اب یہ میاں نواز شریف پہ ہے کہ وہ فقط دولت کے انبار سمیٹنے اور اقتدار کے مزے لوٹنے کے آرزومند ہیں یا تاریخ کے دوام میں سرخروئی کے خواہش مند!
قومی سلامتی پالیسی ؟ کون سی پالیسی؟ فوجی قیادت سے نزاع نہیں ۔ کل جماعتی کانفرنس نے مذاکرات کا اختیار دیا ۔ پیچ درپیچ بحران میں مشرقی اورمغربی سرحدوں کو پرامن رکھنے کا منصوبہ بھی خوش آئند۔ یہ اعلان بھی بجا کہ پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی ۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی آرزو بھی برحق۔ سوال دوسرا ہے ،طالبان اگر بات چیت کے خواہش مند ہی نہیں تو حاصل کیا۔
نون لیگ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے میاں نواز شریف کو انہوں نے ثالث مانا تھا ۔ مکالمے کی باضابطہ پیشکش اور قبولیت کے بعد انہوں نے کیا کیا؟ جنرل ثناء اللہ نیازی کو دہشت گردوں نے شہید کیااور پشاور کے چرچ پر حملہ کر کے بتایا کہ ان کا ہدف کیا ہے۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ، جس میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا، مولوی فضل اللہ ایسے شخص کو انہوںنے لیڈر چنا۔ اس شخص کا اعلان یہ ہے کہ سابق کی طرح ، موجودہ حکومت بھی امریکی کٹھ پتلی ہے اور وہ اسے تباہ کر کے اسلامی نظام نافذ کریں گے۔ اسلام نظام؟ یعنی بندوق سے حکومت؟
نیم خواندہ فضل اللہ کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ عام لوگوں سے زیادہ اب مسلّح افواج کو ہدف کیا جائے ۔ وہ آدمی جس کے بارے میں اس کے گائوں والے گواہی دیتے ہیں کہ مذہبی قیادت کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے شب بھر وہ بھارتی فلمیں دیکھا کرتا۔ سترہ برس ہوتے ہیں ،پاکستانی طالبان کے ایک موجودہ ممتاز رہنما اس ناچیز سے ملاقات کے لیے راولپنڈی پہنچے ۔ موبائل فون ان دنوں عام نہ تھا۔ صدر کے ایک پی سی او سے انہوںنے گھر کے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ فرمایا: ہم نفاذِ شریعت کی تحریک برپا کرنے کے آرزومند ہیں ۔ عرض کیا: فروغِ اسلام نہیں ، یہ اقتدار اور جاہ کی تمنّا ہے ۔ اسلام کے لیے علم اور حکمت درکار ہے ۔ حسنِ کلام کا سلیقہ چاہیے اور اس کے لیے آدمی کو اپنی اصلاح کرنا ہوتی ہے ۔ ملاقات سے معذرت قبول کیجئے ۔
مسلّح افواج ہی کیا، مذاکرات نتیجہ خیز ہو سکیں تو اٹھارہ کروڑ انسانوں میں سے چند سو جنونیوں کے سوا کس کو خوشی نہ ہوگی ۔ اب تو یہی مقصد حاصل کیا جا سکتاہے کہ ان میں سے جو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوں ، ان کے لیے فضا ہموار کر دی جائے ۔
مسلّح افواج سے زیادہ عنان اب وزیراعظم کے ہاتھ میں ہے۔ سپہ سالار اور آئی ایس آئی کا سربراہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی طرف سے کوئی الجھائو پیدا کرنے کی کوشش ہرگز نہ ہوگی ۔ 2001ء سے شروع ہونے والی خانہ جنگی اور عسکری اقتدار سے فوجی قیادت نے وہ سبق سیکھے ہیں ، جو انہیں سیکھنا تھے ۔ یہ نکتہ مگر یاد رہے کہ حکومتی اقدامات کو میدانِ جنگ میں زندگیاں نذر کرتے جانبازوں کی حوصلہ شکنی کا سبب نہ بننا چاہیے ۔ مذاکرات کی میز سجانے کا ارادہ ہوا تو اس قدر احتیاط جنرل کیانی نے اختیار کر لی کہ قبائلی خطّے میں معمول کی فوجی نقل و حرکت بھی روک دی ۔
فائدہ مگر کیا ہوا؟ اس بھوکے شیر کی طرح ، جو انسانی خون چکھ کر آدم خور ہو جاتاہے ، طالبان کے گروہ حکم چلانے ، روپیہ بٹورنے اور من مانی کے عادی ہو چکے ۔ ریاست یکسو نہیں ۔ اس کمزوری سے وہ فائدہ اٹھا تے ہیں ؛ دراں حالیکہ کہ عملاً خود وہ کمزور ہو چکے ۔ اکثر علاقوں میں ان کی کمر ٹوٹ چکی ۔ باہم اختلافات ابھر آئے ہیں اور اندر ہی اندر کشمکش جاری ہے ۔ اقتدار کا نشہ لیکن ایسا نہیں کہ ترشی اتار دے ۔ ان کی مدد کرنے والے بہت ہیں ۔ قومی سیاست میں سرگرم مذہبی پارٹیاں تو فکری مغالطوں اور جذباتی اندازِ فکر کی وجہ سے نفسیاتی اعتبار سے ان کی پشت پناہ ہیں ۔ ایک آدھ گروہ ایسا بھی ، جس نے پاکستان کو دل سے کبھی تسلیم نہ کیا۔ جس کے لیڈر ہر چند ماہ بعد اعلان کرتے ہیں کہ ہندوستانی ایک قوم بن گئے مگر پاکستانی نہ بن سکے ۔
پندرہ برس ہوتے ہیں ، مکّہ مکرمہ میں حرم پاک کے دروازے پر جمعیت علمائِ اسلام کے ایک لیڈر سے عرض کیا : طالبان سے پوچھیے کہ وہ ریاض بسرا اور اس کے ساتھیوں کو پناہ کیوں دیتے ہیں۔ ابھی ابھی خانہ کعبہ کے قریب ان کے وزراء میں سے ایک سے ملاقات کا آپ نے شرف پایا تھا ۔ بولے : ان کا موقف یہ ہے کہ پناہ ہم نہیں دیتے ، وہ چھپ جاتے ہیں ۔ گزارش کی، آپ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ۔ ایک اور معروف کالم نگار ہم سفر تھے ۔ ہم دونوں کو اپنے ایک دوست کے گھر کھانے پر لے گئے۔ ان صاحب نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ قائد اعظم انگریزوں کے ایجنٹ تھے۔ بارِ دگر یہ حادثہ اس وقت ہوا ، جب سکردو سے تعلق رکھنے والا علما کا ایک وفد ملنے آیا۔
قبائلی علاقوں میں ایک تحریک اٹھی ہے کہ اس کے رائے دہندگان کو وہ تمام حقوق دیے جائیں ، جو پاکستان کے دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں ، مثال کے طور پر پختون خوا کے مکینوں کو ۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ قبائلی علاقوں کو صوبے میں ڈھالنے کی منصوبہ بندی شروع ہو ؟ کیسا تضاد ہے کہ وہ پاکستان کے شہری ہیں ، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی ہے مگر پاکستانی دستوراور قوانین کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا۔
مسلّح افواج کی قیادت واضح کرچکی کہ مذاکرات آئین کی حدود میں ہونے چاہئیں اور ظاہر ہے کہ لا محدود وقت کے لیے جاری نہیں رہ سکتے ۔ دوسرے علاقوں میں ان کی قوت ختم کر دینے کے بعد شمالی وزیرستان میں زیادہ سے زیادہ اب یہ چندماہ کی کارروائی ہوگی ۔ بات چیت کی بیل منڈھے چڑھ سکے تو سبحان اللہ، وگرنہ کب تک انتظار ؟اگلے موسمِ بہار کے بعد بھی ؟
فقط افواج نہیں بلکہ پوری قوم ملک کا دفاع کیا کرتی ہے ۔ 1971ء کے سانحے سے اگر یہ سبق ہم نے سیکھ لیا ہوتا تو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتے ۔ ادراک کرتے کہ ملک کو ڈھنگ کی پولیس درکار ہوتی ہے ، جو حکمرانوں کی باندی نہیں بلکہ عوام کی خدمت گزار ہو ۔ دنیا بھر میں پولیس ہی دہشت گردی کے خلاف پہلی دفاعی لائن ہوتی ہے مگر پاکستان میں اسے جدید اندازمیں ڈھالنے کی کوئی کوشش کبھی نہ ہوئی۔
اس آخری مرحلے میں خفیہ کاری کا کردار زیادہ اہمیت کاحامل ہے ۔ نیشنل سکیورٹی کے اس سیکرٹریٹ کا کیا ہوا، جہاں انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا تھا۔ چند ماہ قبل وزیرِ داخلہ بہت پرجوش تھے ۔ انٹیلی جنس بیورو کو اگر مضبوط بنایا جائے ، اتفاق سے ، جس کا موجودہ سربراہ ایک بااصول آدمی ہے ۔ اگر صوبوں میں سپیشل برانچ کو اور زیادہ پیشہ ورانہ مہارت سے مالامال کیا جائے ۔ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور تربیت پر توجہ دی جائے ۔ اگر سول اور عسکری ایجنسیوں میں تال میل بڑھ سکے ۔ زیادہ سے زیادہ ایک برس میں دہشت گردی برائے نام رہ جائے گی ۔ اس اثنا میں کراچی کا آپریشن اگر آگے بڑھتا رہا اور بلوچستان میں پیش قدمی ہو سکے تو امن وامان کے قیام اور نچلی عدالتوں کو بہتر بنا کر معاشی نمو کا آغاز ممکن ہے ۔ تھوڑی سی مزید معاشی بحالی کے ساتھ ٹیکس وصولی کی شرح جنرل محمد ضیاء الحق کے دور کی سطح... 16فیصد...پر لائی جا سکے تو پاکستان ایک محتاج ملک نہ رہے گا۔
یکسوئی جنابِ والا، یکسوئی ! ترجیحات کا تعین ۔ افراد یا اقوام ، کارگۂ حیات میںسرخرو وہی ہوتے ہیں، جو ترجیحات کا تعین کر سکیں۔ شریف خاندا ن کے لیے یہ آخری موقع ہے ، ورنہ تاریخ کا کوڑے دان ان کا منتظر ہے ۔ اب یہ میاں نواز شریف پہ ہے کہ وہ فقط دولت کے انبار سمیٹنے اور اقتدار کے مزے لوٹنے کے آرزومند ہیں یا تاریخ کے دوام میں سرخروئی کے خواہش مند!