاہدہ اور فصاحت کے امام مگر ابوالکلام کا بس نہ چلتا تھا کہ خود اپنی تصویر سامنے سجا کر اسے سجدہ کریں۔ سادہ اطوار اور نیک طینت بخاری‘ مولانا مدنی کے پیروکار تھے اور ابوالکلام کے۔ حضرت مولانا مدنی کو شیخ العرب و العجم کہا گیا کہ فقہ کی باریکیوں سے خوب آشنا ہیں۔ سیاست کے پیچ در پیچ بحرانوں میں کیا فقہ رہنمائی کرتی ہے؟ ابوالکلام نے دیوبند کو آمادہ کیا کہ وہ ایک سیاسی پارٹی تشکیل دیں۔ جمعیت علماء ہند‘ پاکستان میں جن کی وراثت‘ مولانا فضل الرحمن ہیں‘ بھارت میں دیوبند کا مدرسہ جو ہمیشہ سے کانگرس کا حلیف ہے۔ 
اقبال اور قائداعظم کو غور سے پڑھیے‘ خودستائی کا کہیں شائبہ تک نہ ہوگا۔ محمد علی جناح نے اعلان کیا تھا: ہرگز نہیں، میں تمہارا مذہبی لیڈر نہیں۔ اقبال میں تو اپنی مذمت کا رجحان پایا جاتا تھا۔ گفتار کا غازی تو یہ بنا‘ کردار کا غازی بن نہ سکا۔ 
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے 
من اپنا پرانا پاپی ہے‘ برسوں میں نمازی بن نہ سکا 
پروفیسر ساجد میر اچھے آدمی ہیں‘ حریف مکتبِ فکر کے مولانا شاہ احمد نورانی کی طرح اکل کھرے سے۔ ٹیلی ویژن پر ان سے گزارش کی: بدعات و رسوم کے خلاف ردعمل بجا‘ اوّل اوّل اقبال نے بھی خیر مقدم کیا تھا‘ مگر یہ تو فرمایئے کہ مذہبی مکتب فکر کی بنیاد پر سیاسی جماعت کیسے بن سکتی ہے؟ بریلوی‘ وہابی‘ شیعہ سب کی الگ۔ کیا ان کے بجلی کے بل مختلف ہوتے ہیں۔ کیا گرانی اور بدامنی ان پر ایک طرح سے اثر انداز نہیں ہوتی۔ 
ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نوازشریف‘ دونوں کو ان کے مداح اسٹیبلشمنٹ کا حریف بنا کر پیش کرتے ہیں۔ سبحان اللہ۔ بھٹو صاحب فیلڈ مارشل ایوب خان کو ایشیا کا ڈیگال کہتے‘ کبھی صلاح الدین ایوبی۔ میاں صاحب محترم‘ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل جیلانی کے سائے میں پھلے پھولے۔ دونوں کا المیہ یہ ہے کہ فروغ پا چکے تو بادشاہت کی آرزو میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائے۔ کامیاب ہو جاتے مگر منتقم مزاج تھے‘ دولت اور اقتدار کے پجاری‘ ذاتی اغراض کے بندے۔ بھٹو کو ان کی اولاد نے مار ڈالا۔ نوازشریف نہایت تیزی سے سیاسی خودکشی کی راہ پہ چلے جاتے ہیں۔ کوشش ان کی بھی یہ ہے کہ محترمہ مریم نواز کو وارث بنا دیں۔ ایک معمولی ذہن اس سے بڑھ کر کیا سوچے؟ عمران خان کو سیاست آتی ہی نہیں۔ پرعزم اور مالی طور پر دیانت دار مگر ہوش و خرد سے ناآشنا۔ کارکن مخلص مگر مشورہ وہ ابن الوقتوں سے لیتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ پراعتماد‘ خوشامد پسند۔ حال یہ ہے کہ اگلے برس حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی منصوبہ بندی میں شیخ رشید اور ڈاکٹر علامہ طاہر القادری ان کے ہم نفس ہیں۔ جی نہیں‘ یہ گروہ نوازشریف کا متبادل نہیں۔ اس طرح تو نون لیگ کو مہلت ملے گی۔ 
تحریک انصاف اگر جعل سازوں سے نجات پا لے تو تنہا ظفر مند ہو سکتی ہے۔ اس پہ مگر توجہ نہیں بلکہ جوش و جنون پھیلانے پر۔ اس وقت جب حکمت اور منصوبہ بندی درکار ہے‘ جوش و جنون۔ نون لیگ تو بہرحال برباد ہے۔ اے این پی کے پرزے اڑ چکے۔ جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم ظاہر ہے کہ قومی متبادل نہیں‘ تحریک انصاف اگر جنگلوں میں جا بھٹکی اور یہی اندیشہ ہے تو خلا پیدا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہو چکا۔ 
نئی سیاسی تشکیل کے لیے‘ غورو فکر کا آغاز ہے۔ اہم شخصیات کے باہم رابطے۔ خیال یہ ہے کہ آئندہ چند برس میں‘ ہم سوئے منزل روا نہ ہوں گے۔ بنیاد مضبوط اور پائیدار ہونی چاہیے۔ 
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی 
لا کے رکھیو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں