کتاب یہ کہتی ہے ؛ دوسروں کو نہیں ، اپنے آپ کو وہ دھوکہ دیتے ہیں ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انسان بڑا ہی خود فریب ہے ۔ بڑا ہی خود فریب!
جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بات نہ ہو سکی ۔ نئے گھر میں منتقلی اور سازو سامان سنبھالنے میں وہ لگے ہیں ۔ جی چاہتاہے کہ اپنی رہائش وہ مرتّب کر چکیں تو پیہم نشستوں میں وہ سب سوال ان کے سامنے رکھوں ، جو پانچ سال میں پوچھ نہ سکا۔ محرمِ رازِ درونِ خانہ ہیں ۔ مبالغہ آرائی سے بچتے ہیں اور سوچ سمجھ کر اظہارِ خیال ۔کبھی اخفا ان کے منصب کا مطالبہ تھا۔ اب زیادہ کھل کر بات ہو سکتی ہے ۔
خوش قسمتی سے نیا سپہ سالار بھی ایک مردِ شریف ہے ۔ اپنے استاد کے راستے ہی پر گامزن ۔ وقت گزرنے کے ساتھ عسکری قیادت انشاء اللہ عملی سیاست سے اور بھی الگ ہوتی جائے گی ۔ ایک پہلو مگر اس کے سوا بھی ہے ۔ روزنامہ 'دنیا‘ کے سلمان غنی سے بات کرتے ہوئے ہمایوں اختر خاں نے جس کا حوالہ دیا۔ سیاسی قیادت کی گرفت محکم ہونے کاانحصار اس پر بھی ہے کہ جمہوریت عام آدمی کو کتنا ثمر بار کرتی ہے ۔اس کے دکھوں کا کتنا اندمال ۔
آہنگ درکار ہوتاہے ، ایک آہنگ۔ افراد میں جو طے شدہ ترجیحات کے ساتھ ایک بلند مقصد کے لیے بروئے کار آئیں ۔ اوّلین تقاضا، اپنی ذات کی نفی ۔ وہ اندازِ فکر ، جو قائد اعظمؒ میں کارفرما تھا ۔ نرگسیت کے مارے ذوالفقار علی بھٹو میں ہرگز نہیں ۔ کم ذہین اور کم متحرک وہ نہیں تھے ۔ محمد علی کو یاد کیجئے تو اقبالؔ کا مصرعہ چمک اٹھتاہے ع
آہنگ میں یکتا صفتِ سورۂ رحمن
فرمایا: مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ۔ فرمایا: میں اس کے ہاتھ پائوں بن جاتا ہوں ۔ ختم المرسلینؐ کی بے کراں شخصیت کا رعب خاتون پر طاری ہو گیا اور وہ کانپنے لگی ۔ ارشاد کیا: مجھ سے نہ ڈرو ، میں قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں ، جو سوکھا گوشت کھایا کرتی۔
جمہوریت کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ حکومت، سپاہ اور اپوزیشن میں ایک ربط درکار ہوتاہے ۔ ہمارے لیڈروں کو اس بین صداقت کا ادراک کیوں نہیں ؟ ہر ایک کو اپنی فضیلت پہ اصرار ہے اوردوسروں کی نفی پر ۔
من موہن سنگھ سے مذاکرات کے لیے میاں محمد نواز شریف نے اپنے بھائی کو بھیجا۔ نوجوانوں کے لیے قرضوں کا منصوبہ صاحبزادی کو سونپا ۔ وزیرِ اعلیٰ نے اپنا صوبہ فرزند کے حوالے کر رکھا ہے ۔ عمران خان کامنصوبہ یہ ہے کہ شریف حکومت کو جلد از جلد اکھاڑ کر پھینک دیا جائے ۔ جماعتِ اسلامی ، طاہر القادری اور شیخ رشید کی مدد سے ۔اگر منصوبہ بندی کر سکیں تو سب سے بڑی طاقت وہ خود بن سکتے ہیں ۔ دو کروڑ ووٹروں کی حمایت وہ حاصل کر سکتے ہیں مگر افسوس کہ ژولیدہ فکری کا شکار ۔ فتح پانے کے لیے ایک ٹیم کو اپنی خامیاں دور کرنی چاہئیں اور خوبیاں پختہ تر‘ مگر کپتان جلد از جلد میچ کے لیے بے قرار ہے۔ اوّل تو بے وقت کی احتجاجی تحریک کی کامیابی کا سوال ہی نہیں۔ جلد الیکشن ہو بھی جائیں تو نتیجہ زیادہ مختلف نہ ہو گا ۔ عمران خان ٹیپو سلطان نہیں مگر ان کا لشکر اور ان کا دربار ٹیپو کا ہے ۔ کچھ ایجنسیوں کے کارندے ، کچھ دوسری پارٹیوں کے ۔ زیادہ تر جی حضوری ۔ خود خان سیاسی حرکیات سے بے بہرہ۔ خوشامدیوں کے چنگل میں ۔ سب سے بڑھ کر جہانگیر ترین ، ان کا جہاز اور ان کا گروہ۔ ایسے لوگ سیاست میں ہمیشہ ہوتے ہیں۔ انہیں ٹھکانے پر رکھا جاتا ہے۔ کام ان سے لیا جاتاہے مگر باگ ان کے ہاتھ میں نہیں دی جاتی۔
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے
ماسکو کی یلغار سے واپسی پر اور یہ تاریخ کی عظیم ترین عسکری حماقتوں میں سے ایک تھی ، نپولین اور اس کی فوج بچ نکلی۔ زخم کھانے کے بعد اس نے سبق سیکھا اور حکمت کا مظاہرہ کیا ۔ تین طرف سے چڑھی چلی آتی روسی فوج ورنہ اسے کچل کے رکھ دیتی۔ خواہشات کے غلبے میں جنگیں جیتی جا سکتی ہیں اور نہ سیاسی معرکے ۔
میڈیا کا حال اور بھی پتلا ہے ۔ قیاس آرائی پہ قیاس آرائی ۔ اقبالؔ یاد آتاہے ۔ آزادی ء افکار ہے ابلیس کی ایجاد۔ ایک محترم نے فرمایا: ایک اہم کیس پہ سڈل رپورٹ تمام سوالوں کے جواب نہیں دیتی ۔ بھائی صاحب ، وہ عبوری رپورٹ تھی ، جس کے فوراً بعد انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔ایک دروغ گو نے کہا: ڈاکٹر صاحب نیب کی چیئرمینی کے آرزومند تھے۔ لاحول ولا قوۃ! ایک قابلِ احترام نے لکھا : جنرل اشفاق پرویز کیانی کبھی کہانی بیان نہ کریں گے ۔ کیوں نہیں کریں گے؟ سنجیدگی سے وہ سوچ رہے ہیں ۔ کاتا اور لے دوڑی کے وہ قائل نہیں ۔ یہ ہمارے محترم سبکدوش چیف جسٹس کا مزاج ہے ۔ جی دار بہت، بے باک بہت‘ مگر شعلہ سا لپکتے ہیں ۔ ایک دانشور کی مدد سے اپنی کتاب کا بڑا حصہ انہوںنے لکھ ڈالا ہے ۔ کوئی دن میں چھپ چکی ہوگی۔ سیاست کے میدان میں ایک اور شہسوار نمودار ہوگا اور اندیشہ ہے کہ خاک چاٹنے کو۔
ایک ہنگامہ سرحد میں برپا ہے ، ایک کراچی اور ایک بلوچستان میں ۔ عمران خاں اب پنجاب کے کارزار میں اترنے والے ہیں ۔ الزامات ان کے درست ہیںاور سو فیصد درست۔ الیکشن میں دھاندلی کا حساب چاہیے۔ بلدیاتی الیکشن میں جھرلو چلانے کا منصوبہ ہے ۔ انسداد کے لیے مگر جو حکمتِ عملی انہوںنے اختیار کی ، وہ بے حد ناقص ہے ۔ہنگامے سے کیا حاصل ؟معیشت پہلے ہی برباد ہے ۔ اس سے اور بھی برباد۔ٹیلی ویژن ، اخبار ، سیمینار ، ہزار طریقے ہیں کہ شریف خاندان کے عزائم بے نقاب کر دئیے جائیں۔ دوسری پارٹیاں ان کی حمایت کریں گی ،جماعتِ اسلامی ہی نہیں ، قاف لیگ اور پیپلز پارٹی بھی ؛حتیٰ کہ سندھ میں ایم کیو ایم۔ رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے اور عدالت کو فیصلے پر آمادہ ۔
مسلمان بادشاہوں کا طریق تھا کہ اہلِ علم سے التجا کیا کرتے۔ امام غزالیؒ، الپ ارسلان کے جانشین ملک شاہ کے دربار میں مدعو کیے گئے ۔ سلطان نے پوچھا: امام، مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ فرمایا: ان کی گردنیں اس طرح ٹوٹ رہی ہیں ، جس طرح تیرے گھوڑوں کی گردنیں سنہری لگاموں کے بوجھ سے۔ اٹھارہ کروڑ درماندہ اور دکھی لوگ۔ ان کی پروا تو حکمرانوں اور لیڈروں کو کیا ہوگی ، خود اپنے انجام سے بے نیاز ہیں۔ عام انتخاب اور اس کے بعد کی جانے والی پے درپے حماقتوں کا بوجھ شریف خاندان اٹھا نہیں سکتا ۔ اس قدر تیزی سے مقبولیت گری ہے کہ تاریخ میں کم مثال ہوگی ۔ اس پر بلدیاتی الیکشن میں شعبدہ بازی اور اگلی نسل کو اقتدار سونپنے کے خواب؟ اسحٰق ڈار کی بچگانہ باتیں !ڈالر کو وہ مقید کر لیں گے ؟
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
جو بات کی، خدا کی قسم لاجواب کی
ہوش مندی کی ایک رمق بھی اگر موجود ہے تو نوازشریف کو شعبدہ بازی کی بجائے کم از کم قومی اتفاقِ رائے کے لیے فکر مند ہونا چاہیے۔ فوج مددگار ہے ۔ عمران خاں اور دوسروں سے بات کرنی چاہیے۔ توجہ اصل امتحان پہ ہونی چاہیے۔معاشی نمو، دہشت گردی ، پولیس کی سیاسی اثرات سے نجات اور عدالتی نظام کی اصلاح ۔ کتاب یہ کہتی ہے ؛ دوسروں کو نہیں ، اپنے آپ کو وہ دھوکہ دیتے ہیں ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انسان بڑا ہی خود فریب ہے ۔بڑاہی خود فریب!