افسوس کہ کچھ لوگ کبھی نہیں سیکھتے ۔ کبھی ادراک نہیں کر پاتے کہ زمانہ بدلتا ہے تو آدمی کو بدلنا بھی لازم ہو جاتاہے ۔ عادات! خواہشات کی پوجا کرے تو آدمی ان کا غلام ہو جاتاہے۔ ختم المرسلینؐ کا ارشاد یہ ہے کہ اپنی جگہ سے احد پہاڑ ٹل سکتاہے مگر عادت نہیں بدلتی ۔ وہ آرزو کی غلامی میں جیتاہے ، قرآنِ مجید کے مطابق طولِ امل، خواہشات کی درازی میں ۔ پنجابی کے بے مثال شاعر نے کہا تھا۔
وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں
بھاویں کٹیے پوریے پوریے نی
ہمیشہ کے لیے لوحِ زماں پہ اپنا نقش چھوڑ جانے والے صوفیا کا کمال یہ ہے کہ وہ خود سے برسرِ جنگ رہتے ہیں ۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے : لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون۔ وہ خوف اور غم سے آزاد کر دئیے جاتے ہیں ۔ ہم انہیں دیکھتے اور حیرت کرتے ہیں ۔ غور نہیں کرتے کہ زمانے کو وہی فتح کرتا ہے ، جو خود سے اوپر اٹھ جاتاہے اور زندگی کو آسمان سے دیکھتا ہے ۔ خلاف ِمعمول درویش کاچہرہ فکر میں ڈوبا ہوا۔ سوال کیا تو فرمایا: لوگ مناصب کے آرزومند ہیں مگر دیکھتے نہیں کہ عمر بھر کیسی جنگ میں نے اپنے آپ سے لڑی ہے ۔
چار سوال ہیں ، جن پر دانا غور کرتے اور اہلِ علم کہلاتے ہیں ۔ وہ کہ جن کے بارے میں کتاب یہ کہتی ہے کہ جب الجھ جائو تو ان کی خدمت میں جائو۔ سرکارؐ کا ارشاد یہ ہے : علیکم مجالس بالابرار۔ تم پر لازم ہے کہ ابرار کی محفلوں میںبیٹھا کرو۔ ملّا نہیں ، حیات اور کائنات کے اس رازداں اقبالؔ جیسے لوگ۔ ''اٹھتے بیٹھے، پہلوئوں کے بل لیٹے ہوئے ، وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ زمین و آسمان کی تخلیق پر وہ غور کیا کرتے ہیں‘‘۔
اوّلین سوال یہ ہوتاہے کہ کیا اس کائنات کا کوئی رب ہے اور اگر ہے تو اس کی ہستی کیا اور کیسی ہے ۔ قرآن مجید پروردگار کا مکمل تعارف ہے اور پوری تصویر ۔ ثانیاً یہ کہ کائنات کیا ہے ؟ زندگی کیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کیا ہے ۔ کائنات اور خالقِ کائنات سے اس کا رشتہ کیا۔ برصغیر میں یہ اقبال تھے‘ جنہوں نے ان سوالوں کا جواب دیا ۔ وقت اور زمانے کی زبان سے، شاعر نے یہ کہا تھا:
جو تھا نہیں ہے‘ جو ہے نہ ہوگا‘ یہی ہے اِک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی‘ اسی کا مشتاق ہے زمانہ
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
نہ تھا اگر تو شریکِ محفل، قصور تیرا ہے یا کہ میرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ
چوہدری نثار علی خان کی تقریر نے طالبِ علم کو حیرت زدہ کر دیا۔ فرمایا: ہم اگر چاہتے تو نادراکے چئیر مین کا تبادلہ بلتستان کر دیتے ۔ کون کر سکتاہے ؟ انہیں خبر کیوں نہیں کہ بادشاہت کا دور رخصت ہوا۔ تماشا دکھا کر مداری گیا۔ یہ ایک اور زمانہ ہے ۔ صبحِ کاذب سے صبحِ صادق کا نور پھوٹنے والا ہے ۔ ایک عہد رخصت ہوا اور دوسرے کی دہلیز پر ہم کھڑے ہیں ۔
عدالتوں نے اپنی آزادی جیت لی ہے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دوسرے ججوں کے حرفِ انکار سے آمریت پسپا ہوئی۔ فروری 2007ء میں دبئی میں شیخا فاطمہ کے محل میں بے نظیر امریکہ اور برطانیہ کی اشیرباد سے جنرل پرویز مشرف سے مذاکرات میں مصروف تھیں۔ جو دونوں میں معاہدے کے آرزومند تھے۔ این آر او کی تیاریاں جا ری تھیں ۔ قاف لیگ اور پیپلزپارٹی کے پیمان کی اور ادھر وہ حادثہ ہوا۔ مارچ 2007ء میں جنرل نے چیف جسٹس پہ وار کیا تو آگ بھڑک اٹھی۔
وکلا کی خیرہ کن تحریک‘ قربانیوں کا خیرہ کن باب جس میں رقم کیا، قدرے تھم گئی تھی۔ عنان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ہاتھ میں تھی اور نئے انتخاب کا ہنگامہ، جس میں علی احمد کرد چنے گئے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے گھر پہ میں حاضر ہوا ۔ اڑھائی گھنٹے کی اس طویل ملاقات کے آغاز میں ، ان سے پوچھا: جنرل پرویز مشرف نے دھمکی دی اور وردی پوشوں نے گھیرا تو کیا ان کے دل میں خوف کا اُترا؟ کہا: ہرگز نہیں ، ذرا بھی نہیں ۔ قرآنِ کریم کی آیت یاد آئی ''اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘ یہ وہی افتخار محمد چوہدری تھے ، جنہوںنے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 12اکتوبر1999ء کے انقلاب کو جائز قرار دیا تھا۔ ڈکٹیٹر کی خواہش کے بغیر ہی ، تین سالہ حقِ حکمرانی اسے بخشا اور دستور میں ترمیم کا اختیار بھی ۔
تاریخ کے تناظر کو بھلا دیجئے تو کتنا عجیب لگتاہے ۔ ایسا ہی ہونا تھا بالکل ایسا ہی ۔ نواز شریف بادشاہ بننے پر تلے تھے ۔ آئین کی تیرھویں ترمیم میں پارلیمان سے تقاضا تھاکہ وزیرِ اعظم کو دستور کا کوئی سا حصہ معطل کرنے کا اختیار بخش دے۔ ان کی دہلیز پہ سجدہ ریز رہا کرے۔ عدالت پر اپنے کارکن انہوںنے چڑھا دئیے تھے ۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا کردار مثالی نہ تھا۔ دستوری اعتبار سے ناقص بھی ۔ دوسری طرف لیکن پرویز رشید تھے ، جو انہیں لوٹا قرار دے رہے تھے ۔ ع
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے
پرویز رشید ، عمر بھر جنہوںنے قیامِ پاکستان اور قائد اعظمؒ کے حق میںکبھی ایک لفظ نہ کہا، معتبر تھے ۔آج بھی معتبر ہیں ۔
بنا ہے شاہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
عدالتیں معتوب ، میڈیا معتوب۔ سرکاری ٹیلی ویژن اسی مصاحب کی جیب میں تھا ۔دن رات اس پر بادشاہ کے گیت گائے جاتے ۔ آج جو میڈیا گروپ شریف خاندان کی جیب میں ہے ، اس پر یلغار تھی ۔میں نے اس کے سربراہ کو دیکھا کہ سیف الرحمٰن سے عاجز ، ایک پنج ستارہ ہوٹل میں تنہا کھڑا تھا۔ مظلوم آدمی کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی ۔ زندگی کا سب سے بڑا معرکہ اسے درپیش تھا ۔ فکر اسے لاحق تھی کہ خود کو استوار رکھے ؎
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے
گیلپ کا سروے ریکارڈ پر ہے ۔ جب نواز شریف برطرف کیے گئے اور جنرلوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ۔ فقط سپریم کورٹ نہیں ، 70فیصد رائے دہندگان نے جائز قرار دیا تھا۔ شریف خاندان کے حامی مدیر نے صفحہ اوّل پر اپنے قلم سے لکھا: ہمیں اندازہ نہ تھا کہ نواز شریف (امریکہ اور اسرائیل سے مفاہمت کرنے والے )یاسر عرفات بن چکے تھے ۔ مہنگائی کا عفریت تھا، بے روزگاری کا ، کرپشن اور بد امنی کی بلائیں ۔ جمائما خان پر ٹائلوں کی سمگلنگ کا مقدمہ ۔ منظور وٹو جیل میں ، بے نظیر بھٹو جلا وطن اور دوسرے مخالفین میں سے اکثر سہمے ہوئے ۔
شریف خاندان آج بھی وہی ہے ۔الزام ہے کہ امریکہ ، یورپ ، عرب ممالک اور مالدار طبقات کی مدد سے الیکشن اس نے چرایا ہے ۔ نجم سیٹھی اسی لیے نگران وزیرِ اعلیٰ بنائے گئے ۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو ہوئی اور چیف الیکشن کمشنر کو اختیارات سے محروم کیا گیا ۔ من پسند پولیس افسر متعین ہوئے ، ریٹرننگ افسر خریدے گئے اور بعض میڈیا گروپ بھی ۔ بعض کی کہانیاں منظرِ عام پر آچکیں اور بعض کی آرہیں گی ۔ عمران خاں اور دوسرے اگر انتخابی نتائج جانچنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو برہمی کیسی؟ نادرا کا چئیرمین حکومت کی مدد کیوں کرے ؟ الیکشن کمیشن نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ وہ نادرا کا نگران نہیں بن سکتا۔ معزز چیف الیکشن کمشنر طارق ملک سے ملنے گئے۔ سروے کے مطابق 70فیصد سے زیادہ ووٹر یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن چُرایا گیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم‘ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی‘ پنجاب میں نون لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے مطابق سرحد میں تحریک انصاف نے۔ تنازع موجود ہے‘ فیصلہ تو کرنا ہوگا۔ افسوس کہ کچھ لوگ کبھی نہیں سیکھتے ۔ کبھی ادراک نہیں کر پاتے کہ زمانہ بدلتا ہے تو آدمی کو بدلنا بھی لازم ہو جاتاہے۔